از : ڈاکٹر محمد نعیم صدیقی ندوی
مدیر : ماہنامہ الرشاد ، اعظم گڑھ
سال 1958ء کے دم توڑتے دنوں میں عاجز راقم نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کے درجہ اوّل میں داخلہ لیا ، میرے ہوش و خرد کی کلیاں اُس وقت تک چٹک کر پھول بن چکی تھیں ، اس لئے میں نے ندوہ کے تعلیمی ماحول پر نظر ڈالی تو وقت کے ذہین و ہونہار طلبہ کی متعدد جماعتوں کو سر گرم تعلیم پایا ، جنھوں نے آگے چل کر علم و فضل کی مختلف جولانگاہوں میں علم امتیاز بلند کئے اور عباقرہ عہد میں شمار کئے گئے . اُس وقت ندوہ میں طلبہ کی تعداد بہت کم تھی اور طلبہ کی اقامت گاہوں میں صرف رواق شبلی کے چودہ کمرے کل کائنات تھے . راقم کے ہم عمر احداث طلبہ دارالعلوم کی مرکزی عمارت کے مشرقی بازو پر واقع رواق سلیمانی میں مقیم تھے . مرور زمن کے باوجود عاجز کی لوح دماغ پر اُس وقت کے متعدد ہونہار اور ذہین و باصلاحیت طلبہ کی یاد تازہ ہے . اس خصوص میں یہاں نام شماری سے گریز کرتے ہوئے راقم عرض گزار ہے کہ بلا شبہ وہ عہد پروان چڑھتی صلاحیتوں اور عالی حوصلگیوں کا ایک عہد زریں تھا ، خدا بخشے مولانا شفیق الرحمن ندوی مرحوم بھی اسی کہکشان فضل و کمال کے ایک کو کپ تاباں تھے .
مرحومی مولانا شفیق الرحمن ندوی کی اعلیٰ صلاحیتوں کے جوہر زمانہ طالب علمی ہی میں کھلنے لگے تھے ، وہ بہار کے ایک مدرسہ میں متوسطات تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ندوہ کے اعلیٰ درجات میں داخل ہوئے اور بہت جلد اپنے اساتذہ کے دل کا سرور بن گئے ، اُن کے اساتذہ کی جوہر شناس نگاہوں نے اس کے جوہر قابل کو تاڑ کر اس کو اپنی چمک دکھانے کے بڑے قیمتی مواقع فراہم کئے –
مرحوم نے اپنی جانکاہ محنت اور لگن سے عربی زبان و ادب پر غیر معمولی عبور حاصل کر لیا تھا، چنانچہ وہ طلبائے ندوہ کی عربی انجمن ” النادي العربی کے معتمد منتخب ہوئے ، سال 1959ء میں مذکورہ انجمن کی طرف سے مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے زیر سر پرستی پندرہ روزہ عربی جریدة ” الرائد“ کا اجراء عمل میں آیا تو مولانا شفیق الرحمن مرحوم اُس کے پہلے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور پھر الرائد کے مطلع پر ان کی عربی نگارشات کی چمک نے دھوم مچا کر رکھ دی ، وہ بلاشبہ کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی عربی زبان لکھتے تھے . مولانا مرحوم کے زمانہ ادارت میں مذکورہ جریدہ کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر غیر معمولی مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہوئی اور دنیائے عرب میں اس کا زبردست استقبال کیا گیا . مرحوم نے اپنی جانکاہ محنت اور خون جگر کھپا کر اس نومولود جریدہ کا معیار و وقار معاصر عربی صحافت کے ہم عناں بنا دیا تھا ، چنانچہ مولانا مرحوم کے لائق خلف الرشید مولانا طارق شفیق ندوی نے لکھا ہے کہ والد مرحوم نے الرائد پر اپنی ساری توجہ مرکوز کر دی تھی ، وہ الرائد کے نوک پلک سنوارتے ، عربی زبان کے قواعد کے مطابق موصولہ مضامین کی اصلاح کرتے نیز ذیلی عنوانات لگاتے ، اور جریدہ کی اشاعت تک کے تمام مراحل اپنی نگرانی خاص میں طے کراتے ، حقیقت یہ ہے کہ مرحوم نے الرائدکے چمن کو اپنا ڈھیروں خون جگر لگا کر سینچا اورلہلہایا تھا ، چنانچہ اس خصوص میں رسالہ کے سرپرست اعلیٰ مولانا رابع صاحب کی خاص تاکید رہتی تھی کہ مرحوم کی آخری نگاہ پڑے بغیر الرائد پریس ہر گز نہ جائے . عربی زبان پر مرحوم کی دسترس اور مہارت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت الاستاذ مولانا علی میاں علیہ الرحمہ بھی اپنی بعض تحریریں نظر ڈالنے کے لئے ان کے پاس بھیج دیا کرتے تھے –
راقم سطور ندوہ میں مراحل تعلیم کے درجہ چہارم میں تھا کہ اُس کے مربی خاص اُستاذی مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی کے حکم و ایماء پر الرائد میں "فی محیط دارالعلوم “ کے مستقل عنوان کے تحت ایک کالم لکھنا شروع کیا ، جس میں احاطہ دارالعلوم کے کوائف اور وقائع کی رپورٹ ہوا کرتی تھی ، اس رپور تاثر کی اصلاح بھی حضرة الاستاذ خود فرمایا کرتے تھے . یہاں راقم اپنی اس سعادت پر بجا طور پر مفتخر ہے کہ مرحومی مولا نا شفیق الرحمن ندوی نے اپنے دور ادارت میں میرے اس مستقل کالم کو عرصہ تک بڑے اہتمام سے شائع کر کے حوصلہ افزائی کی ، مرحوم ہمیشہ جس خندہ جبینی کے ساتھ میری نگارشات کو شرف قبول عطا کرتے ، اُس کی یاد کے گہرے نقوش تا ہنوز صفحہ دل پر مرتسم ہیں . مولا نا مرحوم مراحل تعلیم میں مجھ سے بہت زیادہ سینیئر تھے ، (غالبا چار سال کا فرق تھا ، اُنھوں نے 1962 میں سند فضیلت حاصل کی . اُس وقت میں درجہ پنجم ( عالمیت) کا طالبعلم تھا، جب میں عالمیت (1965) سے فارغ التحصیل ہوا تو مرحوم کو ندوہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے ایک سال گزر چکا تھا، اس غیر معمولی سینیاریٹی کے باعث ہمارے درمیان بے تکلفانہ مراسم کی راہ میں ندوہ کی تہذیبی روایات و اقدار مانع رہیں ، بایں ہمہ جب بھی میں کسی کام سے دفتر الرائد میں حاضر ہوتا ، مرحوم نہایت دل آویز مسکراہٹ اور خندہ پیشانی کے ساتھ میرا خیر مقدم کرتے اور سامنے بٹھا کر میری حقیر عربی دانی کی تحسین آمیز حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے اور قیمتی نصائح و مشوروں سے نوازتے ۔ فرحمه الله رحمة واسعة
مولانا شفیق الرحمن ندوی ” علمی وقار اور تہذیبی متانت کا پیکر مجسم تھے ، ان کے سراپا میں کشش کے بہت سے عناصر موجود تھے ، میانہ قد ، سانولا رنگ ، کشادہ پیشانی پر فکر و تدبر کی سلوٹیں ، مسکراتی ہوئی آنکھیں جن سے معصومیت اور حیا ٹپکی پڑتی تھی ، جھومتی رفتار مثل ابریشم گفتار ، دھیمی آواز ، مرنجاں مرنج ، شگفته دل ، چہرہ شرعی داڑھی سے مزین ، جسم میں بجلی کی بے تابیاں سمٹی ہوئی ، بشرے پر امید کی شفق اور تبسم کی بکھری ہوئی افشاں . اُن کی کتاب زندگی کا اگر فنی تجزیہ کیا جائے تو فروتنی و تواضع ، خاموش طبعی ، سادہ مزاجی ، باضمیری، ایثارکیشی ، نام و نمود سے نفور ، جرات مندی ، بلند حوصلگی اور عزیمت ، ملنساری ، حق پژوہی ، خودستائی اور خود نمائی سے نفرت ، افق نگاہ کی وسعت ، محنت اور انہاک ، محبت و الفت ، آسودہ تمنا اور محدود طلب ، خیالات کی جدت ، طبیعت کی خود داری ، گہری شرافت اور انسانی بلندی ، عزت نفس ، عجب و کبر سے عاری ، دینی شعائر کی عظمت اور کثرت عبادت و ریاضت اس کے چند جلی عنوانات ہوں گے ، حب جاہ سے مرحوم کی بے نیازی اور استغناء کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے نہ تو لکھنؤ میں کوئی آشیانہ بنایا اور نہ اپنے آبائی وطن میں موروثی جائیداد کے علاوہ کوئی حیثیت بنائی ، مالی اعتبار سے ہلکے پھلکے ہونے میں وہ بلاشبہ ایک قابل رشک مرد مومن تھے . واقعہ یہ ہے کہ مولانا شفیق الرحمن علیہ الرحمہ ندوہ کی پوری طویل مدت تدریس کے دوران اپنی محنت و اخلاص ، مقصد میں انہاک ولگن اور بلندی کردار کے باعث اکابر واصاغر سب میں یکساں ہر دلعزیز رہے ، ندوہ میں وہ آخری بار اپنی پشت پر تمام کشتیاں جلا کر آئے اور تادم واپسیں تدریسی خدمات کے علاوہ دیگر امور مفوضہ باحسن وجوه انجام دیتے رہے ، ان کو عربی زبان و ادب پر کامل عبور کے ساتھ علم فقہ میں بھی بڑی مہارت حاصل تھی ، چنانچہ انھوں نے آخری وقت تک فقہ حنفی کی مشہور زمانہ کتاب "هداية “ کا درس بھی دیا ، اُن کو فقہ کے پیچیده ترین مسائل آسان ترین زبان میں تجزیہ کر کے طلبہ کو ذہن نشیں کرانے میں بڑا کمال حاصل تھا ، اسی باعث طلبہ اُن کے بہت دلدادہ رہتے تھے ، علاوہ ازیں مرحوم نے نورالایضاح کے طرز پر فقہ کی ایک درسی کتاب بھی ” الــفــقـــه المیسر ” کے نام سے تالیف کی تھی ، جو بقول مولانا مجیب اللہ ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سہل ممتنع کا بہترین نمونہ ہے ، نیز اس سے اُن کی عربی زبان پر غیر معمولی قدرت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ، یہ کتاب بیحد مقبول ہوئی اور ندوہ کی شاخوں اور ملحقہ مدارس کے نصاب درس میں داخل ہے . بعض اہل علم نے مرحوم سے اس کتاب کی افادیت کے پیش نظر اس کا دوسرا حصہ مرتب کرنے کی فرمائش کی تھی ، مگر پھر وہ ضعف صحت اور مختلف امراض کا شکار ہو گئے اور یہ کام آگے نہ بڑھ سکا . علمی و تدریسی مشاغل کے علاوہ مولانا مرحوم میں انتظامی صلاحیتیں بھی بدرجہ اتم موجود تھیں ، ندوہ کے ارباب حل و عقد جو کام بھی اُن کے سپرد کرتے وہ اُس کو پوری تندہی ، احساس ذمہ داری اور لگن و انہماک کے ساتھ انجام دیتے تھے ، چنانچہ وہ ہر تعلیمی سال کے آغاز پر مہتمم دارالعلوم کی نیابت میں تعلیمی گھنٹیوں کا نظام الاوقات مرتب کرتے تھے ، اس اہم کام کی نزاکت و حساسیت اہل نظر سے مخفی نہیں ہے ، یہ ذمہ داری بڑی دیانتداری اور شفافیت کی طالب ہوتی ہے ، ہر اُستاذ اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق گھنٹیوں کا طالب ہوتا ہے ، مولانا مرحوم سب کے جذبات و احتیاجات کو پیش نظر رکھ کر اتنے حسن و خوبی کے ساتھ نظام الاوقات ترتیب دیتے تھے کہ کسی کو اُن سے شکوہ سنجی کی گنجائش نہ رہ جاتی تھی ، بقول استاذی مولانا سعید الرحمن ندوی (مہتمم دارالعلوم ) یہ کام بڑی دقت نظر اور محنت کا طالب تھا لیکن مولانا مرحوم اس کو کچھ اس انداز سے ترتیب دیتے تھے کہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملتا تھا ، اس خصوص میں مرحوم نے ندوہ کے ذمہ داروں کا غیر معمولی اعتماد و اعتبار حاصل کر لیا تھا . مولانا مرحوم کے لائق و فائق فرزند مولانا طارق شفیق ندوی نے ( جو اپنے والد مرحوم پر مستقل کتاب تالیف کر رہے ہیں ) اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ والد ماجد علیہ الرحمہ کوئی ذمہ داری قبول کرتے تو اس کو پورے انہماک و خلوص اور محنت ولگن کے ساتھ انجام دیتے تھے ، میں نے دیکھا کہ مرحوم نظام الاوقات بنانے سے قبل وضو کرتے ، والدہ سے چائے طلب کرتے ، مجھ سے پان منگواتے اور ہر طرح سے یکسو ہوکر کام میں لگ جاتے تھے ، فرماتے کہ یہ بہت نازک اور دشوار کام ہے، آپ سب دعا کیجیے کہ میں اس اہم ذمہ داری سے کما حقہ عہدہ برآ ہوسکوں، میں نے یہ بھی دیکھا کہ والد ماجد علیہ الرحمہ نظام الاوقات ترتیب دیتے وقت اساتذہ کے مذاق و مزاج ، اُن کی علمی وفنی صلاحیت اور اُن کی اعمارسب باتوں کو پیش نظر رکھتے ، مقامی اساتذہ بوجوہ اپنی سہولت کے مطابق مخصوص گھنٹیوں کے خواہشمند ہوتے ، وہ ان سب کی بھی رعایت کرتے ، واقعہ یہ ہے کہ والد صاحب میں معاملہ فہمی اور شعور و ادراک کی موہوبی صلاحیت تھی ، وہ ندوہ کے ارباب حل و عقد کے اعتماد پر پورا اترنے کی دل و جان سے کامیاب ترین کوشش میں لگے رہتے تھے ۔
مرحوم کی خاموش خدمت گزاری اور اُن کی گونا گوں تدریسی و تنظیمی صلاحیتوں کے بارے میں ناظم ندوة العلماء مولانا سید محمد رابع ندوی رقم طراز ہیں کہ : ” مرحوم نے ندوہ میں تدریسی خدمت کا آغاز ایک نوجوان اُستاذ کی حیثیت سے کیا تھا ، پھر اپنے کام کے تسلسل سے وہ ایک کہنہ مشق اُستاذ بن گئےتھے اور ندوہ کے تدریسی عملہ میں انھوں نے اپنی جگہ بنالی تھی ، وہ اپنی علمی مشغولیت میں سنجیدہ اور علمی طرز عمل سے متصف تھے ، وہ خاموش کام کی
انجام دہی کی لگن رکھنے والے تھے ، ندوہ کی شاخوں اور ملحقہ مدارس کی نگرانی ، اصلاح و ترقی ، خط و کتابت اور ضروریات پوری کرنے کا کام بھی مرحوم ہی کےسر تھا ، اُن کو عربی کی طرح اُردو میں بھی دسترس اور پختہ کاری حاصل تھی ، اُردو میں جب کوئی علمی یا ادبی کام ہوتا تو وہ اس کو بھی اچھے انداز سے انجام دیتے تھے، تعلیمی اور تنظیمی کاموں میں میرے معاون اور شریک کار رہتے تھے ، جب کسی بھی شاخ کی ندوہ سے الحاق کی بات چلتی تو ان ہی کو معائنہ کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ذمہ داری تفویض کی جاتی تھی“۔
غرض مولانا شفیق الرحمن ندوی ایک باوقار مثالی شخصیت ، ایک دیانتدار منتظم اور کامیاب معلم تھے ، ان کی صحت بظاہر اچھی معلوم ہوتی تھی ، زندگی کے آخری چند برسوں میں کچھ پیروں اور ضعف بصارت کی تکلیف ہوگئی تھی ، بائیں ہمہ کوئی مہلک مرض اُن کو لاحق نہ تھا، اور لگتا یہی تھا کہ وہ عام علمائے وقت کی طرح عمر پائیں گے ، مگر واحسرتا ! قضاء وقدر کے فیصلہ میں کسی کو یارا نہیں ، بالکل اچانک بے سان و گمان اُن کی وفات کا سانحہ پیش آگیا ، ان کے ارتحال سے چند منٹ پہلے تک کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ دنیا سے آخری سفر کرنے والے ہیں ، رات کو اچھے بھلے سوئے اور صبح ہوتے ہوتے راہی ملک عدم ہو گئے ، انا لله وانا اليه راجعون ۔
راقم سطور کی مرحوم سے آخری ملاقات اُن کی وفات سے صرف ایک ماہ قبل دارالعلوم کی مرکزی عمارت کی راہداری میں ہوئی تھی ، دیکھتے ہی باغ باغ ہو گئے ، گرم جوش مصافحہ کیا اور ہاتھ پکڑے پکڑے دیر تک میرے احوال و کوائف معلوم کرتے رہے ، کہنے لگے تم ابوظبی کی ملازمت سے سبکدوش ہو کر ہندوستان آگئے ہو ، اب ندوہ کی خدمت کرو ، عرض کیا جی ہاں ! میرے بعض اساتذہ کا بھی یہی مشورہ ہے، اللہ خیر مقدر کرے گا ، اُس وقت ذرہ برابر یہ اندازہ نہ ہو سکا کہ ان کا چراغ زندگی یوں شعلہ مستعجل بن کر رہ جائے گا ، اپنے بزرگ دوست کی یادوں کی مہک سے میرا چمن حیات آج تک معطر ہے ، اللہ جل شانہ اُن کی مبارک ضریح پر اپنے فیض و کرم کے چھینٹے برسائے ، اب امید ہے کہ مولانا مرحوم کے لائق فرزند و جانشیں مولانا طارق شفیق صاحب ندوی اپنے والد بزرگوار کے نیک نام کو اپنی علمی وملی خدمات سے زندہ و تابندہ رکھیں گے ۔
کارواں سے کیسے کیسے لوگ رخصت ہو گئے
کچھ فرشتے چل رہے تھے جیسے انسانوں کے ساتھ