Slide
Slide
Slide

پنجاب کے اہم تاریخی مقامات کی سیر

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

جماعت اسلامی ہند پنجاب کے مرکز مالیرکوٹلہ کے پروگراموں میں شرکت کے لیے پہلی مرتبہ وہاں میری حاضری ہوئی تھی ، اس لیے میں نے خواہش کی کہ ایک دن رک کر پنجاب کے اہم تاریخی مقامات کی سیاحت کرلوں – محترم امیر حلقہ نے یہ خواہش پوری کردی – انھوں نے محترم محمد احمد ، حافظ افتخار احمد اور عزیزی انوار احمد کو میرے ساتھ کردیا – ان کی رفاقت میں میں نے متعدد تاریخی مقامات کی سیر کی – دار الاسلام پٹھان کوٹ کی روداد بیان کرچکا ہوں – دیگر مقامات کی سیر کی مختصر روداد پیشِ خدمت ہے :

(1) کوکا شہید اسمارک

       کوکا شہید اسمارک مالیرکوٹلہ ہی میں بنا ہوا ہے – محترم امیر حلقہ اور چند رفقاء کے ساتھ اسے دیکھنے گئے – اسے ان 66 افراد کی یاد میں تعمیر کیا گیا ہے جنھیں انگریزی فوج نے بغاوت کے الزام میں بغیر ٹرائل کیے توپوں سے اڑادیا تھا –
          1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد پنجاب میں بغاوت کی تحریکوں نے جنم لینا شروع کردیا تھا ۔ گرو رام سنگھ کی سربراہی میں نام دھاری تحریک ( جسے کوکا تحریک بھی کہا جاتا ہے -) شروع ہوئی – اس کی گوریلا کارروائیاں کئی دہائیوں پر محیط تھیں ۔ بیش تر نام دھاریوں کا تعلق مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج سے رہا تھا – انھوں نے پنجاب پر انگریزوں کے قبضے کے خلاف مزاحمت کی ۔ اس تحریک کو کچلنے کے لیے انیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں ۔  17 جنوری 1872 کو 66 کوکا انقلابیوں کو توپوں کے سامنے کھڑا کرکے اڑا دیا گیا تھا ۔ انہی کی یاد میں یہ اسمارک بنایا گیا ہے –

(2) عید گاہ مالیرکوٹلہ

       محترم امیر حلقہ کے ساتھ ہی ہم مالیرکوٹلہ کی عیدگاہ دیکھنے گئے – یہ وسیع رقبے میں تعمیر کی گئی ہے – اونچی فصیلیں ہیں – پارکوں میں ہریالی ، سبزہ اور پھول لگائے گئے ہیں – عید گاہ کی عمارت کی دیوار کے سامنے اونچا چبوترہ بنایا گیا ہے – عید الفطر اور عید الاضحٰی کے مواقع پر پوری عید گاہ کھچاکھچ بھر جاتی ہے – اس میں بڑے اجتماعات آسانی سے کیے جاسکتے ہیں –

(3) جلیان والا باغ

       امرتسر میں واقع جلیان والا باغ ہندوستان کی آزادی کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے – اس کی شہرت اس لیے ہے کہ یہاں 13 اپریل 1919ء کو جمع ہونے والے سیکڑوں حریت پسندوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا ۔ اس قتلِ عام کا باعث رسوائے زمانہ رولٹ ایکٹ مجریہ 21 مارچ 1919ء تھا ، جس کے ذریعے ہندوستانیوں کی رہی سہی آزادی بھی سلب کر لی گئی تھی ۔ تمام ملک میں مظاہروں اور ہڑتالوں کے ذریعے اس ایکٹ کے خلاف احتجاج کیا جارہا تھا – امرتسر میں احتجاج کرنے کے کئی ہزار لوگ جلیان والا باغ میں جمع ہوئے – برطانوی ہندوستانی فوج نے انگریز جنرل ڈائر نے انہیں پُر امن طریقے سے منتشر کرنے کی کوشش نہیں کی ، بلکہ ان پر سیدھے گولیاں برسانے کا حکم دے دیا ۔ چند منٹوں میں سینکڑوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔
      یہ باغ سکھوں کے متبرّک مقام ‘گولڈن ٹمپل’ سے قریب واقع ہے – ہم دوپہر بارہ بجے کے قریب وہاں پہنچے – باغ کے باہر مرنے والوں کی یاد میں ایک چھوٹا اسمارک بنایا گیا ہے – اس پر ان کے نام لکھے گئے ہیں – غور سے دیکھا تو ان میں خاصے نام مسلمانوں کے نظر آئے –
          ایک تنگ راستے سے ہوتے ہوئے ہم باغ میں داخل ہوئے – دھوپ نکلی ہوئی تھی – بڑی تعداد میں مرد اور عورتیں سیر و تفریح کے لیے آئے ہوئے تھے – ساؤنڈ سسٹم پر جدّو جہد آزادی کے نغمے گائے جارہے تھے ، ان میں علامہ اقبال کا ‘ترانۂ ہندی’ بھی تھا – کئی مقامات پر آرٹ گیلریاں بنائی گئی ہیں ، جن میں جدوجہد آزادی کی تصویریں آویزاں کی گئی ہیں – جلیانوالہ باغ کا کنواں سیاحوں کی دل چسپی کا مرکز تھا – اس کے بارے میں مشہور ہے کہ فائرنگ سے بچنے کی کوشش میں بہت سے لوگوں نے اس میں چھلانگ لگادی تھی ۔ بعد میں اس کنویں سے 120 لاشیں نکالی گئی تھیں – کہیں کہیں پرانی دیواریں باقی رکھی گئی ہیں ، جن پر گولیوں کے نشانات اب بھی موجود ہیں – ان کے گرد سفید مربّع لکیریں بنا دی گئی ہیں –

(4) گولڈن ٹمپل

        جلیان والا باغ دیکھنے کے بعد ہم  گولڈن ٹمپل پہنچے – یہ سکھوں کا بڑا متبرّک مقام ہے ، جسے عالمی شہرت حاصل ہے –  گولڈن ٹمپل کو ‘ہرمندر صاحب’ بھی کہا جاتا ہے – یہ اصلاً سکھوں کا گردوارہ ہے – اسے ‘گولڈن’ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی عمارت کے اوپری حصوں پر مہاراجا رنجیت سنگھ نے 1830ء کی دہائی میں سونے کی تہہ چڑھوائی تھی ۔ اسے 1577ء میں گرو رام داس جی کے بنائے ہوئے تالاب کے ارد گرد بنایا گیا ہے ۔ یہیں ‘سری اکال تخت صاحب’ کی عمارت واقع ہے ، جو سکھ مت کی مذہبی اتھارٹی کا مرکزی دفتر ہے ۔ اس کا سنگِ بنیاد گرو ہرگوبند نے رکھا تھا ۔  گولڈن ٹمپل چار داخلی راستوں کے ساتھ ایک مربع کمپلیکس ہے  – تالاب کے گرد گھومنے کا راستہ ہے – کہا جاتا ہے کہ یہاں روزانہ ایک لاکھ افراد آتے ہیں – یہاں جوتے پہن کر اندر جانے کی اجازت نہیں – جوتے چپل جمع کرنے کے مفت کاؤنٹر ہیں – اسی طرح سر ڈھک کر ہی اندر جانے کی اجازت دی جاتی ہے –  ہم نے اندر جاکر تالاب کا ایک راؤنڈ لیا – کئی لوگوں کو اس میں نہاتے دیکھا – لوگ اس کے پانی کو متبرّک خیال کرتے ہیں اور بوتلوں میں بھر کر اپنے اعزّا کے لیے لے جاتے ہیں –

(5) جامع مسجد جان محمد

      ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا تھا – ہم نے مسجد تلاش کی تو قریب ہی ہمیں ایک تاریخی مسجد مل گئی – اسے 1867 میں جان محمد نے تعمیر کروایا تھا ، اس لیے ان کے نام سے موسوم ہے – یہ تین گنبدوں پر مشتمل ہے – اس کے درمیانی دروازے کے بالائی حصے پر لگے کتبے میں بانی کا نام اور سنۂ تعمیر ١٢٧٩ ھ درج ہے – اس کے تعارف میں لکھا گیا ہے کہ جلیان والا باغ میں ہونے والے احتجاج میں یہاں کے نمازیوں نے بھی حصہ لیا تھا ، جو جنرل ڈائر کے حکم سے ہونے والی فائرنگ سے جاں بہ حق ہوگئے تھے –
      ہم تھک گئے تھے اور مجھے شام کو لدھیانہ سے دہلی کے لیے ٹرین پکڑنی تھی ، اس لیے ہم نے واپسی کا قصد کیا ، اگرچہ دیکھنے کی اور بھی چیزیں تھی – میرے رفقاء مجھے کپورتھلہ کی عظیم الشان مسجد بھی دکھانا چاہتے تھے ، جسے وہاں کے آخری مہاراجہ نے ماریشس کی ایک مسجد کے طرز پر بنوایا تھا ، اس لیے ‘مورش مسجد’ کہلاتی ہے اور جو تقسیم ہند کے فسادات میں محفوظ رہ گئی تھی ، لیکن وقت زیادہ ہوجانے کی وجہ سے وہاں جانا ممکن نہ ہوسکا –
      امیر حلقہ جماعت اسلامی پنجاب ماسٹر محمد نذیر کا بہت شکریہ کہ انھوں نے میری سیاحت کا انتظام فرمایا اور ان احباب کا بھی بہت شکریہ جنھوں نے میری مصاحبت کی – اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے، آمین –

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: