آہ!جیلانی خان

از:- معصوم مرادآبادی

لکھنؤ سے برادرم پرویز ملک زادہ نے یہ اندوہناک اطلاع دی ہے کہ روزنامہ ’انقلاب‘ لکھنؤ کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر جیلانی خان انتقال کرگئے۔ جیلانی خان پچھلے کافی عرصے سے موت سے لوہا لے رہے تھے۔ اسپتال،دفتر اور گھر ان کے تین پڑاؤ تھے مگر ان کی قوت ارادی دیکھ کر مجھے یوں لگتا تھا کہ وہ دیرسویر اپنی بیماری پر قابو پالیں گے، مگر ایسا نہیں ہوسکا اور وہ جواں عمری ہی میں وہاں چلے گئے جہاں سے کوئی واپس آتا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

جیلانی خان کا تعلق بہار کے ضلع گیا سے تھا۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرکے اردو صحافت کو اپنایا تھا۔ شروعات روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ سے کی۔ میری ان سے پہلی ملاقات اب سے کوئی پندرہ برس پہلے حیدرآباد میں ہوئی تھی جہاں وہ ’راشٹریہ سہارا‘ کے انچارج تھے۔ ایک نستعلیق اور باصلاحیت نوجوان سے مل کر مجھے خوشی ہوئی۔پھر ان سے ایک رابطہ قائم ہوا جو بدستور قائم رہا۔بعد کو انھوں نے ’راشٹریہ سہارا‘ چھوڑ کر روزنامہ ’انقلاب‘ سے وابستگی اختیار کی اور اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر اس کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر بنائے گئے۔ انھوں نے اپنی صلاحیتوں کے نقوش چھوڑے۔ وہ جب تک صحت مند رہے ’انقلاب‘ کے لیے باقاعدہ کالم بھی لکھتے رہے۔ ان کی تحریروں میں ایک جاذبیت اور آگاہی تھی۔میں جب بھی لکھنؤ جاتا تو کہیں نہ کہیں ان سے ملاقات ہوجاتی تھی۔بڑی محبت سے ملتے تھے۔پھر ان کی بیماریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ بہت کمزور بھی ہوگئے تھے۔آپریشن ہوااورکئی دشوار مراحل سے گزرے، لیکن مجھے اتنی جلدی ان کے رخصت ہونے کا یقین نہیں تھا۔ ان کی بیماری کے دوران ’انقلاب‘کے ایڈیٹر برادرم ودود ساجد نے ان کا خاص خیال رکھا اور انھیں علاج کی سہولتیں بھی فراہم کیں۔ بہرحال موت برحق ہے اور ہم سب کو اس کا مزہ چکھنا ہے۔ جب کوئی جوان موت ہوتی ہے تومجھے غالب کا یہ مصرعہ یاد آتا ہے جو انھوں نے اپنے جواں سال بھتیجے عارف کی موت پر کہا تھا
اے فلک پیر عارف ابھی جوان تھا

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔