آزاد ہندوستان کی سیاسی تاریخ

از:- شمیم ریاض ندوی

محرک : مجلس علماء ملت کشن گنج بہار

صوبہ پنجاب:

صوبہ پنجاب کے ضلع گورداسپور میں مسلمانوں کی آبادی اور فسادات کا ایک تاریخی جائزہ:

برصغیر کی تقسیم 1947ء محض ایک سیاسی واقعہ نہیں تھا، بلکہ ایک انسانی المیہ بھی تھا۔ پنجاب کے کئی اضلاع بالخصوص امرتسر کے بعد ضلع گورداسپور فسادات اور ہجرت کے ایسے دلخراش واقعات کے گواہ ہیں جو تاریخ کے اوراق پر خون کے دھبوں کی طرح نقش ہیں۔

تقسیم سے پہلے کی آبادی

1941ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع گورداسپور کی کل آبادی تقریباً 11 لاکھ تھی، جس میں:
مسلمان: تقریباً 51 فیصد
ہندو اور سکھ: تقریباً 49 فیصد
گورداسپور کی تحصیلی یہ تھیں:

  • 1. پٹھان کوٹ
  • 2. بٹالہ
  • 3. دھاریوال
  • 4. گورداسپور شہر و گرد و نواح

ان میں بٹالہ، دھاریوال اور گورداسپور شہر مسلمان اکثریت کے علاقے تھے، جبکہ پٹھان کوٹ میں ہندو اور سکھوں کی اکثریت تھی۔

تقسیم اور فسادات

14 اگست 1947ء کے اعلانِ آزادی کے ساتھ ہی گورداسپور فسادات کی لپیٹ میں آ گیا۔ مسلمانوں نے اُمید رکھی تھی کہ مسلم اکثریت کی بنیاد پر یہ ضلع پاکستان میں شامل ہوگا، لیکن ریڈکلف ایوارڈ کے ذریعے گورداسپور بھارت کو دے دیا گیا تاکہ کشمیر تک بھارت کو سڑک اور زمینی راستہ حاصل ہو سکے۔

بڑے فسادات کے مراکز

بٹالہ: یہاں سب سے زیادہ قتل و غارت ہوئی، ہزاروں مسلمان شہید کیے گئے اور پورے گاؤں نذرِ آتش ہوئے۔

دھاریوال: مسلمانوں کی بستیوں پر مسلح ہجوم نے حملے کیے، عورتیں اور بچے بھی محفوظ نہ رہے۔

گورداسپور شہر: یہاں مسلمانوں کو ریلوے اسٹیشن پر ذبح کیا گیا اور بڑی تعداد میں لاشیں ریلوے لائنوں پر پڑی رہیں۔

عینی شاہدین کی تحریریں اور رپورٹس

ڈاکٹر مبارک علی کی تحقیق کے مطابق گورداسپور میں فسادات "قتلِ عام” کی صورت اختیار کر گئے تھے۔

کرنل مشتاق احمد (مہاجر خاندان کے چشم دید گواہ) نے لکھا: “ہمارے قافلے کو بٹالہ کے قریب گھیر کر لوٹا گیا، ہزاروں لوگ شہید ہوئے اور عورتوں کو قید کر کے لے جایا گیا۔”

پاکستان کے مؤرخ ڈاکٹر صفدر محمود کے مطابق: “گورداسپور کے مسلمان یہ سمجھتے رہے کہ وہ پاکستان میں شامل ہوں گے، اسی اعتماد نے ان کے اندر مزاحمت کو کمزور کر دیا، اور یوں وہ سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ثابت ہوئے۔”

بھارتی صحافی خورشید کامران نے اپنی ڈائری میں لکھا: “گورداسپور کے فسادات میں انسانیت کی تذلیل کی وہ مثالیں قائم ہوئیں جو بیان سے باہر ہیں۔”

خواجہ افتخار اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ:
"بٹالہ کے قریب ایک گاؤں میں مسلمانوں کو گھیر کر زندہ جلا دیا گیا، عورتوں کو اٹھا کر لے جایا گیا، اور بچوں کو تلواروں سے کاٹا گیا۔”

کرنل غلام جیلانی (بعد کے گورنر پنجاب) اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں:
"ہم نے گورداسپور کی زمین پر خون کی ندیاں دیکھی ہیں۔ لوگ کٹے پھٹے قافلوں کی شکل میں پاکستان پہنچتے تھے، ان کے بدن پر کپڑے نہ تھے، لیکن ان کی آنکھوں میں بقا کی روشنی باقی تھی۔”

ٹرینوں کی کہانیاں خاص طور پر مشہور ہیں، جنہیں "خونی ٹرینیں” کہا گیا۔ یہ ٹرینیں پاکستان کی سرحد پر پہنچتی تو اندر کوئی زندہ نہ بچتا تھا۔

ہجرت اور آج کے حالات

فسادات کے نتیجے میں 95 فیصد سے زائد مسلمان گورداسپور سے ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے ۔

زیادہ تر لوگ سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور لاہور میں آباد ہوئے۔

آج ضلع گورداسپور میں مسلمانوں کی آبادی 1 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے، اور وہ بھی زیادہ تر چھوٹے چھوٹے قصبوں میں پسماندہ طبقے کے طور پر موجود ہیں۔

گورداسپور کی کہانی صرف ایک ضلع کی نہیں بلکہ پوری تقسیمِ ہند کی عکاس ہے۔ یہ واقعہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ آزادی کے وقت مسلمانوں نے صرف زمین ہی نہیں بلکہ لاکھوں جانوں کی قربانیاں بھی دی تھیں۔ گورداسپور کے فسادات آج بھی اس بات کی یاد دہانی ہیں کہ آزادی کے تحفے کی قیمت خون اور ہجرت سے ادا کی گئی تھی۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔