از قلم: معصوم مراد آبادی
رات گئے فون کی گھنٹی بجتی ہے تو اسے ریسیو کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ خدا کرے کوئی برُی خبر نہ ہو۔ گزشتہ رات بھی ایسا ہی ہوا۔ سردترین رات تھی اور میں گہری نیند میں تھا۔ فون اٹھایا تو روزنامہ ’انقلاب‘سے عزیزم شاہ عالم اصلاحی کی کال تھی۔ ”قیس رامپوری صاحب انتقال کرگئے۔“اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ ”کچھ تفصیل درکار ہے۔ کاپی جانے میں وقت بہت کم ہے۔چند منٹ میں کچھ بھیج دیجئے۔“سردی میں کمپیوٹر کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی تو واٹس ایپ پر قیس صاحب کے بارے میں بنیادی معلومات لکھ کربھج دیں۔نیند اڑچکی تھی اور رہ رہ کر قیس صاحب کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات یاد آرہے تھے۔
مجھے پانچ سال تک ان کی رفاقت میں ہفتہ وار”نئی دنیا“ میں کام کرنے کا موقع ملا، جہاں میں نے انھیں قریب سے دیکھا اور جانا بھی۔ یہ 35 برس پرانی بات ہے۔ پچھلے دنوں یہ اطلاع بھی روزنامہ ’انقلاب‘ کے ایڈیٹربرادرم ودودساجد کے توسط سے ہی ملی تھی کہ قیس صاحب فالج کے حملے کے بعد بہت بیمار ہیں اور ان کی قوت گویائی چلی گئی ہے۔ ہم دونوں نے طے کیا تھا کہ ان کی عیادت کے لیے ساتھ چلیں گے، مگر یہ ممکن نہ ہوسکا اورقیس صاحب ہم سے ملے بغیر ہی چلے گئے۔موت برحق ہے اور ہم سب کو آگے پیچھے ایک دن چلے ہی جانا ہے۔آنے اور جانے کا یہ سلسلہ اسی وقت سے چل رہا ہے، جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے۔ایک دن خود اسے بھی فنا ہوجانا ہے۔اللہ باقی من کل فانی۔
قیس رامپوری بڑی باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے۔ ہرمحفل میں اپنے شعروں اور جملوں سے لوگوں کی توجہ مبذول کرنے والے قیس رامپوری کی بے بسی اور لاچاری کی خبریں سن کر دل خون کے آنسو روتا تھا۔ انھوں نے بہت زندہ دلی کے ساتھ اپنے ایام بسر کئے تھے۔ان کی ظاہری وضع قطع جتنی دلکش تھی، اتنا ہی ان کا فن بھی دلآویز تھا۔وہ روایتی خطاطی اور جد ید آرٹ کے امتزاج سے جو منفردفن پارے تخلیق کرتے تھے،انھیں دیکھتے ہی رہنے کو جی چاہتا تھا۔ جو نفاست ان کے لباس اور شخصیت میں تھی، وہی ان کے فن کا بھی طرہ امتیاز تھا۔انھیں تزئین کاری سے جو شغف تھا، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنی ایک بیٹی کا نام بھی تزئین رکھا ۔ تزئین نے لکھا ہے کہ”پچھلے پانچ سال میرے والد کے لیے بہت سخت تھے، بہت تکلیف دہ تھے.. فالج موت سے بھی بدتر ہے، ….میں ان کی بہترین آخرت کے لیے دعا گو ہوں۔
حقیقت بھی یہی ہے۔فالج کے حملہ کے بعدان کی حالت ایسی تھی کہ ناک کے ذریعہ انھیں غذا پہنچائی جارہی تھی اور وہ بولنے پر قادر نہیں تھے۔ کسی فن کار کے لیے اس سے زیادہ اذیت ناک لمحہ کوئی اورنہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے جذبات واحساسات کے اظہار سے ہی محروم ہوجائے۔ الفاظ ہی تو انسان کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتے ہیں اور جب وہی ساتھ چھوڑ دیں تو پھرباقی کیا رہتا ہے۔ یہ بات ہم جیسے لوگوں کے لیے اور بھی اذیت کا باعث تھی، جنھوں نے انھیں ہمیشہ بولتے، چہچہاتے، لفظوں کا جادو جگاتے اور سدا مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ ان ہی کا ایک شعر ہے
بار احساں تو اٹھائے نہ اٹھا
دوستو، قیس کو مرجانے دو
قیس رامپوری کا اصل نام سیدسجاد علی تھا۔وہ 1947میں مغربی اترپردیش کے شہر رامپور میں پیدا ہوئے تھے، جہاں انھوں نے خوشنویسی کافن سیکھا۔ 1962کے آس پاس روزگار کی تلاش میں دہلی آئے اور یہاں مولانا عبدالوحید صدیقی کے روزنامہ’نئی دنیا‘سے وابستہ ہوگئے۔ اس کے بعد جب مولانا نے 1966 میں ’ہما‘ ڈائجسٹ نکالا تو وہ اس کے تزئین کار بن گئے۔1973 میں جب ’نئی دنیا‘ ہفتہ وار ہوا تو قیس صاحب نے اس میں چار چاند لگانا شروع کئے۔ بعد کو وہ” نئی دنیا ” سے الگ ہوکر روزنامہ "راشٹریہ سہارا” سے وابستہ ہوگئے تھے اور وہاں ہر روز عصری موضوعات پر ایک قطعہ لکھا کرتے تھے۔
قیس رامپوری لفظوں کونشست وبرخاست کا ایسا سلیقہ سکھاتے تھے کہ ان کی انگلیوں پر جادو گری کا گمان ہوتا تھا۔ وہ اپنی طرز کے خود ہی موجد تھے اور خود ہی خاتم بھی۔ جب سے اردو خطاطی کا فن کمپیوٹر کے قالب میں ڈھلا ہے تب سے ایسے فن کار معدوم ہوگئے ہیں جو اپنی انگلیوں میں قلم کو ایسی جنبش دیتے تھے کہ الفاظ میں قدرتی حسن کی آمیزش ہوجاتی تھی۔ راقم الحروف نے کئی برس ہفتہ وار ’نئی دنیا‘ میں ان کی رفاقت میں کام کیا۔ یہ 35 برس پرانا قصہ ہے۔حالانکہ وہاں میرا میدان صحافت تھا، لیکن کتابت وخطاطی کے فن سے واقفیت کے سبب میرا زیادہ وقت ان کے ساتھ گزرتا تھا۔ جب کبھی وہ چھٹی پر جاتے یا طبیعت ناسازہوتی تو ان کی ذمہ داریاں میرے ناتواں کاندھوں پر آن پڑتیں۔ اس طرح میں ان کی کرسی پر بیٹھ کر اخبار کا لے آؤٹ اور سرخیاں بناتا تھا۔میں نے روایتی خطاطی کی تربیت حاصل کی تھی، جبکہ قیس صاحب کو روایتی خطاطی کے ساتھ ساتھ جدید آرٹ اور تزئین کاری کا بڑا تجربہ تھا۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہیں ہوگا کہ ہفتہ وار’’نئی دنیا‘‘کی مقبولیت میں ان کی تزئین کاری اور آرٹ کو بڑا دخل تھا۔ ’نئی دنیا‘ کی منہ بولتی سرخیوں کی بدولت ہی لوگ اس کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ باقی چیخ وپکار اس کے مواد میں ہوتی تھی۔
شاعری قیس رامپوی کاپہلا عشق تھا یا دوسرا، اس کا علم مجھے نہیں ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ اخبار کی سرخیاں لکھتے وقت بھی شعر گنگناتے رہتے تھے۔ ان کی شاعری بھی عصری موضوعات میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ’نئی دنیا‘ کے صفحہ اوّل پر شائع شدہ ان کے ایک شعر نے بڑی دھوم مچائی تھی، جو انھوں 90 کی دہائی میں برپا ہونے والے خونریز فسادات پر کہا تھا۔ شعر یوں تھا:
دئیے جلانے کی رسمیں بہت پرانی ہیں
ہمارے شہر میں انساں جلائے جاتے ہیں
شاعری ان کا شوق ضرور تھا مگر ان کی سب سے زیادہ دلچسپی خطاطی اورآرٹ کے فن میں تھی۔ انھوں نے اپنے ذوق لطیف کی بدولت ہفتہ واری صحافت کی منہ بولتی سرخیاں لکھنے اور خوبصورت لے آؤٹ بنانے کا ہنر خود ایجاد کیا تھا۔ نفاست ان کی انگلیوں میں ہی نہیں بلکہ ان کی پوری شخصیت میں تھی۔ وہ ہرروز اجلے کپڑے پہن کر دفتر آتے تھے۔ان کی شخصیت تو دیدہ زیب تھی ہی، ان کے جملے اور تبصرے بھی دلچسپ ہوا کرتے تھے۔ پان کھانا ان کی عادت تھی، جو وہ اپنے گھر سے بنواکر لاتے تھے۔ پان کے کثرت استعمال سے ان کی زبان اور ہونٹ ہمیشہ سرخ رہتے تھے۔
شاعری کے حوالے سے ان کی یادگار ان کا واحد مجموعہ کلام ”سمندردرسمندر‘‘ہے، جو1987 میں شائع ہوا تھا۔ اس کی اشاعت خود انھوں نے ہی اپنے’صدف پبلی کیشنز‘سے کی تھی جس کا پتہ فراش خانہ میں واقع ان کا گھرتھا۔ قیس رامپوری نے پرانی دہلی کے اس تنگ وتاریک علاقہ کی گلی راجان میں لمبا عرصہ گزارا۔ بعد کو وہ اپنے بیٹے کے پاس شاہین باغ منتقل ہوگئے اور وہیں انھوں نے آخری سانس لی۔
قیس رامپوری کی شاعری میں عصر حاضر کے مسائل کا ہجوم ہے۔ انھوں نے بڑی انقلابی قسم کی شاعری کی ہے۔ ان کے دوست اور ممتاز شاعر امیرقزلباش نے ’سمندر درسمندر‘ میں لکھا ہے کہ:
”قیس رامپوری میرے عزیزترین دوست اور پسندیدہ شاعر ہیں۔قیس کے یہاں ذاتی واردات اور عصر حاضر کے مسائل کی جھلکیاں فنی اہتمام کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ اسلوب بیان انتہائی شاداب اور حسّیت سے لبریز ہے۔ انھوں نے جن خارجی کیفیات کو بنیاد بنایا ہے، وہ کیفیات موجودہ نسل کے چند شاعروں کو ہی میسر ہوئی ہیں۔ان کے ہاں زندگی کے تناظر میں جس باریک بینی سے کام لیا گیا ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ چاک دامانی اور آبلہ پائی کے تمام تجربات سے گزرے ہیں۔ وہ معنوی تہہ داری، سیاسی وسماجی نشیب وفراز اور معاشرے میں پھیلی ہوئی مکروہیت سے باخبر ہیں۔ انسانی درد اور رشتوں کا کرب ان کی شاعری کا جزوخاص ہے۔ ان کے یہاں نظم میں موضوع کی گرفت اور غزل میں دروں کاری بڑی خوبی کے ساتھ جلوہ گر ہے۔“ (’سمندر درسمندر‘صفحہ 9)
قیس رامپوری کی شاعری کا غالب حصہ عصری موضوعات پر ہے۔ انھوں نے سیاسی،سماجی ماحول کا گہرا اثر قبول کیا ہے۔ شاید اس کی بڑی وجہ اخبارات وجرائد سے ان کی پیشہ ورانہ وابستگی ہو۔ وہ اپنے عہد کے سیاسی مسائل سے بھی نبرد آزما نظر آتے ہیں۔ قومی اور عالمی حالات کی پیچیدگیوں کا کرب ان کی شاعری میں بہت نمایاں ہے۔ ایمرجنسی کے خاتمہ پر کہی ہوئی مختصرنظم ’نیا سویرا‘ ملاحظہ ہو:
چلو سویرا ہوا
اذنِ پرَ کشائی ملا
مگر سوال تو یہ ہے مرے تعاقب میں
دہانے کھولے ہوئے اب بھی بے شمار عفریت
مرے بدن کا لہو چاٹنے کی فکر میں ہیں
قیس رامپوری کی شاعری کا خاصا یہ ہے کہ انھوں نے سیاسی اور سماجی ماحول کا گہرا اثر قبول کیا ہے۔ اس کا نتیجہ صحافتی شاعری کی صورت میں برآمد ہوا۔ ’نیا سویرا‘ہو یا کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے کے خلاف ان کی نظم ’ابھی فلسطین جل رہا ہے‘یا پھر بھوپال گیس ٹریجڈی پر ان کی نظم ’شب خون‘۔ یہ سب حالات حاضرہ اور عالمی واقعات پر مرکوز ہیں، لیکن ان میں شاعرکے اپنے جذبات ومحسوسات اور تاثرات موضوع بنے ہیں۔ انھوں نے غنائیہ شاعری کا کافی اثر قبول کیا ہے۔چند اشعار اورملاحظہ ہوں:
یہ تجربہ بھی ہمیں ایک بار کرنا ہے
کہ مڑکے دیکھیں اسے اور سنگ ہوجائیں
اب بہار کو کس نام سے پکاریں ہم
کہ شاخ شاخ پہ خنجر سجائے جاتے ہیں