Slide
Slide
Slide

ہندو مذہب حقیقت اور بدگمانی کے آئینے میں

منو ،برہما اور برہمن کی حقیقت

انسانی تخلیق کے بارے میں جدید سائنس کا اپنا نظریہ یہ ہے کہ آدمی کئی ملین سال پہلے بندر تھا اور پھر مختلف علم و فن کے مراحل سے گزرتے ہوۓ متمدن اور مہذب انسان کہلایا ۔دنیا کی تمام آسمانی کتابیں اور آسمانی مذاھب کے ماننے والوں نے اس نظریے کو رد کیا مگر ان کے رد کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑا ۔میں نے پچھلے مضمون  "ہندو مذہب حقیقت اور بدگمانی کے آئینے میں” لکھا ہے کہ بیسویں صدی کے نئے ورلڈ آرڈر نے کیسے منصوبہ بند طریقے سے اقوام عالم پر سیاسی اور معاشی برتری حاصل کی اور سیکولرزم اور لبرلزم کے نام پر مذہبی تعلیمات کو بے وقعت قرار دے دیا ۔اس طرح سیکولر ممالک کے تعلیمی نصاب اور دستور میں بھی یہ بات تسلیم کروا لی گئی کہ انسانوں کا وجود ایک حادثاتی تخلیق کا نتیجہ ہے ۔اور یہ خدا ودا کا تصور جہالت کی باتیں ہیں ۔

اس نظریے کے برعکس انسانوں کی تخلیق کے معاملے میں قرآن کا ایک اپنا جامع نظریہ  ہے کہ ۔ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ۔یعنی اللہ نے آدم کو نہ صرف ایک خوبصورت ساخت پر بنایا ۔خلق الانسان من علق ۔انسان کی نسل کو ایک قسم کے ابلتے ہوۓ پانی سے آگے بڑھایا ۔اتنا ہی نہیں انسان کو شروع سے ہی شرم وحیاء کے پیکر اور لباس سے آراستہ کیا ۔آدم کو اول دور سے ہی ایسے علوم بتائے جس کا علم خود فرشتوں کو بھی نہیں تھا۔

جمیعت العلماء کی ایک کانفرنس میں جب مولانا ارشد مدنی صاحب نے یہ کہا کہ منو اور آدم ایک ہی ہیں تو جہاں ان کی اس بات پر لوکیش منی نے اعتراض کیا جمیعت مخالف مسلمانوں نے بھی حقیقت کو سمجھے بغیر بحث کا رخ  مثبت سے منفی کی طرف موڑ دیا ۔ دیکھتے ہیں کہ انسانی تخلیق میں منو ، برہما ،برہمن ،آدم اور دنیا کے اس پہلے انسان کو دئے گئے علوم کے تعلق سے ہندوؤں کی کتاب گیتا کا نظریہ کیا ہے ۔

بھگود گیتا کے مفسر شری نواس آچاریہ داس نے گیتا میں کرشن اور ارجن کی گفتگو کے مختلف ابواب کے حوالے سے اپنے ستائیس صفحے پر جو خلاصہ پیش کیا ہے اس میں انسانی تخلیق کا ایک بنیادی فلسفہ یوں بیان کیا ہے کہ گیتا ایک (ویدک )یعنی غیبی علم ہے جسے کرشن نے ارجن کو سنایا لیکن ارجن سے پہلے  یہ علم سوریودیہ یعنی وایوسوان کو دیا گیا ۔سوریودیہ نے منو کو بتائی اور منو نے اشواقو کو ۔(غالبا اشواقو کا یہ لفظ اسحاق ہے جو حضرت ابراہیم کے صاحبزادے اسحاق علیہ السلام سے پہلے حضرت نوح کے کسی اولاد میں سے رہے ہوں اور انہوں نے ایک لمبے دور کی حکمرانی کی ہو۔ اشواقو کا یہ ذکر رامائن میں بھی آتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ رام اسی دور میں پیدا ہوۓ )یہ بھی ممکن ہے کہ  ہندو تاریخ کے خلط ملط کی وجہ سے اشواقو یعنی اسحاق کی شخصیت کو کسی اور دور سے جوڑ دیا گیا ہو ۔ بدقسمتی سے میں نے اپنی کتاب "ایودھیا کی تلاش ” جو ابھی میرے ذہن میں بے ربط مسودے کی شکل میں ضبط ہے  یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کرشن اور رام ہندو کتابوں کے خیالی کردار نہیں بلکہ یہ کردار زبانوں کی منتقلی کے ظلم کا شکار ہو گئے ۔میں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ کیوں کرشن ہی موسی ہیں اور ارجن ہی موسی کے چچا زاد بھائی ہارون ہیں جنھیں کبھی ارون یا کبھی ارجن سے مخاطب کیا جاتا ہے ۔یاد رہے زبان کے فرق سے جب انگریز ہند کو الف کے لہجے میں انڈ کہہ سکتے ہیں تو ہارون کا ارون ہونا کوئی مشکل بات نہیں ہے  اور سنسکرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان ہے جو ان کے دور میں عراق اور شام کے علاقوں میں بولی جاتی تھی اور یہ ابراہیم ہی رام ہیں اور مکہ اصل ایودھیا ہے جسے قرآن میں بلدالامین یعنی امن کا شہر کہا گیا ہے ۔ آریہ بھارت کے نہیں مشرقی وسطی سے ہجرت کرکے آۓ ہوۓ لوگ ہیں یہ بات بھارت کی  مستند تاریخ میں درج ہے ۔ہاں آریہ  حضرت داؤد علیہ السلام کی امت سے ہیں جن پر زبور نازل ہوئی ابھی کسی مورخ نے یہ ثابت کرنے کی جرات نہیں کی لیکن چاروں ویدوں کا گہرائی  سے مطالعہ کرنے والوں کیلئے یہ سمجھنا بہت مشکل نہیں کہ وید بھی آسمانی کتابیں ہیں  ۔اس کی ایک وجہ جو میں یہاں  آپ سے بتانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ جتنی بھی آسمانی کتابیں ہیں وہ عام بول چال یا نثر کی زبان میں نازل نہیں ہوئیں ۔ بلکہ جیسے کہ قرآن کی ساری آیات ایک ردھم ،تسلسل اور موسیقی کے طرز پر ہیں ویدوں میں جتنے بھی سلوک ہیں وہ بھی ایک ردھم میں ہیں ۔اس کی سائینسی وجوہات بھی یہ بتائی جاتی ہے کہ ردھم کی زبان (اسے شاعری کی زبان بھی کہہ لیں )کو حفظ کرنا بنسبت نثر کے بہت آسان ہوتا ہے ۔شاید  اسی وجہ سے ہزاروں سال پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں  توریت ،بائیبل قرآن اور ہندوؤں کے وید ان مذاھب کے علماء کے حافظے میں رہیں ورنہ اس دور میں لکھنے کا رواج تو نہ کے برابر تھا یا پتھروں پر کھودائی کر کے لکھ لیا جاتا تھا  ۔ ہم  پچھلے مضمون ہندو مذہب حقیقت اور بدگمانی کی آئینے میں یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ گیتا کے مطابق آریہ کے معنی  پڑھے لکھے ہوتے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں برہمن خود کو آریہ کہتا ہی اس لئے ہے کہ وہ  اہل کتاب ہیں ۔لیکن چونکہ یہ اہل کتاب کا جملہ ابھی تک عربی میں ہی استعمال ہوا ہے اس لئے برہمن خود بھی اہل کتاب کے تصور سے نابلد ہیں ۔یہ بھی یاد رہے کہ جیسے یہودو نصارٰی اپنے اہل کتاب ہونے کی وجہ سے مشرکین مکہ کو امی کہتے تھے آریہ یعنی برہمن بھی جب ہندوستان آۓ تو انہوں نے خود کو آریہ یعنی اہل کتاب کہا اور باقی ہندوستان کے باشندوں کو اناریہ (یہ گیتا کے الفاظ ہیں ) کہا یعنی غیر اہل کتاب یا امی ۔گیتا نے اس آریہ اور اناریہ کی تشریح بھی یوں کی ہے کہ خدا کے اس پیغام کو صرف آریہ ہی سمجھ سکتا ہے اناریہ نہیں ۔جیسا کہ اسی گیتا میں جو گیتا یا بگوان پر ایمان لاتے ہیں انہیں بھگت کہا ہے یعنی اہل ایمان اور جو گیتا اور کرشن کا مزاق اڑاتے ہیں یا ان کے بھگوان ہونے سے انکار کرتے ہیں انھیں اسور Asur یعنی کافر یا ناستک کہا ہے ۔مطلب صاف ہے کہ کافر ، مسلمان اور اہل ایمان ہی نہیں مومن کا تصور بھی ہندو کتابوں میں ان کی اپنی زبان اور لہجے میں موجود ہے ۔یہ بھی یاد رہے کہ ہندو کتابوں میں جو بار بار ویدک گیان کی بات آتی ہے تو اس سے مراد غیب یا وحی کا علم ہی ہے اور اسی بنیاد پر ہندوؤں کی چار مشہور کتابوں کو وید کہا گیا ہے یعنی جس میں غیب کی باتیں ہیں ۔

گیتا  میں مصنف اعتراف کرتا ہے کہ چونکہ یہ گیان جو مختلف گروؤں کے ذریعے انسانوں تک پہنچا حالات کے تحت اس میں تحریف اور اصل گیان کے چھن بھن ہونے کی وجہ سے اب اسے کرشن کے ذریعے ارجن کو بتایا جارہا ہے ۔اہل ایمان کا بھی اپنی کتاب کے تعلق سے یہی دعوی ہے کہ چونکہ باقی آسمانی کتابیں اپنی اصلی حالت میں نہیں رہیں اس لئے اب انسانوں کی ہدایت کیلئے قرآن ہی وہ اصل علم ہے جس پر عالم انسانیت کو عمل پیرا ہونا چاہئے ۔۔

گیتا میں چونکہ کرشن کو ایشور کا اوتار مانا گیا ہے اس لئے گیتا میں کرشن کو ہی اصل خدا تسلیم کیا گیا ہے ۔جیسا کہ اوپر ہم لکھ چکے ہیں کہ گیتا کے مطابق یہ علم سب سے پہلے بھگوان نے سوریہ دیوتا جسے وایوسوان بھی کہا جاتا ہے  اور جس کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے بھگوان نے سورج کی حکمرانی سونپی ہے اور اس نے یہ علم زمین کے سب سے پہلے انسان برہما کو سنایا اور پھر یہ علم  برہما کے شاگردوں اور ان کی اولادوں کے ذریعے دوسری نسلوں تک منتقل ہوتا گیا ۔گیتا کے اپنے اسلوب سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سوریہ دیوتا زمین کا جیو یا انسان نہیں ہے بلکہ اسے وشنو نے سورج کی حکمرانی سونپی ہے ۔یا یوں کہہ لیں کہ اس کے ذمہ  خلاء کی خلافت سونپی گئی ہے ۔اگر ہم گیتا کے اس سوریہ دیوتا یا ویوسوان کا اسلامی تاریخ اور حدیثوں کی روایت سے واضح کریں تو یہ وایوسوان کوئی اور نہیں یہ کائنات کے چار مشہور فرشتوں میں سے میکائیل نام کا وہ فرشتہ ہے جسے ہوا اور بارش کا نظام سونپ کر زمین کی مخلوقات کو رزق فراہم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے لیکن روایتوں میں یہ بھی آتا ہے کہ بنی اسرائیل کے بہت سارے انبیاء کرام کی پیغام رسانی کی ذمہ داری بھی اس فرشتے کو سونپی گئی تھی اور یہ ممکن ہے کہ جس برہما اور منو کے بارے میں آتا ہے کہ سوریہ دیوتا نے انہیں یہ علم دیا یہ حضرت میکائیل کی ہی شخصیت رہی ہو ۔کچھ  مفسرین نے لکھا ہے کہ یوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوئی وہ حضرت جبریل کے ذریعے آئی لیکن  قرآن کی کچھ آیات حضرت میکائیل کے ذریعے بھی ‌بھیجی گئیں ۔خیر گیتا میں جن دو شخصیتوں کو برہمانڈ یعنی اس زمینی سیارے کے پہلے انسان کی بات کی گئی ہے وہ دو ہیں ۔یعنی برہما اور منو ۔ایک بار پھر اگر ہم ان دونوں شخصیتوں کے بارے میں قرآن کے حوالے سے بات کریں تو برہما کو آدم کہہ سکتے ہیں اور منو کو نوح کہہ سکتے جسے ہندو کتابوں میں منوح یا منو  کے طور پر جانا جاتا ہے ۔اور یقینا جس طرح طوفان نوح کے بعد روۓ زمین سے انسانی نسل کا خاتمہ ہوا اور اللہ نے حضرت نوح کو بھی تقریباً اتنی ہی عمر عطا کی جتنی آدم کو دی گئی تھی تو ہم نوح کو آدم ثانی بھی کہہ سکتے ہیں یا زمین کا پہلا جیو یا انسان ۔دوسرے لفظوں میں دنیا کا ایک دور آدم کی نسل یعنی برہما جسے گیتا میں  پرہماوادی کہا جاتا ہے اور دوسری نسل جو منو یعنی نوح سے چلی اسے منو وادی کہتے ہیں ۔یہاں پر ہم  برہما کو آدم اس لئے کہہ رہے ہیں کیوں کہ گیتا میں کئی مقامات پر اس برہم لفظ کی تشریح بھی یوں آئی ہے ۔برہم کے معنی عام جیو یعنی عام آدمی کے لیا گیا ہے اور برہما یعنی آدم اسے کہتے ہیں جس سے عام آدمی کی نسل پروان چڑھی ۔کچھ لوگوں کو یہاں پر یہ بھی مغالطہ ہوگا کہ برہما کو تو ہندو بھگوان مانتے ہیں تو ہم بتاتے چلیں کہ بھگوان کیلئے ہندو کتابوں میں برہما نہیں پرم برہما کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی جس نے برہما کو پیدا کیا اور وہ وشنو ہے جسے ہندوؤں کی ساری کتابیں مانتی ہیں کہ وشنو ہی اصل بھگوان ہے جو اجنمما ہے اور یہ وشنو ہی ہے جو ہر دور میں انسانوں کی اصلاح کیلئے  اوتار کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ رام اور کرشن جیسے ہندوؤں کے پیغمبر کو ہندو مذہب میں وشنو کا اوتار مانا جاتا ہے ۔اخری بات یہ کہ اسی برہم اور برہما کے لفظ سے جو لغظ برہمن ایجاد ہوا ہماری قرآنی زبان میں ہم برہمن کو بنی اسرائیل کے دور کے انبیاء کی امت کا مسلمان کہہ سکتے ہیں ۔یعنی جو برہما پر ایمان لائے جیسے کہ آج کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے کو مسلمان کہتے ہیں ۔  آگے ہم دوسرے مضامین میں اور بھی خلاصہ کرتے رہیں گے کہ اوم اور اللہ کی کیا حقیقت ہے ۔فی الحال یہ سمجھ لیں کہ ہندو مذہب میں منو کی شخصیت نوح کی ہے اور برہما کی شخصیت ہی آدم یعنی زمین کے پہلے انسان کی ہے اور برہمن اپنے دور کے مسلمانوں کی اپنی مادری یا آسمانی کتاب کی اصطلاحی زبان ہے ۔

واللہ علم بالصواب

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: