مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
اپنے کو مہذب قرار دینے والے سماج میں اکثر نو زائیدہ بچوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں،(یہ حکم) اس کے لیے ہے جو چاہے کہ دودھ پلانے کی مدت پوری کرے اور وہ مرد جس کا بچہ ہے اس کے ذمہ معروف طریقے کے مطابق ان (عورتوں) کا کھانا اور ان کا کپڑا ہے، کسی شخص کو تکلیف نہیں دی جاتی، مگر جتنے کی گنجائش ہے نہ ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے تکلیف دی جائے اور نہ اس مرد کو جس کا بچہ ہے اس کے بچے کی وجہ سے اور وارث پر بھی اسی جیسی ذمہ داری ہے، پھر اگر وہ دونوں آپس کی رضا مندی اور باہمی مشورے سے دودھ چھڑا نا چاہیں تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔ (سورہ بقرہ: آیت(233)
اس آیت میں دودھ پینے، پلوانے اور اس کے اخراجات کے حوالہ سے اللہ کا واضح حکم مذکور ہے،گو اس آیت کا شان نزول کچھ اور ہے، لیکن احکام خدا وندی شان نزول کے ساتھ خاص نہیں ہوتے،اس لیے شان نزول خاص ہونے کے با وجود اس آیت میں جو حکم دیا گیا ہے وہ عام ہے، یعنی ماں کو دوسال تک دودھ پلانا چاہیے، یہ ممکن نہ ہو تو کسی دوسری عورت کا نظم کیا جائے جو دودھ پلائے اور اس کے اخراجات بچے کا باپ ادا کرے۔ البتہ دو سال سے کم میں دودھ چھڑانے کی بھی گنجائش ہے، اگر والدین اس مسئلہ پر متفق ہوجائیں۔
عرب میں بچوں کو مدت رضاعت میں عموما دیہاتی علاقوں میں بھیج دیتے تھے اور وہاں دوسری عورتیں اجرت پر دودھ پلانے اور پرورش وپرداخت کا کام انجام دیا کرتی تھیں، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے حوالہ کیا گیا اور ایک مدت تک آپ ان کے یہاں قیام پذیر رہے، اب عربوں میں بھی یہ رواج ختم سا ہو گیا ہے، بلکہ اسلام کی ترویج واشاعت کے بعد ہی سے یہ سلسلہ وہاں موقوف ہو گیا، اسی لیے کسی صحابی ؓ کے بارے میں میری نظر سے یہ نہیں گذرا کہ انہوں نے اپنے بچے کو دودھ پلوانے کے لیے کسی اور کی خدمت لی ہو، اگر دشواری ہوتی تو اپنے خاندان یا محلے کی کسی عورت کو دودھ پلانے پر مامور کر لیا جاتا، کھانا خرچہ دیا جاتا اور حسب سہولت پورے دو سال یا اس سے کم میں بھی دودھ چھڑا دیا جاتا، اوراس کام کی وجہ سے وہ بچے کی رضاعی ماں شمار ہوتی اور سوائے وراثت کے ماں سے متعلق ہی اس پر احکام نافذ ہوتے،البتہ اوپر کا دودھ پلانے کا مزاج ان کا نہیں تھا، مدت رضاعت کے بعد اوپر کا دودھ بھی پلواتے، بکریاں پوسنے کا عام رواج تھا، اس کا دودھ بھی بچوں کو پلایا جاتا، بلکہ بعض واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بچہ بکری کے تھن میں منہہ لگا کر بھی دودھ پی لیا کرتا۔
لیکن اب فیشن اوپر کے دودھ پلانے کا س قدر چل گیا ہے کہ ماؤں کو اپنا دودھ پلانے کا خیال ہی نہیں آتا ہے، اس سے گارجین پرایک تو مالی بوجھ بڑھتا ہے اور دوسرے بچوں کو ماں کے دودھ سے جس قدر توانائی ملتی ہے اس سے بچہ محروم رہ جاتا ہے، ڈاکٹروں کی مانیں تو کم از کم چھ ماہ تک بچوں کو صرف ماں کا دودھ پلانا چاہیے، اس درمیان شہد یا خالص پانی دینا بھی بچوں کی صحت کے اعتبار سے مفید نہیں ہے، بلکہ بیماری کا اندیشہ ہے، موت تو مقررہ وقت پر ہی آتی ہے، لیکن ڈاکٹروں کا ماننا ہے کہ چھ ماہ تک بچوں کو صرف ماں کا دودھ پلا کر نوزائیدہ بچوں کی موت کے تناسب کو بائیس (22)فی صد اورپانچ سال سے کم عمر میں ہونے والی موتوں کو تیرہ (13)فی صدکم کیا جا سکتا ہے، پیدائش کے بعد ایک گھنٹے کے اندر ماں کا دودھ گاڑھے، پیلے رنگ کا ہوتا ہے، جو کیلسٹریم کی پہلی ویکسین کے برابرہوتا ہے، المیہ یہ ہے کہ پہلے گھنٹے میں ماں کے ذریعہ حاصل ہونے والا یہ امرت صرف اکتیس(31) فی صد بچوں کے حصہ میں آتا ہے، البتہ چوبیس گھنٹوں کے اندر بڑھ کر یہ تعدادچوراسی فی صد تک پہونچ جاتی ہے، سولہ فی صد بچے پھر بھی اس امرت سے محروم ہوجاتے ہیں، چھ ماہ تک بچوں کو ماں کے ذریعہ دودھ پلانے میں دنیا میں ہندوستان اٹھائیسویں مقام پر ہے، پٹنہ کا مقام پہلے گھنٹے میں دودھ پلانے والی ماؤں کے حساب سے پندرہواں ہے، البتہ بہار کے جہان آباد، ارول اور گیا جیسے اضلاع اس کا م میں آگے ہیں۔
ماں کے دودھ سے محرومی کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، بہت ساری مائیں اپنی جسمانی کشش کے تحفظ کے نقطہئ نظر سے بچوں کو دودھ نہیں پلاتیں، بعض ماؤں کو دودھ ہی نہیں ہوتا، بڑے آپریشن سے بچہ کی پیدائش کاجو رواج نرسنگ ہوم اور اسپتالوں میں چل پڑا ہے، وہ بھی پہلے گھنٹے میں ماں کے دودھ سے محرومی کا بڑا سبب ہے، بعض خواتین کے کپڑے اس قدر چست ہوتے ہیں کہ دودھ کی پیدائش میں وہ بھی رکاوٹ بن جاتے ہیں، یہ چست کپڑے ایک طرف جسم کے خد وخال کو نمایاں کرتے ہیں اس لیے غیر شرعی ہیں، دوسرے بچوں کو دودھ پلانے میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں، اس لیے ایسے کپڑے سے احتراز کرکے بھی دودھ پلانے کے عمل کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں سماج میں جو کمی پائی جاتی ہے، اس کی طرف سماجی خدمت گار وں کو متوجہ ہونا چاہیے اور خواتین کے ذریعہ ہی خواتین میں بیداری لانی چاہیے؛ تاکہ بچوں کی جو حق تلفی ہو رہی ہے اس سے بچوں کو بچایا جا سکے اورنئی نسل ماں کے دودھ کی توانائی پا کر آگے بڑھے، اس سے خاندانی خصوصیات بھی بچوں میں منتقل ہوں گی، اور وہ اچھے شہری بن سکیں گے۔