تبصرہ نگار: فتخار گیلانی
_________________
مارچ 2020، جب کرونا وبا کی پرچھائیں نمودار ہونا شروع ہو چکی تھیں، ماسک پہننا ابھی تک ضروری قرار نہیں دیا گیا تھا۔ ہندوستان کے وسطی صوبہ مدھیہ پردیس کے بیتو ل شہر کے نواسی دیپک بندھیلا، جو پیشے سے وکیل ہیں اور صحافی بھی رہے ہیں، صبح سویرے ذیابیطس کی دوائی لینے مقامی اسپتال کی طرف رواں تھے۔
باریش ہونے کی وجہ سے بندھیلا کو دیکھ کر مسلمان ہونے کا دھوکہ ہوجاتا ہے۔ شہر کے چوراہے پر پولیس کے اہلکاروں نے ماسک کے بغیر گھومنے کی وجہ سے ان کو روکا، پھر پکڑ کر خوب زد و کوب کیا۔جب بندھیلا نے اس کی شکایت اعلیٰ افسران سے کی اور پھر کورٹ میں فریاد لگائی، تو ان کے گھر پر پولیس کے اہلکاروں کی لائن لگ گئی، جو معافی مانگ کر ان سے شکایت واپس لینے کی درخواست کر رہے تھے۔
بار بار پولیس اہلکار ان کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ،’آپ کی لمبی اور مسلمانوں والی داڑھی سے وہ دھوکہ کھا گئے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ وہ کسی مسلما ن کو زد و کوب کر رہے تھے۔’یہ بھی بتایا کہ پیٹنے والوں میں جس اہلکار کپل ساورشتری نے ان کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا تھا، مسلمانوں کی دیکھ کرنہ جانے کیوں اس کی ہتھیلی میں کھجلی ہوجاتی ہے۔
لاک—اپ میں مسلمانوں کو زد و کوب کرنے سے اس کو سکون ملتا ہے۔
بندھیلا سوال کرتے ہیں کہ یہ مسلمان جیسے دکھنے والے کسی ہندو کا حال ہے، توآخر مسلمانوں کے ساتھ پھر کیا ہوتا ہوگا؟
معروف صحافی ضیاء سلام کی 174صفحات پر مشتمل کتاب ‘بی انگ مسلم ان ہندو انڈیا: اے کریٹکل ویو‘ اس طرح کے واقعات سے بھر ی پڑی ہے۔ 2014کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کو جس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یہ کتاب اس کا ایک آئینہ ہے۔
مصنف ہندوستان کے ایک نامور صحافی ہیں، جو انگریزی کے مؤقر اخبار "دی ہندو” کے ساتھ پچھلی دو دہائی سے وابستہ ہیں۔ہندوستان میں مسلمانوں کے حوالے سے ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
ہندوستان میں ہندو قوم پرست انتخابات میں ہندو ووٹروں کو لبھانے کے لیے عام طور تین ایشوز کا استعمال کرتے ہیں۔ ان میں گائے، پاکستان اور مسلمان ہیں۔ گائے کو تو 2014کے انتخاب میں کیش کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح 2019 کے انتخابات میں پاکستان کو لےکرہیجان میں قوم کو مبتلا کرکے ووٹ بٹورے گئے۔ اب لگتا ہے کہ 2024 کے انتخابات کے لیے برا ہ راست مسلمان ٹارگیٹ پر ہیں۔
مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ پر ابھی نامکمل رام مندر کا وزیر اعظم نریندر مودی کا خود ہی افتتاح کرنا، وارانسی میں گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ کو ہندو وں کے لیے کھول کر پوجا کرنے کی اجازت دینا، دہلی کے مہرولی علاقہ میں قطب مینار سے چند فاصلے پر 800 سالہ قدیم مسجد کو بلڈوزروں سے مسمار کرنا اور مغربی اتر پردیش کے باغپت ضلع کے برناوا میں شیخ بدرالدین کی درگاہ اور اس کی سو بیگھ زمین ہندوؤں کے حوالے کرنا، ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت صوبائی حکومتوں کا یونیفارم سول کوڈ پر قانون سازی کرنا، حا ل میں رونما چند ایسے واقعات ہیں، جن سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ہندوستان میں اب غیر اعلانیہ طور پر ہندو راشٹر قائم ہو چکا ہے۔
ابھی حال ہی میں پارلیامنٹ میں پیش کیے گئے بجٹ میں اقلیتوں کے حوالے سے کئی اسکیموں کو یا تو ختم کر دیا گیا ہے، یا ان کی مد میں مختص رقوم میں بے تحاشہ کمی کی گئی ہے۔
ضیاء سلام نے اپنی کتاب کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرکے تیس مختلف ایشوز پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ پہلے باب میں مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی کا ذکر کیا گیا ہے۔
کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ایک اندازہ کے مطابق ووٹر لسٹ سے 12 کروڑ نام غائب ہیں، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ آؤٹ لک جریدہ نے جنوبی صوبہ کرناٹک کے حوالے سے بتایا تھا کہ نو ہزار مسلمان ووٹروں کو مردہ قرار دیا گیا تھا۔
ویسے ہندوستانی سیاست میں بے جے پی کے عروج کے ساتھ پارلیامنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں ان کی نمائند گی کم ہو تی گئی۔ 1980کے انتخابات کے وقت بی جے پی وجود میں آئی تھی اور اس وقت لوک سبھا میں مسلمان ارکین کی تعداد 49 تھی۔ اس کے بعد 1984میں یہ تعداد 46تھی۔ ان انتخابات میں بی جے پی نے دو نشستیں حاصل کی تھی۔ 2009میں مسلمان ارکین کی تعداد 30تھی اور پھر 2014میں یہ تعداد 22تک گھٹ گئی۔ 2022سے ہندوستان کی جمہوری تاریخ میں پہلی بار مرکزی حکومت میں کوئی مسلمان وزیر نہیں ہے۔
اس کا براہ راست تعلق اتر پردیش، بہار، مدھیہ پردیش، دہلی اور راجستھان میں بی جے پی کا عروج ہے۔ 2014سے قبل سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے وقت مسلمانوں کی یادآجاتی تھی، کیونکہ ان کے ووٹ کے بغیر سیٹ نکالنا محال ہو جاتا تھا۔ مگر مودی نے ایسا فارمولہ ایجاد کیا کہ مسلمان ووٹ کو بالکل بے وقعت بنا دیا اور یہ ثابت کردیا کہ ان کے بغیر بھی انتخاب جیتے جاسکتے ہیں۔
اس لیے اب سیکولر پارٹیاں بھی مسلمان ارکین کو ٹکٹ دینے میں پس و پیش سے کام لیتی ہیں۔ مسلمانو ں کو سسٹم سے باہر رکھنے کا ایک اور حربہ، ان کی اکثریتی سیٹوں کو دلتوں کے لیےمحفوظ کرنا ہے، جس سے ایک تیر سے دو شکار کیے جاتے ہیں۔
آسام کے کریم گنج میں 52فیصد مسلم آبادی ہے مگر اس سیٹ سے کوئی مسلمان انتخاب نہیں لڑ سکتا ہے۔ اس کو دلتوں کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے، جبکہ ان کی آبادی محض 13فیصد ہے۔ یہی حال اتر پردیش میں بہرائچ، نگینہ، اور کئی دیگر سیٹوں کا ہے۔
چونکہ مصنف دی ہندو کے فیچر سیکشن کے انچارج رہے ہیں اس لیے بالی ووڈ کی فلموں وغیرہ پر اچھی خاصی دسترس رکھتے ہیں۔
کتاب میں انہوں نے بتایا ہے کہ فلم انڈسٹری کے پروڈیوسر کیسے ابن الوقتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جواہر لال نہرو کے وقت جب سیکولرازم کا سکہ چلتا تھا، تو یہ فلمساز، نیا دور، مدرانڈیا، انار کلی اور مغل اعظم جیسی شاہکار فلمیں بناتے تھے۔ مگر 2014کے بعد فلمساز ایسی فلمیں بناتے ہیں، جن میں ہندوتوا کو بڑھاوا دینا اور مسلمانوں کو ایک طرح کے ولن کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔
اکثر ہدایت کار تو خوش ہیں کہ وہ حکومت کی پالیسی کی تشہیر کرتے ہیں اور یہ رشتہ باہمی طور پر مفید ہے۔تاریخ اس قدر مسخ کی جا رہی ہے کہ ان فلموں کی دیکھ کر ہی گھن آتی ہے۔ سمراٹ پرتھوی راج فلم میں بتایا گیا ہے کہ پرتھوی راج نے محمد غوری کو قتل کردیا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غوری تو 1206تک زندہ تھا، اور پرتھوی راج کی موت 1192میں ہوئی تھی۔
پدماوت فلم میں تو علاء الدین خلجی کو ایک ولن کے روپ میں پیش کیا گیا، مگران فلموں سے جو ذہن سازی ہوتی ہے، اس سے مسلمانوں کے تئیں نفرت کا ایک ماحول بن جاتا ہے۔ اب ان کو کون بتائے کہ ان بادشاہوں کے وزیر اور جرنیل ہندو ہوتے تھے۔ مغل فرمانروا اورنگزیب، جو سب سے زیادہ نشانہ پر ہے نے مندروں کو جاگیریں عطا کیں اور اپنے پیش روؤں سے زیادہ غیر مسلموں کو ملازمتیں دیں۔
ایک ہزار سالہ مسلم دور کو ایک تاریک دور کے طور پرپیش کیا جاتا ہے اور اس میں تو وزیر اعظم خود ہی پیش پیش ہیں۔ شہروں اور دیہات کے ناموں کو تبدیل کرکے اس تاریخ کو ختم کرکے اور مسلمانوں کو بیگانہ کیا جا رہا ہے۔
الہ آباد کو پریاگ راج، مغل سرائے کو دین دیال اپادھیائے، فیض آباد کو ایودھیا تو بس کئی نام ہیں۔ آگرہ کا نام اگرون، بریلی کا نام مہا رشی وشیشٹ کرنے کی تیاریاں ہیں۔ اس کے بعد پتہ نہیں بریلوی مکتبہ فکر کے افراد اپنے آپ کو کس نام سے پکاریں گے۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ برطانوی حکومت سے لوہا لینے والے سلطان ٹیپو کے نام پر ٹرین ٹیپو ایکسپریس کا نام تبدیل کرکے ووڈیار ایکسپریس رکھا گیا۔ ووڈیار راجہ نے غداری کرکے برطانوی حکومت کا ساتھ دیا تھا۔
مصنف ضیاء سلام کا کہنا ہے کہ یہ کوئی اکا دکا واقعات نہیں ہے، بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ روبہ عمل لائے جا رہے ہیں، جس سے یہ باور کرایا جائے کہ غیر ہندو باہر سے آیا ہے اور اس نے اس ملک کو نقصان پہنچایا ہے اور نفرت کے قابل ہے۔
اگر مسلم حکمرانوں نے زیادتیاں کی بھی ہیں، تو اس کے لیے بغیر کسی استثناء کے پوری مسلم برادری کو اکیسویں صدی میں نشانہ بنانا کیسے جائز ہے؟
اب ایک نیا حربہ بلڈوزر جسٹس کا شروع ہو گیا ہے۔ مصنف کے بقول آج کے ہندوستان میں بلڈوزر ایک جارح اسٹیٹ کی علامت بن چکا ہے، جو مسلمانوں میں ایک خوف پیدا کردیتا ہے۔
الہ آباد کے محمد جاوید کا گھر بلڈوزر سے صرف اس وجہ سے تہس نہس کر دیا گیا کہ اس نے ایک احتجاج میں حصہ لیا تھا۔ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت رام نومی یا ہنومان جینتی یا کسی اور ہندو تہوہار کے موقع پر کھلی ٹرکوں یا ٹمپووں میں ایک جلوس کسی مسلم محلے میں وارد ہو جاتا ہے۔
خاص طور پر مسجد کے پاس یہ جلوس رک کر اشتعال انگیز نعرے بازی کرتا ہے۔ پہلے ہندوستان میں رہنا ہوگا، جئے شری رام کہنا ہوگا اور پھر جب اس کا کوئی رد عمل نہیں آتا ہے، تو اس سے بھی برے نعرے لگائے جاتے ہیں۔
اسی کے ساتھ تلواریں لہرا کر ایک پورے والیوم کے ساتھ ڈی جے بجانا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے، جب مسجد کے اندر لوگ نماز ادا کررہے ہوتے ہیں۔ اب اسی دوران کوئی مسجد کے منارے پر چڑھ کر گھیروا جھنڈ لہرا کر فتح کا اعلان کرتا ہے۔
اب بس دیر اس بات کی ہے کوئی مسجد کے اندر سے یا باہر سے جلوس پر کوئی کنکر پھینکے۔ اس کنکر کے ساتھ یہ جلوس ٹرکوں سے کود کر آس پاس کی دکانوں اور مکانو ں کو نشانہ بناکر لوٹ مار کرکے کسی وقت آگ کے حوالے کردیتا ہے۔
پولیس اس دوران خاموش تماشائی بنی ہوتی ہے۔کسی طرح اب اس جلوس کو آگے بڑھنے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ دارالحکومت دہلی کے جہانگیر پوری علاقہ اور مدھیہ پردیش کے کھرگاوں کے علاوہ اس طرح کے واقعات کئی جگہوں پر پیش آئے۔
فلم ابھی ختم نہیں ہوئی۔ لوٹ پیٹ کر مسلم محلہ دار اب اپنے نقصان کا جائزہ لے کر اپنی قسمت کوس ہی رہے ہوتے ہیں کہ چند گھنٹوں کے بعد پولیس کا دستہ بلڈوزروں کے ساتھ نمودار ہوجاتا ہے اور دکانوں اور مکانوں کو مسمار کرنا شروع کر دیتا ہے۔
اپریل 2022 کو مدھیہ پردیش میں اسی طرح 49مسلم دکان و مکان ڈھائےگئے۔ اگلے دن صوبہ کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے کہا کہ رام نومی جلوس پر پتھر پھینکنے والوں کے خلاف کارروائی کرکے ان کی جائیداوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ہنومان اور رام نومی کے جلوس کسی مذہبی عقیدت کے بجائے مسلمانوں پر ایک طرح کی نفسیاتی برتری اور ان کو دباو میں رکھنے کے لیےنکالے جاتے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے اجین شہر میں تو بس اسی لیے ایک گھر پر بلڈوزر چلایا گیا کیونکہ کسی نے شکایت کی کہ اس مکان کی چھت سے کسی نے جلوس کے اوپر تھوک دیاتھا۔
مصنف نے 1992میں بابری مسجد کی مسماری کے وقت اور آج کے حالات کا موازنہ کرتے ہوئے اپنی مثال پیش کی ہے۔ دہلی کے نواح نوئیڈا میں ہندوتو کے کارکنان رام مندر تحریک کے سلسلے میں گھر گھر جاکر اشتعال انگیز نعرے لگاتے تھے، تو ان کے ہندو پڑوسی ان کو دلاسہ دے کر ان کی ہمت بڑھاتے تھے؛
وہ طوفان میں ہمارے ساتھ کھڑے تھے۔ مگر اب حالات بالکل مختلف ہیں۔ میرے پڑوس میں اکثریتی برادری کا ایک بھی خاندان ایسا نہیں ہے جس نے 2020 میں دہلی میں ہورہے فسادات کے دوران مسلمانوں کے لیے درد کا اظہار کیا ہو۔ میرے کندھے پر بازو رکھنے کوئی میرے گھر نہیں آیا، کسی نے دلاسہ نہیں دیا۔ اس کے بجائے ہر گھر میں گیروے رنگ کا جھنڈا لگا ہوا تھا، کچھ نے اپنی بالکنیوں سے ہنومان کی تصویریں آویزاں کی تھیں۔ میں نے اپنے گھر کے دروازے بند کردیے اور اپنے بچوں اور اہلیہ کو کو گھر کے اندر رینے اور لائٹ آف کرنے کے لیے کہا۔ ہم 1992سے کتنی دور آگئے ہیں۔
کم و بیش ایسی ہی صورت حال کا سامنا راقم کو دہلی میں 2019میں کشمیر کے پلوامہ میں عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد کرنا پڑا، جب پاکستان کو سبق سکھانا انتخابی موضوع بنایا گیا تھا۔ سوسائٹی کے چوکیدار نے ہمیں بجلی بند کرنے اور گھر کے اندر رہنے کا مشورہ دیا، جبکہ ایک مشتعل ہجوم سوسائٹی کے مین گیٹ پر نعرے بلند کررہا تھا۔
ان کے جانے کے بعد دہلی میں جائے پناہ کی تلاش میں رات بھر بھٹکتے رہے۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ رات کے وقت ہجوم نے سوسائٹی کے گیٹ کو کراس کرکے ہمارے گھرکی بالکونی میں گملے وغیرہ توڑ ڈالے تھے ۔ مگر خیر ہوئی کہ پولیس نے ان کو جلد ہی بھگا دیا تھا۔
ضیاء سلام کی کتاب میں تقریباً تمام موضوعات، جن میں لو جہاد، ہجومی تشدد، مساجد پر نشانہ، حجاب اور ہندوتوا وغیرہ شامل ہیں، پر بحث کی گئی ہے۔
مگر سوال ہے کہ جب بی جے پی ہمیشہ سے ہی مسلمانو ں کے تئیں ایشوز کو اپنے انتخابی موضوع بناتی تھی، تو آخر مسلم رہنماؤں کو خوش فہمی کیوں تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد اس کے لیڈران کا وطیرہ بدل جائے گا۔ اس کتاب کو پڑھ کر یقیناً مایوسی طاری ہو جاتی ہے۔ مگر مصنف کا خود ہی کہنا ہے کہ شاید یہ حالات ایک نئی صبح کی نوید لےکر آئیں۔امید پر دنیا قائم ہے۔