تعارف و تبصرہ : شکیل رشید
چہرے پڑھنا ایک فن ہے ، اور ہر فن کی طرح اس فن میں طاق ہونے کے لیے برسوں کا تجربہ اور گہرا مشاہدہ ضروری ہے ، اور کسی منجھے ہوئے صحافی سے بڑھ کر تجربے اور مشاہدے کی دولت سے کون مالامال ہو سکتا ہے ! میری بات پر اگر کسی کو یقین نہیں ہے ، تو اسے چاہیے کہ وہ سینیئر صحافی معصوم مرادآبادی کے خاکوں کا مجموعہ ’ چہرے پڑھا کرو ‘ کا مطالعہ کر لے ۔ یہ خاکے ، جنہیں تعزیتی تحریریں یا وفیات نگاری بھی کہا جا سکتا ہے ، کہ یہ مرحومین کی یادوں پر مشتمل ہیں ، ’ چہروں کے مطالعہ ‘ کی اعلیٰ مثال ہیں ۔ انہیں تحریر کرتے ہوئے خاکہ نگار نے صحافت کی دنیا میں جو کچھ سیکھا ہے – لکھنے کا ہنر ، ایجاز کا کمال ، پیچیدہ جملوں سے احتراز ، لفظوں کو سیدھے اور سہل انداز میں استعمال کرنے کا ڈھنگ – سب برت لیا ہے ۔ وہ مرحومین سے وابستہ یادوں کو ، کچھ اس تاسف اور ملال سے کاغذ پر اتارتے ہیں ، کہ پڑھنے والوں پر اس کا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے اور انہیں لگتا ہے جیسے ان کا اپنا کوئی انہیں چھوڑ گیا ہے ۔ کتاب کے ’ مقدمہ ‘ میں پروفیسر شافع قدوائی اِن تحریروں پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ معصوم مرادآبادی نے ادھر کئی برسوں سے وفیات نگاری کو اردو میں ایک باقاعدہ صنف کے طور پر رائج کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے اور اس صنف میں اپنی تخلیقی ہنرمندی کے واضح نقوش مرتسم کیے ہیں ۔ انتقال سے متحرک ہونے والے جذباتی ردعمل میں جذبات کی تہذیب اور معروضیت سے غذا حاصل کرنے والی تحریر کو ایک نوع کی لازمانی جہت عطا کرنا آسان نہیں ہے ۔ معصوم مرادآبادی نے خسارے کے گہرے احساس کو ایک ایسے اسلوب میں پیش کیا ہے جو قارئین کے حواس پر ایک تجربے کے طور پر وارد ہوتا ہے ۔‘‘ ان خاکوں کے لیے وہ مصنف کی ستائش کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ خاکہ کی گرم بازاری کے دور میں معصوم مرادآبادی کے خاکے بے مثال اور مشاہدہ ، سہولت اظہار اور گہری انسانی درد مندی کے نئے امکانات وا کرتے ہیں اور خاکہ نگاری کے نئے محاورے کی جستجو کے غماز ہیں جس کے لیے وہ ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں ۔‘‘
یہ خاکے کیوں لکھے گیے؟ کیا صرف اس لیے کہ خاکہ نگار نے وفیات نگاری کو ایک باقاعدہ صنف کے طور پر رائج کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے؟ یا خاکہ نگار کسی شخص کے انتقال کی خبر سن کر ایسا بے چین ہوا کہ اس کا قلم بے اختیار چلنے لگا ؟ معصوم مرادآبادی نے کتاب کے ’ پیش لفظ ‘ میں مذکورہ سوالوں کے جواب یوں دیے ہیں : ’’ دراصل جب بھی کسی بڑی علمی ، ادبی یا سماجی شخصیت کا انتقال ہوتا ہے تو فوراً میرے قلم میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور میں اُسی روز اُس شخصیت کو خراجِ عقیدت کے طور پر ایک مضمون لکھتا ہوں ۔ ان میں بیشتر وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں میں نے قریب سے دیکھا ہے ۔‘‘ گویا کہ ان خاکوں کو لکھنے کا سبب ، چند لوگوں کی موت کی خبر پر ، خاکہ نگار کا کرب بنی ، چند لوگوں سے ایسے قریبی تعلقات تھے کہ موت کی اطلاع پر خاکہ نگار کو جذباتی جھٹکا لگا اور قلم چل پڑا ، کچھ شخصیات اتنی بڑی اور ایسی عظیم تھیں کہ اُن کی موت کے اثرات سارے عالم پر پڑے ، خاکہ نگار پر بھی پڑے ۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے ، کہ خاکہ نگار کے دلِ درمند پر ان خاکوں کی شخصیات کی اموات نے اثر ڈالا جو ان خاکوں کو تحریر کرنے کا سبب بنا ۔
اس سے پہلے کہ خاکوں پر بات کی جائے عمیر الصدیق ندوی ( مدیر ’ معارف ‘ اعظم گڑھ ) اور پروفیسر عباس رضا نیّر ( لکھنئو ) کی آراء پر ایک نظر ڈال لی جائے ۔ یہ دونوں ہی آراء کتاب کے اندرونی فلیپ پر – ایک سرورق کی پشت اور دوسری پس ورق کی پشت – شائع ہوئی ہیں ۔ عمیر الصدیق ندوی لکھتے ہیں : ’’ چراغوں کے بجھنے سے جن لوگوں کو اندھیرے کی ویرانی اور تاریکی پھیلنے اور بڑھنے کا اذیت ناک احساس زیادہ ستاتا ہے ، معصوم مرادآبادی کا شمار ان ہی انسانوں میں ہے ۔ شعری ، ادبی اور فنّی بستیوں میں سناٹوں کی حکمرانی عام اور تام نہ ہو ، اس کے لیے انہوں نے اردو کے سرکردہ شاعروں ، ادیبوں اور فنکاروں کی یادوں کو زبان دی ہے ۔جناب معصوم باکمال صحافی ہیں اور صحافیوں کی اُس صف میں ہیں جن سے اردو ادبِ عالیہ کی رونق کبھی کم نہیں ہوسکتی ۔‘‘
پروفیسر عباس رضا نیّر لکھتے ہیں کہ معصوم مرادآبادی ’’ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی شخص کی بھرپور اور مبسوط سوانح عمری بیان کرنے کی بجائے اپنے تجربے ، مشاہدے اور جزیات نگاری کی قوتوں کو بروئے کار لا کر شخصیت کے چند اہم اور معنی خیز پہلوؤں کو ہی اجاگر کرتے ہیں اور جستہ جستہ واقعات کی روشنی میں زندگی کی مکمل تصویر پیش کر دیتے ہیں ۔‘‘
اب خاکوں پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں ۔
خاکوں کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ پہلے باب میں ادبا ، شعرا اور فنکاروں کے 29 خاکے ہیں ۔ پہلے دو خاکے شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ کے ہیں ، پھر شمیم حنفی ، گلزار دہلوی ، مجتبٰی حسین ، منوّر رانا اور دلیپ کمار اور دیگر شخصیات کے خاکے ہیں ۔ میں دلیپ کمار کے خاکہ پر کچھ بات کرنا چاہوں گا ۔ یہ خاکہ موت کی اطلاع سے شروع ہوتا ہے : ’’ فن اداکاری کے بے تاج بادشاہ محمد یوسف خان ، جنہیں پوری دنیا دلیپ کمار کے فلمی نام سے جانتی تھی ، گزشتہ 7 جولائی 2021 کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گیے ۔‘‘ پھر خاکہ نگار نے دلیپ کمار کی عظمت ، وقار اور ان کی دیومالائی شخصیت پر روشنی ڈالتے اور فلمی دنیا و سماجی میدان میں ان کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے مرحوم سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں : ’’ مجھے ان سے کئی مرتبہ ملنے اور گفتگو کرنے کا موقع ملا ۔ یہ ملاقاتیں سب سے زیادہ اس دور میں ہوئیں جب وہ 2000 سے 2006 کے درمیان راجیہ سبھا کے رکن رہے ۔ ان سے اکثر پارلیمنٹ کے کوریڈور میں ملاقات ہو جاتی تھی ۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ دیگر اداکاروں کی طرح اپنے مداحوں سے کنّی نہیں کاٹتے تھے اور جو کوئی ان سے مخاطب ہوتا تو اس کو تسلی بخش جواب دیتے تھے ۔ لاجواب اداکار ہونے کے باوجود ان کی ذاتی زندگی میں تصنع اور بناؤٹ کا کوئی شائبہ تک نہیں تھا ۔ اردو زبان اور مشرقی تہذیپ ان کی سب سے بڑی پہچان تھی ۔ وہ اردو شاعری سے خاص شغف رکھتے تھے اور انہوں نے اپنی زندگی میں کئی اہم مشاعروں کی صدارت بھی کی ۔‘‘ یہ اقتباس خاکہ نگار کے قوتِ مشاہدہ کی بہترین مثال ہے ۔ اس میں ساتھ ساتھ کئی طرح کی معلومات بھی دے دی گئی ہیں ، جن سے دلیپ کمار کی شخصیت اور ان کے مزاج کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے ۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں : ’’ حکومت نے انہیں پدم بھوشن اور پدم وبھوشن سے سرفراز کیا ، لیکن نہ جانے کیوں انہیں ’ بھارت رتن ‘ دینے سے گریز کیا ، جب کہ وہ اس کے سب سے زیادہ حقدار تھے ۔ یہ بات بھی افسوس کی ہے کہ انہیں راجیہ سبھا میں کانگریس پارٹی کے ممبر کے طور پر چُنا گیا جب کہ ان کی نامزدگی صدر جمہوریہ کی طرف سے اپنے میدان کی غیر معمولی شخصیت کے طور پر ہونی چاہیے تھی ۔ حکومت پاکستان نے انہیں اپنے سب سے بڑے شہری اعزاز ’ ستارۂ امتیاز ‘ سے سرفراز کیا تھا اور پشاور میں واقع ان کے گھر کو قومی یادگار کا درجہ دیا ۔‘‘ معصوم مرادآبادی نے ان سطروں میں وہ سب کہہ دیا جو سمجھنے والے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ۔ اس خاکہ کی آخری سطر دلیپ صاحب کی عظمت کا عقیدت بھرا اعتراف ہے : ’’ ان جیسے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور صدیوں تک ان کے اثرات باقی رہتے ہیں ۔‘‘
اس باب میں شمس الرحمن فاروقی کو ، جنہیں کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ ملے ، پدم شری کا اعزاز بھی ملا ، خراجِ عقیدت پیش کرنے کا انداز دیکھیں : ’’ یہ اُن کا بڑا پن تھا کہ انہوں نے کبھی ان اعزازات کو اپنے سینے پر نہیں سجایا ۔ اُنہوں نے اپنے نام کے ساتھ کبھی ’ پدم شری ‘ نہیں لکھا ۔ ظاہر ہے ان کی شناخت انعام و اکرام نہیں تھے بلکہ وہ کام تھا جس کی بنیاد پر انہیں موجودہ عہد میں اردو کا سب سے بڑا ادیب تسلیم کیا گیا ۔‘‘ گوپی چند نارنگ کے خاکہ کی بھی چند سطریں ملاحظہ کریں : ’’ نارنگ صاحب کو علمی و ادبی گفتگو کرنے پر ملکہ حاصل تھا ۔ وہ جب بولتے تھے تو ہال میں پِن ڈراپ سائلنس ہو جاتا تھا ، وہ زاویے بدل بدل کر سامعین سے مخاطب ہوتے تھے اور نثر میں شاعری کا سماں پیدا کر دیتے تھے ۔ ان کی گفتگو بہت نپی تلی اور موضوع کے مطابق ہوتی تھی ۔‘‘
کتاب کے دوسرے باب میں 12 مرحوم صحافیوں پر خاکے ہیں ۔ احمد سعید ملیح آبادی ، حفیظ نعمانی ، ظ انصاری ، عالم نقوی و دیگر پر ۔ ظ انصاری کے خاکہ کی یہ سطریں دیکھیں : ’’ انہوں نے دینی تعلیم بھی حاصلِ کی تھی ، لیکن لیکن زندگی ایک مارکسی مجذوب کے طور پر گزاری ۔ لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو انہوں نے کمیونزم سے توبہ کر لی ۔ اس دوران آنہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جب روسی فوجیں کابل میں داخل ہوئیں تو مجھے ایسا لگا کہ یہ میرے سینے پر چل رہی ہیں ۔‘‘ عالم نقوی کا خاکہ مجھے رُلا گیا ۔ میں نے مرحوم کی ادارت میں کام کیا ہے اور بہت کچھ سیکھا ہے ۔ خاکہ نگار نے سچ لکھا ہے کہ : ’’ عالم نقوی اردو صحافیوں کی اُس نسل کی نمائندگی کرتے ہیں جس نے اس میدان میں اپنی ہڈیاں گھلائیں اور اردو صحافت سے اپنی بیش بہا خدمات کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کیا ۔ وہ جتنے بے باک تھے ، اتنے بے لوث اور خوددار بھی تھے ۔ ان کی طبیعت میں کسی قسم کا طمع یا لالچ نہیں تھا ۔ نہایت سادگی ، انکساری اور عاجزی کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی کا سفر پورا کیا ۔‘‘ ایک ایسا صحافی جس کی زندگی کا آخری دور بے بسی کا تھا ۔ اللہ مغفرت فرمائے، آمین۔
تیسرا باب بی امّاں ، حسرت موہانی ، بیگم انیس قدوائی ، سبھدرا جوشی ، فخرالدین علی احمد اور سید حسین کے خاکوں پر مشتمل ہے ۔ یہ سب خاکے یہ احساس دلانے میں کامیاب ہیں ، کہ ہم نے کیسی کیسی شخصیات کو کھو دیا ہے ! چوتھا باب علماء کرام پر ہے ۔ اس باب میں ڈاکٹر اسرار احمد ، مولانا وحید الدین خان ، مولانا رابع حسنی ندوی ، مولانا کلب صادق ، مولانا عبدالملک جامعی ، مولانا عطاء الرحمن وجدی ، ( مولانا) گلزار اعظمی ، مولانا یعقوب شاہجہانپوری اور مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کے خاکے ہیں ۔ گلزار اعظمی مولانا نہیں تھے ، لیکن ان کی شخصیت ایک عالِم جیسی ہی تھی اسی لیے اکثر لوگ ان کے نام کے ساتھ ’ مولانا ‘ کا سابقہ لگا دیتے ہیں ۔ چند سطریں ان کے خاکہ سے ملاحظہ کریں : ’’ گلزار اعظمی نے پوری زندگی ملّت کی بے لوث خدمت میں گزاری ۔ وہ ایک لمحہ بھی اس سے غافل نہیں رہے ۔ آخری زمانے میں اُنہوں نے اپنی تمام توانائی دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں ماخوذ نوجوانوں کو قانونی امداد مہیا کرانے میں لگا دی تھی ۔ وہ کئی بے قصور نوجوانوں کو پھانسی کے پھندے سے بچانے میں کامیاب ہوئے ۔ وہ یوں تو جمعیۃ علماء کی قانونی امداد کمیٹی کے ذمہ دار تھے ، لیکن اگر میں یہ کہوں کہ ان کی خدمات موجودہ دور میں جمعیۃ میں کسی بھی عہدیدار سے زیادہ تھیں تو بے جا نہیں ہوگا ۔‘‘ یہ سطریں خاکہ نگار کے ایجاز کا کمال ہیں ، ان میں گلزار اعظمی مرحوم کی ساری خدمات سمٹ آئی ہیں ۔ پانچواں باب دس بڑی شخصیات کے خاکوں پر مشتمل ہے، منموہن سنگھ ، شاہی امام سید عبداللہ بخاری ، مولانا سید احمد ہاشمی ، سید شہاب الدین ، ظفریاب جیلانی ایڈوکیٹ ، احمد پٹیل ، قاضی رشید مسعود ، ملائم سنگھ یادو ، الیاس اعظمی اور سیتا رام یچوری ۔ ایک صحافی کی حیثیت سے معصوم مرادآبادی کا ان شخصیات سے سامنا ہوتا رہتا تھا اور ان کی زندگی کے طرح طرح کے پہلو ان کے سامنے آتے رہتے تھے ، جنہیں خاکہ نگار نے ایمانداری سے قارئین کے سامنے پیش کر دیا ہے ۔ کتاب کا انتساب لکھنئو کی معروف شخصیت اویس سنبھلی کے نام ہے ، جو ایک اچھے ادیب اور خود ایک بہترین خاکہ نگار ہیں ۔ کتاب ’ ایم آر پبلیکیشنز ، نئی دہلی ‘ نے شائع کی ہے ۔ صفحات 408 ہیں اور قیمت 550 روپیے ۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے موبائل نمبر 9810780563 اور 9810784549 پر رابطہ کریں ۔