۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

پروفیسر بدرالدین الحافظ

✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف،پٹنہ

_____________

3؍ جنوری 2024ء مطابق 20؍ جمادی الثانیہ 1445ھ بروز بدھ عربی زبان وادب کے نامور ادیب، مشہور نقاد، بے مثال مترجم، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور بنارس ہندو یونیورسٹی کے سابق استاذ، بلکہ استاذ الاساتذہ،
تنظیم ابنائے قدیم دار العلوم دیوبند کے ادارہ مرکز المعارف دہلی کے سابق استاذ و ڈائرکٹر پروفیسر بدر الدین الحافظ نے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا، جنازہ کی نماز جامعہ ملیہ مسجد کے امام نے پڑھائی اور بٹلہ ہاؤس قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
پروفیسر بدر الدین الحافظ کا آبائی وطن مراد آباد تھا، وہیں پلے بڑھے، مدرسہ شاہی مراد آباد سے حفظ کی تکمیل کے بعد عربی کے چند درجات تک یہیں مقیم رہے، اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم دیو بند کا رخ کیا اور اس وقت کے نامور اساتذہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ، علامہ ابراہیم بلیاوی، شیخ الادب مولانا اعزاز علی اور مولانا فخر الحسن رحمہم اللہ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا، کتابیں بھی پڑھیں اور آداب بھی سیکھے، دینی علوم کے حصول کے بعد انہوں نے جامعہ ملیہ سے عربی زبان لے کر بی اے 1967ء میں اور علی گڈھ یونیورسیٹی سے ایم اے کیا، پی ایچ ڈی کی سند دہلی یونیورسٹی سے حاصل ہوئی۔
تدریس کا آغاز جامعہ ملیہ سینئر سکنڈری اسکول سے کیا، ان کی بحالی یہاں عربی مدرس کے طور پر ہو گئی ، بعد میں وہ جامعہ کے عربی شعبہ میں گیسٹ ٹیچر کے طور پر کام کرنے لگے ، دو سال تک اسی عہدہ پر رہنے کے بعد 1980ء میں مساعد استاذ بنے، 1992ء میں پروفیسر کی حیثیت سے بنارس ہندو یونیورسیٹی چلے گیے، تا آں کہ 1995ء میں مدت ملازمت پوری کرکے سبکدوش ہو گیے، دہلی کو اپنا مستقر بنایا، وہ زمانہ تک جامعہ ملیہ کی مسجد کے امام بھی رہے، مولانا عمید الزماں کیرانوی ؒ ان کے معاصر تھے، دونوں نے دارالعلوم دیو بند کی طالب علمی کے ایام ایک ساتھ گذارے تھے، جامعہ کے مولانا کے اساتذہ میں پروفیسر ضیاء الحق ندوی کا خاص مقام ہے، وہ پوری زندگی ان دونوں سے متاثر رہے۔
تدریس کے ساتھ اللہ رب العزت نے تصنیف وتالیف ، صحافت، ترجمہ نگاری کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا، چنانچہ ان کی کتابوں میں مقالات الحافظ (قرآنیات)، توفیق الحکیم کی ناول نگاری کا جائزہ ، تذکرہ شیخ طریقت الحاج آزاد رسول، مصر کے مشہور ناول افسانے اور ڈرامے ، یادوں کی نگری (خود نوشت) انصاری صاحب کا چائے شیخ کا طرحدار کرتا، محبت کی کرسی، (غیر مطبوعہ) خاص طور سے قابل ذکر ہیں، انہوں نے طلبہ کی ضرورت اور ان کی نفسیات کو سامنے رکھ کر نصابی کتابوں کی بھی تصنیف ، تالیف اور ترتیب کاکام کیا، ان کی درسی کتابوں میں اسلامی معلومات (چار حصے) ابتدائی نظمیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں، اسلامی معلومات بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے نصاب میں بھی داخل تھی، میں نے مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی کے دوران قیام کئی سال اس کتاب کا درس دیا تھا، ترجمہ کے میدان میں بھی ان کا کام بڑا وقیع ہے، گہوارہ نبوت کے پانچ درخشندہ ستاروں کا تاریخی پس منظر ، لازوال کار نامے، بے نظیر فیصلے اور انمول ملفوظات کا تعلق ترجمہ ہی سے ہے، محمود عقاد کی شہرہ آفاق سیریز عبقریات کی تمام کتابوں کا ترجمہ کیا، اس سیریز میں خلفاء راشدین اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا تفصیلی ذکر ہے، یہ پانچ کتابوں کا سیریز ہے جو ہر مسلمان کے مطالعہ میں رہنے کی چیز ہے، اس سے عہد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور کی بہت ساری غلط فہمیوں کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔
مولانا بدر الدین الحافظ کو ان کی عربی زبان وادب میں بہترین خدمات کے لیے 1985ء میں صدر جمہوریہ ایوارڈ تفویض کیا گیا تھا، گو مولانا کی شخصیت ، علمیت ، صلاحیت اور صالحیت ان چیزوں سے بہت اوپر کی تھی، کہنا چاہیے کہ اس ایوارڈ سے مولانا کی عزت افزائی کیا ہوتی، انہوں نے قبول کر لیا تو حکومت عزت پا گئی۔
پروفیسر بدر الدین الحافظ انتہائی سادہ مزاج اور تواضع انکساری کے پیکر تھے، وہ انتہائی خاموشی اور شعور کے ساتھ شور شرابے سے بچ کر کام کرتے رہے تاآں کہ ان کا کام بولنے لگا اور ان کی شہرت کا شور لوگوں تک پہونچ گیا، پروفیسر صاحب کی زندگی پر کئی اسکالر نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کیا ہے۔
مولانا سے میری دو ملاقاتیں تھیں، دونوں دہلی میں ہوئی تھیں، میں نے انہیں حوصلہ افزائی کرنے والا اور دوسروں کی خدمات کا قدر داں پایا، انہوں نے میری بعض کتابوں پر مفید مشورے بھی دیے جس کی وجہ سے کام میں بہتری آئی۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: