Slide
Slide
Slide

ہندوتوا انتہا پسندی: نظریاتی کشمکش اور مسلمان کا مطالعہ

 

از قلم:عدیل اختر

یہ کتاب جماعت اسلامی ہند کےمحترم امیر جناب سید سعادت اللہ حسینی صاحب کی ایک وقیع تصنیف ہے جو جماعت کے کتب خانے مرکزی مکتبہ اسلامی سے بہ اہتمام خاص شائع ہوئی ہے۔ کتاب کے حاصل مطالعہ کو قلم بند کرتے ہوئے سب سے پہلے  ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ کے سکریٹری محترم اشہد جمال ندوی صاحب کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے کہ انہوں نے از راہ عنایت یہ کتاب ہدیہ کرکے اس کے مطالعے کا موقع دیا۔ یہ ہدیہ وصول کرتے وقت راقم نے نیت کر لی تھی کہ اس کا تعارف و تبصرہ نشر کرنے کی توقع کو پورا کروں گا ان شاءاللہ۔

زیر نظر کتاب،بلاشبہ، ایک قیمتی اور اہم تصنیف ہے اور اس کے مباحث و مواد لائق مطالعہ ہیں۔ جیسا کہ کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے، مصنف نے ہندوتوا کا تفصیلی اور تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے اور اسے ایک چیلنج باور کرتے ہوئے اس کے تدارک کے لیے ایک لائحہ عمل تجویز کیا ہے۔ تصنیف و تالیف کے لئے”ہندوتوا” تحریک اسلامی کے حلقوں میں کوئی نیا موضوع نہیں ہے، زائد از تیس سال پہلے سہ روزہ دعوت کا ایک خصوصی شمارہ اسی عنوان سے شائع ہوا تھا، اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی اس عنوان پر کئی چھوٹی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ تحریک اسلامی کے حلقے سے باہر کے کچھ ملی دانشوروں نے بھی حالیہ عرصے میں اس پر کچھ تصانیف قلم بند کی ہیں۔ تاہم یہ کتاب اس موضوع پر اردو کی لائیبریری میں اس لحاظ سے ایک بیش قیمت اضافہ ہے کہ یہ کافی غوروفکر اور بہت تفصیلی مطالعے کے بعد تصنیف کی گئی ہے اور ایک فکر انگیز تصنیف ہے۔

ساڑھے چار سو سے زیادہ صفحات میں 22 الگ الگ تفصیلی مضامین ، جنھیں چار حصوں میں ترتیب دیا گیا ہے، پر مشتمل اس کتاب پر مختصر الفاظ میں تبصرہ ممکن نہیں ہے بلکہ ایک تفصیلی بحث درکار ہے۔ تاہم یہ گفتگو، غوروفکر اور بحث و مباحثہ کے لئے ایک سنجیدہ پیش کش ہے جس پر تحریک اسلامی سے وابستہ الگ الگ حلقوں اور رجحان والے اہل فکر و نظر کو نیز دیگر مسلم دانشوروں کو توجہ کرنی چاہئے اور اس میں پیش کئے گئے تجزیوں وخیالات کے ردو قبول کے لئے اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ 

راقم کے خیال میں اس کتاب کی سب سے زیادہ قابل تائید بات یہ ہے کہ مصنف نے ہندوتوا کے ہیجان کو شرک کے قیام اور غلبے کی ایک تحریک تسلیم کیا ہے۔ صفحہ112پر مصنف لکھتے ہیں:”اس طرح توحید کے رد اور شرک کی حمایت میں ایک طاقتور تحریک برپا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جس کی قیادت ہمارے ملک کے مذکورہ دانشوروں کے ہاتھوں میں ہوگی اور یہ حضرات ‘وشو گرو’ کا کردار ادا کریں گے۔ ” لیکن اس نتیجے تک پہنچنے کے لئے مصنف کی فکر کا دائرہ بہت محدود ہو کر ہندوتوادی دانشوروں کے ایک مخصوص گروہ "وائس آف انڈیا” تک سمٹ کر رہ گیا ہے جسے وہ "نو ہندوتوا” (Neo Hindutva) کے زمر ے کا ایک اہم دھارا قرار دیتے ہیں۔دراصل مصنف نے مختلف ہندوتوا دی گروہوں کو الگ الگ کرکے دیکھا ہے، جیسا کہ وہ ہیں۔ ان گروہوں کے جو ظاہری بیانئے اور طور طریق ہیں ان کی بنیاد پر ان کا اور ان کے افکار کا تعارف کرایا ہے، اور اس ضمن میں انھوں نے آر ایس ایس یا سنگھ پریوار کو ایک معتدل گروہ سمجھا ہے۔لیکن اس نتیجہ فکر سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا ہے۔

ہندوتوا دی تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے مختلف دھڑوں کو اگرچہ تعارف کے بطور الگ الگ کرکے بتانا صحیح ہے لیکن ہندوتوا کے سب سے بڑے، سب سے زیادہ منظم اور سیانے گروپ کو اگر کسی شدت پسند دھڑے کے موازنے میں ایک معتدل گروپ کے خانے میں رکھا جائے گا تو یہ ایک کمزور اور غلط نتیجہ فکر ہوگا۔ مصنف موصوف نے خود ہی لکھا ہے کہ گری لال جین، ارون شوری اور ایس گرومورتی جیسے صحافی بھی وائس آف انڈیا گروپ سے وابستہ رہے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ اس طرح کے لوگوں کو سنگھ سے الگ کیسے سمجھا جاسکتا ہے جب کہ یہ سنگھ سے براہ راست وابستہ تنظیموں میں بھی شامل رہے۔ جیسے ارون شوری بی جے پی کے ممبر بھی رہے اور اس کی حکومت میں وزیر بھی رہے۔ اور غالباً آر ایس ایس کیڈر میں شامل رہے ہیں، خود مصنف نے ہی یہ لکھا ہے کہ اس اشاعتی ادارے کے  بانیان پہلے سنگھ سے  وابستہ  رہے۔ در حقیقت ایک پارٹی یا گروہ میں الگ الگ کیفیت والے یا الگ الگ نقطہ نظر والے لوگوں کا ہونا ایک آفاقی حقیقت (یونیورسل فیکٹ) ہے، یہ ہر قوم میں، ہر گروہ میں اور ہر جماعت میں ہوتا ہے، اس کی بنیاد پر ان کو کوئی الگ پارٹی کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا۔ جہاں تک سنگھ یاسنگھ پریوار کی بات ہے تو اس حقیقت پر توجہ مرکوز رکھنا چاہئے کہ وہ ہندوتوادی تحریک کے نقشہ ساز اور منصوبہ ساز لوگ ہیں۔ سنگھ کے براہ راست کنٹرول میں رہنے والی تنظیمیں بھی الگ الگ لہجوں میں بات کرتی ہیں، الگ الگ طریفوں پر چلتی ہیں اور الگ الگ پروگرام انجام دیتی ہیں۔ جو ہندوتوادی گروہ سنگھ پریوار کا باضابطہ حصہ نہیں ہیں، انہیں بھی سنگھ پریوار سے الگ کرکے نہیں دیکھا جانا چاہیے کیوں کہ اپنے مقصد اور ہدف نیز جذبات میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، ان تمام آزاد گروہوں کو بھی سنگھ کی مدد و حمایت حاصل ہے اور یہ سارے گروہ سنگھ کو ہی اپنا بڑا مانتے ہیں، بس یہ ہے کہ وہ سنگھ کی پالیسیوں کا اتباع نہیں کرتے اور اس کا پابند رہنا قبول نہیں کرتے۔ چنانچہ یہاں اعتدال پسندی اور انتہا پسندی کا فرق کوئی اہمیت  نہیں  رکھتا ہے۔  نظریاتی  اعتبار سے  سے بھی ان میں  کوئی بنیادی فرق نہیں ہے ہے، جو کچھ فرق  ہےوہ ما فی الضمیر کو ظاہر کرنے اور نہ کرنے یا اظہار کے طریقہ و آہنگ کا فرق ہے۔ اس لئے عقیدہ توحید سے دشمنی اور اس کو مٹاکر مشرکانہ عقیدوں و تہذیب کو پوری دنیا میں غالب و قائم کرنے کا جنون تمام ہندوتوا دیوں کا مشترک مشن ہے۔

ہندوتوا کی کوئی تقسیم اگر موٹے طور سے ہو سکتی ہے تو "گرم ہندوتوا” اور "نرم ہندوتوا” کی ہی ہو سکتی ہے، اور یہ بات ظاہر ہے کہ آر ایس ایس گرم ہندوتوا ہے، نرم ہندوتوا نہیں ہے۔ لیکن کتاب ہذا میں نرم ہندوتوا کے تحت ان اداروں کو رکھا گیا ہے جو مختلف میدانوں میں خاموشی کے ساتھ ادارہ جاتی کام انجام دے رہے ہیں جب کہ گرم ہندوتوا کی اصطلاح استعمال ہی نہیں ہوئی ہے۔ حالانکہ سیاست و صحافت کی دنیا میں ہندو کاز کے لئے اعلانیہ سرگرم کھلاڑیوں کو گرم ہندوتوا اور خود کو سیکولر کہہ کر ہندوؤں کی ناز برداری کرنے والی پارٹیوں کو نرم ہندوتوا کہا جاتا ہے۔

مصنف کتاب نے ہندوتوا کی فلسفیانہ اور نظریاتی بنیادوں کو سمجھانے پر کافی توجہ دی ہے، اور اس کے حاصل بحث میں یہ لکھا ہے کہ” یہ (ہندوتوا) اصلا ایک سماجی تحریک ہے اور اس کی گہری فلسفیانہ بنیادیں ہیں۔ ۔۔۔ اس تحریک کا طویل صبر آزما نظریاتی مقابلہ درکار ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ان کی باتوں کو گہرائی سے سمجھا جائے، ان کے دلائل کا سنجیدہ جواب دیا جائے۔ جو لوگ ان سے متاثر ہیں ان سے مسلسل مکالمہ ہو۔” مصنف کی اس اپروچ پر راقم السطور کو کچھ انقباض ہے لیکن اس کی وضاحت بعد میں کریں گے، پہلے ان نظریاتی بنیادوں کا تذکرہ ہو جائے جنہیں مصنف نے ایک چیلنج کے طور پر لیا ہے۔

وحدت وجود: 

کائنات، کائنات میں پھیلی چیزیں اور انسان و انسانی استعداد کے تعلق سے قدیم ترین زمانے سے قدیم ترین تہذیبوں میں عقل و دانش کی بنیاد پر جو خیالات بنتے بگڑتے رہے ہیں ان میں ایک مشہور اور عالم گیر تصور اور نظریہ یہ ہے کہ یہ تمام تر کائنات جو ظاہر میں نظر آتی ہے ایک حقیقت ابدی کا عکس ہے۔ اس حقیقت ابدی کی کیفیت وماہئیت اور اس کی شناخت کو لے کر بھی طرح طرح کے نظریات پیدا ہوئے اور اس کو الگ الگ نام دئے گئے لیکن یہ مانا گیا ہے کہ یہ حقیقت ابدی اور اس کے تمام مظاہر کل ملاکر ایک وجود ہے اور جو کچھ الگ الگ دکھائی دیتا ہے وہ اس وجود کا جزو ہے۔ اسی کا نام وحدت وجود ہے۔ یہ تصور، مصر، عراق، چین، ہندستان اور یونان وغیرہ کی قدیم تہذیبوں میں الگ الگ ناموں سے مشہور ہوا۔ اس فلسفے کو عیسوی تاریخ سے پہلے کے زمانے میں یونان میں زیادہ فروغ حاصل ہوا آس لئے یونان اس طرح کے فلسفوں کے لئے مشہور ہے۔ اس یونانی فلسفے کے اثرات مسلمانوں میں بھی آئے اور مذہبی روایتیں رکھنے والی دوسری قوموں پر بھی پڑے۔ چنانچہ ہندستان کے قدیم فلسفیانہ تصورات کوجو معدوم سے ہو گئے تھے انہیں یونانی فلسفے سے جلا ملی، اور عیسائیت و اس کے بعد اسلام کی تبلیغ کو رد کرنے کے لئے برہمنوں نے پھر اسی کا سہارا لیا اور اس میں ہندوستان کے دھارمک خیالات کو ملاجلاکر کر وحدت وجود کے اس نظریے کو اپنے دھارمک نظرئے کی بنیاد بنا لیا۔ حالانکہ یہ کسی آسمانی وحی سے بننے اور پھر بگڑنے والے مذہب کا بنیادی نظریہ نہیں ہو سکتا کیوں کہ یہ وحی الٰہی کے بالکل بر خلاف اور اس کی ضد ہے۔ وحی الٰہی خالق اور مخلوق کو الگ الگ رکھتی ہے، اور خالق کو لاثانی، لا شریک، لا مشابہ بتاتی ہے۔ وجود کی وحدت کے اس نظریے کو بھارت کے ہندوؤں میں ‘ادویت واد’ یا ‘ادویتا’ کہا جاتا ہے۔ جبکہ مسلمانوں میں یہ نظریہ صوفیوں نے اپنایا اور اسے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کا نام دیا۔

زیر نظر کتاب میں مصنف نے یہ بتایا ہے کہ ادویتا ہندوتوا کی نظریاتی بنیاد ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ اس دھارمک ڈھانچے کی بنیاد ہے جسے ہندو دھرم کا نام دیا گیا ہے۔ چوں کہ یہ کوئی نئی بات اور نیا نظریہ نہیں ہے اس لیے یہ اسلام اور اہل اسلام کے لئے کوئی نیا چیلنج بھی نہیں ہے، اور اس طرح کے چیلنج کھڑے کرنے والوں کے ساتھ اسلام کسی مکالمے کا روادار نہیں ہے بلکہ اسے پوری طرح رد کردینے کا قائل ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے یعنی خالق کائنات کے بارے میں انسانوں کی مفروضہ باتوں کو یہ کہہ کر رد کردیا ہے کہ یہ اپنے ظن اور گمان کی پیروی کرتے ہیں۔” کیا تم اللہ کے بارے میں وہ باتیں کہتے ہو جو جانتے نہیں!” (2:169)؛ "ان سے پوچھو کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے کہ ہمارے سامنے اُسے پیش کرسکو؟ (حقیقت یہ ہے کہ) تم محض گمان پر چل رہے ہو اور نری قیاس آرائیاں کرتے ہو۔“،(148:6)؛ ”حالاں کہ اُنھیں اِس معاملے کا کوئی علم نہیں ہے، وہ محض گمان کی پیروی کر رہے ہیں، اور گمان حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دے سکتا۔“(28:53)؛ "کہہ دو بھلا بتاؤ تو سہی جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں میں ان کا کوئی حصہ ہے، میرے پاس اس سے پہلے کی کوئی کتاب لاؤ یا کوئی علم چلا آتا ہو وہ لاؤ اگر تم سچے ہو۔”(46:4). 

قرآن صرف ایک کلمے ‘لا’ سے ان کی نفی کرتا ہے اور اس نفی کے بعد پیدا ہونے والی کشمکش میں ثابت قدمی سے اپنے موقف پر جمے رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس باب میں فلسفیانہ مذاکرات کی ترغیب نہ تو قرآن سے ملتی ہے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے ملتی ہے۔ یونانی فلسفوں کے اثرات جب مسلمانوں کے درمیان آئے اور مسلم دانش مندوں نے جب ان مباحث میں حصہ لینا شروع کیا تو اسلام کی مدافعت اور تبلیغ کے نیک مقصد کے باوجود وہ اہل دانش خود بھی اس سے متاثر ہوئے اور بہت سے فلسفیانہ مفروضے خود مسلمانوں کے دینی معاملات میں سرایت کر گئے۔ تصوف، خانقاہ اور وحدت الوجود جیسی بدعتوں کے پھیلنے میں ان فلسفیانہ مباحث کا کافی دخل رہا ہے۔ چنانچہ اس طرح کے نظریاتی اور فکری دعوؤں سے تعامل کے بجائے ان کی نفی کرنا ہی ایک محفوظ اور صحیح راستہ ہے۔

مصنف کتاب نے ہندوتوا کی دوسری نظریاتی بنیاد کے طور پر قوم پرستی اور بھارت ماتا کے عقیدے کا ذکر کیا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ ہندوتوا دیوں کے نزدیک ہندوستانی یعنی ہندو عوام ایک مقدس وجود کا جزو ہیں اور ان کی الوہیت کا اظہار بھارت ماتا ہے۔یعنی بھارت کی دھرتی ایک دیوی یا بھگوان ہے اور ان کے لئے پوجنئیہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی اس قوم کا نظریہ ہے جسے ہندو کے نام سے پہچانا جاتا ہے، یہ محض ہندوتوا دیوں کا نظریہ نہیں ہے۔ اور یہ بھی نظریاتی طور سے اسلام اور اہل اسلام کے لئے کوئی چیلنج نہیں ہے۔

اس کے علاوہ کچھ اور ضمنی نظریوں کا ذکر مصنف کتاب نے کیا ہے۔ اس تبصرہ نگار کا تبصرہ یہ ہے کہ ہندوتوا کے بنیادی فکری ڈھانچے کو سمجھنے یا سمجھانے کے لئے ان فلسفوں اور دعوؤں کا فہم اور تفہیم تو ٹھیک ہے لیکن انہیں اسلام اور اہل اسلام کے لئے ایک چیلنج سمجھنا خود کو گمان آلودہ کرنا ہے۔ جب کہ معاملہ اس کے برعکس ہے:

گمان آباد بستی میں یقیں مرد مسلماں کا 

بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی

اوہام و گمان پر مبنی فرسودہ تصورات اور مشرکانہ عقیدے و نظریات اسلامی و توحیدی نظریات کے لئے چیلنج نہیں ہوتے ہیں بلکہ خود اسلام اور اسلام کی دعوت ان کے لئے چیلنج ہوتی ہے اسی طرح جس طرح قرآن کو جھٹلانا قرآن کے لئے چیلنج نہیں لیکن قرآن جیسی آیتیں بناکر دکھانا جھٹلانے والوں کے لئے ایک مستقل چیلنج ہے۔

ہندوتوا کی ہمہ گیر مہم کو احاطہ ادراک میں لانے کے لئے مصنف نے تاریخ، تعلیم اور معاشیات کے میدان میں ہندوتوا دی تحریک یا سنگھ پریوار کی سرگرمیوں، نظریات اور پالیسیوں پر بھی الگ الگ مضامین میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ یہ تینوں مضامین اچھے معلوماتی مضامین ہیں اور قارئین کے لیے بہت مفید ہیں۔ 

ہندوتوا کے بیان کے بعد مصنف نے ان سیاسی و سماجی تحریکوں کا ذکر کیا ہے جو ہندستانی سماج میں آزادی کے  بعدعوامی زندگی پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔ جیسے کمیونزم یا کمیونسٹ پارٹیاں، سماج وادی آندولن، دلت تحریک اور انڈین نیشنل کانگریس و اس کی نیشنلسٹک آئیڈیا لوجی نیز کانگریس کے بطن سے نکلنے والی سیاسی پارٹیاں۔ ان سبھی تحریکوں یا پارٹیوں کی اپروچ اور عملی رویوں کا تجزیاتی تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے یہ لکھا ہے کہ یہ ہندوتوا کی مقابل تحریکیں تھیں جو ہندوتوا کے اثرات کو روک سکتی تھیں لیکن یہ اپنے نظریات پر ثابت قدم نہ رہنے کی وجہ سے ہندوتوا کے فروغ کو روکنے میں ناکام رہیں۔ اس ذیل میں انھوں نے متعدد تفصیلی تجزیے رقم کئے ہیں جن پر نقد کئے بغیر ان سے من جملہ اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس میں ایک بنیادی بات کی طرف مصنف کی توجہ نہیں گئی جس کی وجہ سے یہ ایک سطحی نتیجہ فکر بن گیا ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ جن تصورات یا عقیدوں کو وہ ہندوتوا کے بنیادی فلسفے کے بطور بیان کرتے ہیں وہ، جیسا کہ ہم نے پہلے لکھا ہے’ اس پوری قوم کے عقیدوں میں پیوست ہو چکے ہیں جسے ہندو کہا جاتا ہے اور جو مختلف النوع قوموں و ذاتوں کا مجموعہ ہے۔ اس پوری آبادی کا نام ہی ہندو آبادی ہے۔ جو بھی تحریکیں یا پارٹیاں اٹھی ہیں وہ اسی ہندو فوم سے اٹھی ہیں اور ان کی مخاطب بھی سب سے پہلے یہ ہندو آبادی ہی رہی ہے۔ ان تحریکوں کے سیاسی یا سماجی نظریات جو کچھ بھی رہے ہوں، ہندو عوام کے مذہبی عقیدوں اور رسوم و رواج کو انھوں نے نہیں چھیڑا ہے۔ ان میں جو لوگ کمیونسٹ رہے ہیں انہیں عام طور سے لامذہب (ودھرمی) مانا گیا ہے، جو لوگ دلت اور دراویڑین تحریکوں کے لیڈر یا کارکن رہے انھوں نے جب اپنے مسائل کی جڑیں دھرم اور دھارمک ڈھانچے میں دیکھیں تو دھرم کے خلاف آواز اٹھائی، لیکن دھرم کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سے وہ دھرم ورودھی مانے گئے اور اس وجہ سے وہ خود اپنے طبقوں کی جذباتی حمایت حاصل نہیں کر سکے۔ یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ دلت تنظیموں کے ساتھ دلت کارکن تو ہیں لیکن دلت عوام نہیں ہیں۔ جن دلت سیاسی پارٹیوں نے بعض ریاستوں میں کبھی کبھی اقتدار تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی ہے وہ صرف طبقاتی کشمکش کی بنیاد پر حاصل کی ہے اور وہ بھی غیر ہندو مظلوم عوام کی حمایت سے۔ ان پارٹیوں کے لیڈران دھارمک ڈھانچے کے مخالف ہوتے ہوئے بھی ہندو دھارمک عقیدوں کے خلاف نہ تو بول سکتے ہیں نہ ہندو دھرم کو چھوڑنے کا جوکھم اٹھا سکتے ہیں۔ جہاں تک دراویڑین تحریک کی بات ہے تو اس کی مشکل کا اندازہ ابھی حال ہی میں تمل ناڈو میں ایم کےاسٹالن کے بیٹے دیاندھی کے سناتن دھرم مخالف تبصروں کے بعد پیدا ہوئی صورت حال سے لگایا جا سکتا ہے۔ سناتن دھرم کی بنیاد پر سیاست کرنے والے ہندوتوادیوں نے دراویڑین حلقوں میں ہی عوام کے سامنے ان کے دھارمک وجود کے لئے بحران کا خطرہ کھڑا کردیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہندو آبادی کے مختلف گروہوں کے سیاسی و سماجی مسائل کا معاملہ الگ ہے اور ان کی دھارمک بھاوناؤں کا معاملہ الگ۔ ہندوتوا کی تحریک ان کے مسائل حل کرنے کا دعویٰ بعد میں کرتی ہے اور ان کے مذہبی وجود کو بچانے اور اوپر اٹھانے کا کام پہلے کرتی ہے۔ ہندوتوا کے مقابلے دوسری تحریکوں اور پارٹیوں کی ناکامی کے بہت سارے اسباب گنائے جاسکتے ہیں لیکن اس کا بنیادی سبب ہندوؤں کی دھارمک بھاؤناؤں کا استحصال اور ہندو قوم کے احیاء کا مشن ہے۔ اس میں ہندو آبادی کے کسی بھی گروہ سے اٹھنے والی کوئی سماجی تحریک ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اور ہندوتوا کی کامیابی نے انہیں یہ احساس دلادیا ہے کہ ہندو عوام کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لئے انہیں خود بھی ہندوتوادی اپروچ اختیار کرنی ہو گی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ہندوتوا کی کامیابی اور مقابل تحریکوں  کی ناکامی کا بنیادی سبب ہندو قوم کے احیاء، اور  غلبے و تسلط کی امنگوں میں مضمر ہے جسے ہندو پن (ہندوتوا) کی تحریک نے جگایا ہے اور ان امنگوں کو پورا کرنے کے لئے سنجیدہ عزم کے ساتھ ہمہ گیر و دیر پا کام انجام دے رہی ہے۔

زیر تبصرہ کتاب کے بقیہ مضامین میں بھی کئی باتیں تنقید طلب ہیں لیکن یہ تبصرہ اپنے قارئین کے لئے اتنی طوالت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لہذا مزید تحلیل و تجزیہ کے بغیر مندرجہ ذیل کچھ نکات پر توجہ دلانے کے ساتھ یہ تبصرہ نامکمل چھوڑا جارہا ہے۔

ایک تو یہ کہ تحریک اسلامی کے کسی قائد کا نقطہ نظر کسی ایک جارحانہ تحریک کو سامنے رکھ کر آپنا ایجنڈا بنانے تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔ تحریک اسلامی اسلام کو پیش کرنے اور آگے بڑھانےکی تحریک ہے، اور اسلام جب ایک دعوت اور دعویٰ بن کر سامنے آتا ہے تو ہر وہ سماجی تحریک اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوتی ہے جو خود اپنے نظریات اور تعصبات رکھتی ہے۔ چوں کہ اسلام کی دعوت اولین طور پر اپنا عقیدہ پیش کرتی ہے اور باقی تمام معاملات کی درستگی و اصلاح کی بنیاد اسی پر رکھتی ہے, اس لئے اسلام کی دعوت اور پیش کش کا ہندوتوادی تحریک سے تو سیدھا تصادم ہے جو خود مصنف کے بقول شرک کی داعی اور علم بردار ہے، اور مصنف نے بجا طور پر لکھا ہے کہ "مستقبل کی اصل کشمکش توحید اور شرک کے درمیان کشمکش ہے۔” (ص۔ 203). اس کے علاوہ کمیونسٹ گروپ، سوشل جسٹس کا نظریہ رکھنے والے ملحد اور لبرلسٹ لوگ، کانگریسی اور غیر کانگریسی پارٹیاں وغیرہ بھی اسلام کی دعوتی تحریک کے لئے حریفانہ موقف رکھتی ہیں۔ لہذا اسلام کی دعوتی تحریک کے قائدین کو دعوت اسلامی کی راہ میں مزاحم تمام عوامل کا شعور اپنے کیڈر اور دعوت کے عام کارکنوں کو دینا چاہیے تاکہ ان کے اند ایک جامع بصیرت (ویژن)  پیدا ہو۔

دوسری توجہ طلب بات یہ ہے کہ ہندوتوا دی تحریک کا چیلنج اسلام اور اہل اسلام کے لئے اس کے نظریات کی گہرائی یا اثر انگیزی کے لحاظ سے نہیں ہے، نہ ان نظریات کے اندر عقل و خرد کو جیت لینے کی کوئی صلاحیت ہے، اور نہ ہندوتوا کی تحریک ان نظریات یا عقیدوں سے پیدا ہوئی ہے بلکہ ہندوتوادی تحریک نے اپنے قیام، تشخص اور جارحیت کے لئے ان مزعومات کو گڑھا ہے یا اپنایا ہے تاکہ اپنے لئےدلیل اور جواز حاصل کرسکے اور لوگوں کو کوئی نظریہ و عقیدہ دے سکے۔ اسلام اور اہل اسلام کے لئے اس کا چیلنج اس کی جارحیت، لاقانونیت، گھمنڈ اور غنڈہ گردی کی وجہ سے ہے۔ اس تحریک کے لیڈران اور کارکنان "ہندو سمو دائے” کی اکثریت کے گھمنڈ میں ملک کے دستور کو نظر انداز و بے اثر کرنے اور بالآخر اسے ختم کردینے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ یہ کسی مکالمے یا افہام و تفہیم یا قانون و اخلاق کے دائرے میں رہنے پر آمادہ ہی نہیں ہیں۔ اس تحریک نے اپنے کارکنوں کو اور مذہبی تعصب میں مبتلا عام ہندو نوجوانوں کو ہتھیاروں سے مسلح اور دشمنی کے جذبات سے سرشار کردیا ہے۔ یہ ہندوتوادی قوم مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کی بے شمار مہمات ابھی تک انجام دے چکی ہے اور اب نظام حکومت کو براہ راست اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد مسلمانوں کو بنی اسرائیل جیسی ذلت آمیز غلامانہ حالت میں پہنچانے کے لئے چو طرفہ حکمت عملی کے ساتھ کام کررہی ہے اور ان کے خون و عزت و آزادی کو ڈھڑلے سے خاک میں ملا رہی ہے۔ اپنی اس جارحانہ اور ظالمانہ پوزیشن کے ساتھ یہ قوم مسلمانان ہند کے لئے بے شک بہت بڑا خطرہ بن کر سامنے کھڑی ہے۔ منگولوں جیسا خطرہ۔ لہذا اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ طولانی حکمت عملی اور سیاسی بیانیہ جو مصنف کتاب نے تجویز کیا ہے کافی نہیں ہے، بلکہ کارآمد ہی نہیں ہے۔ کیوں کہ "عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد”۔ اس لئے ایک موثر، بہتر اور بروقت لائحہ عمل کے لئے دماغ سوزی کی ضرورت ہے۔ 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: