✍ مفتی ناصر الدین مظاہری
______________
دعوت دین اور اقامت دین:
مدارس دینیہ اسلامیہ دعوت دین اور اقامت دین کے بڑے شعبہ بلکہ معدن اور سرچشمہ ہیں، موجودہ تبلیغی تحریک جس کے اولین محرک حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی ہیں یہ بھی حضرت نے مظاہرعلوم میں رہتے رہتے شروع کی تھی، میں اس وقت موجودہ دعوتی تحریک کی بات نہیں کررہا ہوں بلکہ نفس دعوت وتبلیغ پر گفتگو کررہا ہوں، ہمارے مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد اپنے دین و عقیدہ اور مسلک کی حفاظت اور ترویج واشاعت ہے.
دعوت احتساب:
اگر آپ غور کریں تو دینی مدارس کی ہر تعلیم، ہر کوشش کا لب لباب دعوت دین اور اقامت دین ہی ہے، ہم میں سے ہر ادارہ اگر اپنا محاسبہ کرے کہ اس نے کتنے دعوتی پروگرام کئے ہیں، کتنے لوگوں سے انفرادی سطح پر ملاقات کرکے دین کی تفہیم کی کوشش کی ہے ؟ ہمارے فضلاء اور فارغین نے کس حد تک وانذر عشیرتک الاقربین پر عمل کیا ہے؟ خاندانی رسوم، برادری کی نسلی خرافات، معاشرتی خامیوں اور خرابیوں کو دور کرنے کی کتنی کوشش کی ہے؟ اسی طرح ہمارے کتنے ادارے اپنے فارغین کی مصروفیات سے باخبر رہتے ہیں؟ فارغین کو بر سر روزگار بنانے کے لئے ان کے مادرعلمی کے پاس کوئی فارمولہ ہے یا نہیں؟ ظاہر بات ہے ہر فاضل وفارغ تو پڑھائے گا نہیں، بہت سے فارغین تعلیم کے ساتھ تجارت بھی کرنا چاہیں گے کیا ہمارے مدارس جائز کاروباری شکلیں بھی پیش کرتے ہیں یا نہیں، تجارت میں سود نے قبضہ کرلیا ہے کیا شکل اختیار کی جائے کہ اس دجالی عفریت سےبچتے ہوئے وافر رزق حلال کے حصول میں آگے بڑھا جائے۔ تجربہ یہ ہے کہ ہمارے مدارس کا فاضل بہت جلد کسی بھی کاروبار کو سمجھ لیتا ہے اور ترقی بھی کرتاہے کیوں نا کوئی ایسی ترتیب بنائی جائے کہ دین کے ساتھ جائز مال بھی کمایا جائے تاکہ فارغ ذہنی، اطمینان قلب اور پر سکون زندگی گزار سکیں۔ دیکھا گیا ہے کہ جن علماء کا کاروبار اچھا ہوجاتاہے وہ دو ایک گھنٹے بالکل مفت میں تعلیم دینے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔
مدارس کے بچے پڑھ کر جب گھر پہنچتے ہیں تو رفتہ رفتہ سب کچھ بھلا دیتے ہیں حتی کہ لباس، بال، نماز اور بہت سے تو روزہ سے بھی غافل ہوجاتے ہیں، سوچنے کی ضرورت ہے کہ چار ماہ دعوت میں لگانے والا عام شخص نماز کی پابندی کر رہا ہوتا ہے اور نوسال مسلسل مدرسہ میں گزارنے والا غفلت کا ارتکاب کررہاہے ایسا کیوں ہورہاہے؟
تصلب بھی ضروری ہے:
ہمارے اکثر فارغین عقیدہ کی صرف ایک کتاب پڑھتے ہیں نام ہے شرح عقائد نسفی ، اگر یہ کتاب پڑھانے والا کوئی ماہر استاذ ہوا تو ٹھیک ہے ورنہ عام استاذ کے بس کی یہ کتاب ہی نہیں ہے۔ اسی لئے ہمارے بہت سے فارغین کو معلوم ہی نہیں ہوتاہے کہ ان کا عقیدہ کیاہے؟ کس امام کے ماننے والے ہیں، ان کا تصوف کا سلسلہ کون سا ہے، کن سلاسل میں ان کے اکابر واساتذہ مجازبیعت ہیں، حنفیت کیا چیز ہے؟ حضرت امام ابوحنیفہ کا مسلک اور مشرب کیاہے؟ کیا مقام ومرتبہ ہے؟ خود ہمارے اکابر علماء کی کون سی کتابیں ہیں جو رد فرق باطلہ میں لکھی گئی ہیں اور بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ نااہل حدیث، اہل بدعت، منکرین ختم نبوت، ملحدین اور زنادقہ کو کس طرح لاجواب کیا جاسکتا ہے؟ نہ تو اپنے مناظرین کی تاریخ یاد ہے نہ ہی مناظرے یاد ہیں۔ نہ ہی مطالعہ وسیع ہے نہ ہی اپنی یادداشت اور مطالعہ پر اطمینان اور یقین کامل ہے اسی لئے شاخ نازک پر بننے والا آشیانہ اور ریت پر تعمیر ہونے والا ہرمحل ایک دم سے زمین پر آجاتاہے۔
کرنے کا کام:
آپ اپنی مساجد میں یومیہ دس پندرہ منٹ کوئی بھی اصلاحی، دینی، دعوتی درس شروع کیجیے، رفتہ رفتہ اس کے فوائد محسوس ہونے شروع ہوجائیں گے، ایک حدیث، ترجمہ اور تشریح کا معمول بنالیں، ایک آیت ترجمہ اور تشریح شروع کردیں،مستند بزرگ کا ایک ملفوظ یا معتبر بزرگ کا ایک واقعہ ہی بیان کردیا کیجیے پھر دیکھئے کتنی تیزی سے یہ معمول مقبول بھی ہوگا اور مفید بھی ثابت ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: فضلائے قدیم؛ جدید فارغین کی رہنمائی کریں
ہم اپنا احتساب کریں روزآنہ کتنی دیر ہم کسی تنظیم کو، حکومت کو، سیاسی لوگوں کو، خیراتی اداروں کو، اپنے علماء، امام یا اہل محلہ اور مسلمانوں کو قصور وار گردانتے ہیں۔ کتنی دیر ہماری زبان آگ اگلتی ہے، خرافات، غیبت، چغلخوری، برائی اور الزام تراشی میں مصروف رہتی ہے ان گناہوں کے کاموں میں ہمارا جو وقت لگتاہے صرف وہی وقت بچالیں اور یہ تعمیری واصلاحی کام شروع کردیں تو معاشرہ کی اصلاح بھی ہوگی اور اصلاح کے اس عمل کی شروعات اپنی ذات سے ہوگی۔
اصلاح نفس:
مدارس کے فارغین کے لئے ضروری ہے کہ سند دینے سے پہلے ان کو کسی دیندار بزرگ سے اصلاحی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا جائے، ذکر و اذکار کی پابندی کرائی جائے، نمازوں کا اہتمام اور وقتا فوقتا دعوتی اسفار کرائے جائیں، حدود اختلاف بتایا جائے، وجادلھم بالتی ھی احسن کا مفہوم سنت نبوی اور سیرت نبوی کی روشنی میں سمجھایا جائے، ہرگز انھیں بے یار و مددگار نہ چھوڑا جائے ورنہ بے روزگاری، بے گاری اور مالی تنگی وتنگ دستی انھیں غلط راہوں، غلط لوگوں، غلط مذاہب اور باطل راہوں پر ڈال دے گی پھر آپ اورآپ کا ادارہ ہی بدنام نہیں ہوگا پورا دین اور دینی سسٹم بدنام ہوجائے گا۔