محنت اورلگن نہ کہ سستی اور کاہلی
از: مولانا جعفرمسعود حسنی ندوی
ترجمانی: محمد امین حسن ندوی
____________
ذہن میں اکثر یہ سوال آتا ہے کہ یورپ نے ترقی کیسے کی؟ دنیاوی قیادت وسیادت اس کے ہاتھ میں کیسے آئی؟ مشرقی اسلامی ممالک کی تنزلی کے کیا اسباب ہیں؟ یورپ سے وہ کیوں پیچھے رہ گئے؟ قیادت وسیادت سے ان کوہٹنا کیوں پڑا؟ یورپ نے ٹیکنکلی، اقتصادی، سیاسی، تہذیبی اور علمی طور پر کیسے فوقیت حاصل کی؟ اور ان کامیابیوں کو اس نے حاصل کیا جس کا تیرہویں صدی میںتصور کرنا بھی مشکل تھا، کیوںکہ اس وقت تک قیادت وسیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی اور مسلمان ترقی کی منزلیں طے کرتے جارہے تھے۔
حالات بدلے؟ وقت کا پہیہ گھوما،مغرب سے سورج طلوع ہوا اور پوری آب وتاب سے نمودار ہوا،لیکن یہ سب ایک دن یا ایک رات میں ہی نہیں ہوگیا اور نہ ہی یورپ کے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ تھا جس کو رگڑنے سے یہ سب ہوتا چلا گیا اور یورپ نے ترقی کرلی۔
یورپ نے مشرقی ممالک پر تین مرحلوںمیںاپنا تسلط قائم کیا؛ پہلا مرحلہ تیرہویں صدی عیسوی سے سترہویں صدی تک۔ دوسرا مرحلہ سترہویں صدی عیسوی سے انیسویں صدی تک، جب کہ تیسرا مرحلہ انیسویں صدی سے موجودہ دور تک ہے۔
پہلے مرحلہ میں یورپ نے سب سے پہلے عالم اسلامی سے واقفیت حاصل کی۔جب کہ دوسرے مرحلہ میں یورپ نے اسلامی ملکوں سے اپنے تعلقات قائم کیے اور اپنے اثرورسوخ کو کبھی طاقت کے زور پر اور کبھی مکاری وعیاری کے ساتھ استعمال کرنے کی کوشش کی۔ تیسرے مرحلہ میں باقاعدہ مشرقی ممالک پر اپنا تسلط پوری طرح قائم کرلیا۔
حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی کوئی بنیاد نہیں تھی جس طرح ہم آج اسے دیکھ رہے ہیں، نہ ہی تاریخی اعتبار سے کوئی وقعت تھی اور نہ ہی اس کا کوئی تاریخی وجود تھا۔ یورپ کا وجود ابھی ہوا ہے، امریکہ میں فرانسیسی سفیر نے ایک برطانوی اخبارThe Telegraph (دی ٹیلیگراف )کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا:
’’ہم کو یہ بات ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے تاریخی اعتبار سے بہت دیر کردی اور یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہم بنیادی حیثیت نہیں رکھتے، اٹھارہویں صدی کے شروع میں ہمارا ایساکوئی وجود نہیں تھا۔‘‘
انیسویں صدی کے نصف تک مسلمان ہر میدان میں آگے تھے۔تہذیبی، اخلاقی، سیاسی، تنظیمی، فوجی، اقتصادی وثقافتی اورنظم ونسق کے اعتبار سے بھی لیکن یہ سب کچھ اس وقت بدل گیا جب یورپ نے مسلمانوں کو جانا اور اس نے مسلمانوں کا تعلیم سے اشتغال دیکھا اور علم کے لیے ان کی فکرمندی اور محنت کو دیکھا، مسلم ممالک میں کتب خانوں میں کتابوں کا ذخیرہ دیکھا، یونیورسٹیوں میں طلباء کی تعداد دیکھی، اکیڈیمیز میں اسکالروں کو محنت سے مطالعہ کرتے دیکھا، اسلامی ممالک میں بلند وبالا عمارتوں کو دیکھا، وہاں سرسبزی وشادابی اور کشادہ سڑکیں دیکھیں۔ یہ سب ترقی دیکھ کر یورپ کی آنکھیں چکاچوند ہوگئیں اور اسی کے ساتھ اس نے وہاں کا تہذیب وتمدن اور مسلمانوں کی سلیقہ شعاری دیکھی، اسلامی شہروں میں امن وامان کو دیکھا ، تعلیمی وتربیتی نظام کو سمجھا، اس وقت اس نے اسلامی ملکوں کے ساتھ اپنا میل جول بڑھانا شروع کیا۔ ایک یورپ کا مورخ کہتا ہے:
’’عرب ہمارے پہلے استاذ ہیں جن سے ہم نے فلکیاتی علوم سیکھے، علوم طبیعیات کو سیکھا، علم کیمیاء اور علم طب کو حاصل کیا۔‘‘
یورپ نے جو کچھ ذہنی ترقی کی وہ اسی تجارت کا نتیجہ ہے جو مشرق کے ساتھ ہوئی اور اندلس میں علماء سے تبادلہ خیال کرنے سے اسے حاصل ہوئی۔
آج ہم کوجو کچھ یورپ کی ترقی دکھ رہی ہے وہ سب طلیطلہ، قرطبہ، غرناطہ کے علم کے مراکز کا نتیجہ ہے جس کو یورپ نے دانتوں تلے دبالیا اور یورپ نے حتی المقدور کوشش کی اس کے حصول کے لیے اور ترقی کی منزلیں طے کرنے کے لیے اس نے اختراعات وایجادات سے کام لیا، جب کہ مشرقی ممالک نے علم سے اپنا رشتہ منقطع کرلیا تھا۔ اس طرح مشرق تاریکی کے اس دور میں پہنچ گیا جہاں کبھی یورپ تھا۔
اسلامی ممالک اگر حیاتِ نو چاہتے ہیں جس کا ذکر مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ نے اپنی کتاب ـ’’ ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین ‘‘(انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزول کا اثر ) میں کیا ہے۔ حضرت مولاناؒ لکھتے ہیں:
’’اگر عالم اسلامی کی خواہش ہے کہ نئے سرے سے وہ اپنی زندگی شروع کرے اور غیروں کی غلامی سے آزاد ہو، اگر وہ عالم گیر قیادت حاصل کرنا چاہتا ہے تو صرف تعلیمی خود مختاری ہی نہیں بلکہ علمی لیڈرشپ بھی بہت ضروری ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں، یہ مسئلہ بہت گہرے غوروفکر کا محتاج ہے، اس کے لیے ضرورت ہے کہ وسیع پیمانہ پر تصنیف وتالیف اور علوم کی تدوین جدید کا کام شروع کیا جائے۔ اس کام کے سربراہ کار عصری علوم سے اتنی واقفیت اور گہری بصیرت رکھتے ہوں جو تحقیق وتنقید کے درجہ تک پہنچتی ہو اور اس کے ساتھ اسلام کے سرچشموں سے پورے طور پر سیراب اور اسلامی روح سے ان کا قلب ونظر معمور ہو۔ یہ وہ مہم ہے جس کی تکمیل کسی جماعت یا انجمن کے لیے مشکل ہو گی، یہ اسلامی حکومتوں کا کام ہے، اس مقصد کے لیے اس کو منظم جماعتیں اور مکمل ادارے قائم کرنے ہوں گے اور ایسے ماہرین فن کا انتخاب کرنا ہوگا جو ہر فن میں دست گاہ رکھتے ہوں، وہ ایسا نصاب تعلیم تیار کریں جو ایک طرف کتاب وسنت کے محکمات اور دین کے ناقابل تبدیل حقائق پر مشتمل ہو اور دوسری طرف مفید عصری علوم اور تجزیہ وتحلیل پر حاوی ہو، وہ مسلمان نوجوانوں کے لیے علوم عصریہ کی ازسر نو تدوین کریں جو اسلام کے اصولوں اور اسلام کی روح کی بنیاد پر ہو، اس میں ہر ایسی چیز ہو جو نوخیز طبقے کے لیے ضروری ہو اور جس سے وہ اپنی زندگی کی تنظیم کرسکے اور اپنی سا لمیت کی حفاظت کرسکے اور مادی ودماغی جنگ میں اس کے مقابلہ میں اس کے اپنی زمین کے خزانوں سے فائدہ اٹھائے اور اپنے ملک کی دولتوں کو استعمال میں لائے۔ اسلامی ملکوں کی مالیات کی نئی تنظیم کرے اور اس کو اسلامی تعلیمات کے ماتحت اس طرح چلائے کہ طرز حکومت اور مالیاتی امور کی تنظیم میں یورپ پر اسلامی نظام کی برتری صاف ظاہر ہوجائے اور وہ اقتصادی مشکلات حل ہوجائیں جن کے حل کرنے کے معاملہ میں یورپ سپر ڈال چکا ہے اور اپنی بے بسی کا معترف ہے۔
اس روحانی ،صنعتی اور فوجی تیاری اور تعلیمی آزادی کے ساتھ عالم اسلامی عروج حاصل کرسکتا ہے، اپنا پیغام پہنچاسکتا ہے اور دنیا کو اس تباہی سے نجات دلاسکتا ہے جو اس کے سرپر منڈلارہی ہے۔ قیادت ہنسی کھیل نہیں‘ نہایت سنجیدہ معاملہ ہے اور منظم جدوجہد ،مکمل تیاری ،عظیم الشان قربانی اور سخت جانفشانی کی محتاج ہے۔ ‘‘