اطہر فاروقی کے تین انگریزی تراجم
تعارف و تبصرہ : شکیل رشید
______________
اطہر فاروقی نہ اردو والوں کے لیے اجنبی ہیں اور نہ ہی انگریزی والے اُن سے ناواقف ہیں ۔ اردو کے ایک ایسے ادیب اور مترجم کے طور پر ، جسے اردو زبان کی سیاست کا مکمل ادراک اور شعور ہے ، اور جو آج کے ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل سے ، اور ان مسائل کے اردگرد بُنی گئی سیاست سے خوب واقفیت رکھتا ہے ، اطہر فاروقی ادیبوں کے حلقے میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں ۔ اطہر فاروقی اِن دنوں ’ انجمن ترقی اردو ( ہند ) نئی دہلی ‘ کے جنرل سکریٹری ہیں ، اور اُن کی سربراہی میں یہ قدیم ادارہ ترقی کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے ۔ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ اطہر فاروقی اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر یکساں دسترس رکھتے ہیں ، اور ان دونوں ہی زبانوں میں ان کی کئی کتابیں ہیں ۔ وہ ایک لاجواب مترجم بھی ہیں ۔ حال ہی میں مجھے اردو کی تین کتابوں کے ان کے کیے انگریزی ترجمے موصول ہوئے ہیں ؛ ایک ترجمہ ’ سوانحِ دہلی ‘ کا Biography Of Delhi کے عنوان سے ہے ، دوسرا ’ بزمِ آخر ‘ کا ترجمہ The Last Gathering کے عنوان سے ہے اور تیسرا ترجمہ ’ بہادر شاہ ظفر ‘ کا The Life & Poetry Of Bahadur Shah Zafar کے نام سے ہے ۔ پہلی کتاب بہادر شاہ ظفر کے پوتے مرزا احمد اختر گورگانی کی تحریر کردہ ہے ۔
یہ کتاب جیسا کہ اس کے نام ’ سوانحِ دہلی ‘ سے ظاہر ہے قدیم دہلی کی تاریخ ہے ، لیکن تاریخ کے ساتھ ساتھ یہ مغلیہ خاندان کے آخری دنوں اور ایک تہذیب کی زبوں حالی کا نوحہ بھی ہے ۔ چونکہ اسے خود ایک شہزادے ، آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے پوتے مرزا احمد اختر گورگانی نے تحریر کیا ہے ، اس لیے اس میں دہلی کی تباہی و بربادی کے آنکھوں دیکھے ایسے واقعات بھی آ گیے ہیں جنہیں دہلی سے باہر رہنے والوں کے لیے دیکھنا اور سمجھ پانا ممکن نہیں تھا ۔ اطہر فاروقی نے کتاب کے ’ تعارف ‘ میں جہاں کتاب اور اس کے ترجمے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے وہیں چند روایات کی صداقت کو مشتبہ قرار دیا ہے ، مثلاً ایک روایت کے مطابق 1857 کی جنگ آزادی کے بعد جب دہلی اور مغلیہ خاندان پر انگریزوں کا عتاب نازل ہوا تو مرزا احمد گورگانی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ کیرانہ جاکر چھپ گیے اور یونانی حکمت سے بیس سے پچیس سال تک روزی روٹی کماتے رہے ، اور جب ان کی موت کے بعد ان کے اسباب سے ’ سوانح دہلی ‘ کا مسودہ برآمد ہوا تب لوگوں نے جانا کہ یہ عسرت کی زندگی گزارنے والا شخص ایک شہزادہ تھا ! اطہر فاروقی لکھتے ہیں کہ کیرانہ دہلی سے بہت دُور نہیں تھا کہ انگریز مرزا کی موجودگی سے لاعلم رہتے ، بالخصوص اس لیے کہ انگریزوں کے جاسوس چپے چپے پر پائے جاتے تھے ۔ اطہر فاروقی اسی کتاب سے یہ دلیل دیتے ہیں کہ مرزا انگریزوں کی مرضی سے کیرانہ میں رہے اور ان ہی کی مرضی سے یہ کتاب بھی لکھی ، اور اس کا اندازہ اس کتاب میں انگریزوں کے لیے پائے جانے والے عاجزانہ اور خوشامدانہ الفاظ ہیں ۔ کتاب آٹھ ابواب اور اطہر فاروقی کے انتہائی اہم فٹ نوٹس پر مشتمل ہے ۔ آخری باب انگریزوں کے اندازِ حکمرانی کی مدح میں ہے ، اس کا آخری جملہ ہے : ’’ اور اب ملک بھر میں امن ہی امن ہے ‘‘۔ ایک باب دہلی کے زوال اور 1857 کی تباہی پر ہے ۔ مرزا نے اس جنگ کو ’ بغاوت ‘ قرار دیا ہے ۔ ضعیف بہادر شاہ ظفر کو ’ مجبور اور بےبس ‘ لکھا ہے ، اور انگریزوں کو ’ آقا ‘ کہا ہے ۔ یہ 92 صفحات پر مشتمل ایک مختصر مگر اپنے دور پر روشنی ڈالتے والی اہم کتاب ہے ۔
انگریزی ترجمہ ’ رولی بکس، دہلی ‘ نے شائع کیا ہے ، قیمت 595 روپیے ہے ۔ انتساب دہلی کی تاریخ سے مکمل واقفیت رکھنے والی دو خواتین نارائنی گپتا اور سوپنا لڈل کے نام ہے ۔
’ بزم آخر ‘ کا ترجمہ بھی ’ رولی بکس ‘ سے شائع ہوا ہے ۔ یہ کتاب مغل دربار کے روزمرہ کے معمولات کے آنکھوں دیکھے حال پر مشتمل ہے ۔ سوانح دہلی کی طرح یہ بھی بہادر شاہ ظفر کے دور کے حالات پر روشنی ڈالتی ہے ۔ اطہر فاروقی نے اس کتاب کا ’ تعارف ‘ کراتے ہوئے جہاں اس کے مصنف منشی فیض الدین کے طرزِ تحریر اور اس کی پیچیدگیوں کا ذکر کیا ہے وہیں یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ اس کتاب کو وہ تین سال کی مدت میں ، تراجم کے دو ڈرافٹ رد کرنے کے بعد ہی ، مکمل کر سکے اور یہ کہ اس کام میں بیدار بخت نے ان کی کافی مدد اور رہنمائی کی ۔ یہ کتاب بہادر شاہ ظفر کے دربار کے آداب و رسومات اور معمولات کے ساتھ قلعۂ معلیٰ میں منائے جانے والے تہواروں ، جیسے کہ عید ، نوروز ، دیوالی اور رکشا بندھن کی تفصیلات بتاتی اور دہلی کے انواع و اقسام کے کھانوں کی تفصیلات بھی پیش کرتی ہے ۔ اس کتاب کے فٹ نوٹس بھی اہم ہیں ۔ یہ کتاب 395 روپیے کی ہے ۔ اس کا انتساب صدیق الرحمن قدوائی اور محمد ذاکر کے نام ہے ۔
تیسری کتاب مرحوم اسلم پرویز کی مشہور و مقبول تحقیقی کتاب ’ بہادر شاہ ظفر ‘ کا ترجمہ ہے ۔ میں نے اسے پہلی بار انجمن کے مجلے ’ اردو ادب ‘ کے خاص نمبر کی صورت میں دیکھا تھا، پھر انجمن نے اسے کتابی صورت میں میں شائع کیا ، اور اب دہلی کے ایک پبلیکیشنز ’ ہے ہاؤس ‘ نے یہ انگریزی ترجمہ شائع کیا ہے ۔ یہ بہادر شاہ ظفر اور ان کی شاعری کے حوالے سے بھی ایک اہم کتاب ہے اور 1857 کی تاریج کے حوالے سے بھی ۔ کتاب میں حواشی کے ساتھ کتابیات بھی شامل ہے اور بہادر شاہ ظفر و اہل خانہ کی رنگین تصاویر بھی ۔ ایک تصویر شاہ کی گرفتاری کی اور ایک تصویر رنگون کی ہے ، جس میں ضعیف العمر شاہ اپنے دو اسیر شہزادوں کے ساتھ مایوس اور غمگین نظر آ رہے ہیں ، اور ایک انگریز ساتھ میں کھڑا ہوا ہے جس کے چہرے پر نخوت ہے ۔ ایک تصویر محاصرے سے قبل کے شہر دہلی کی ہے ۔ اور دو تصاویر زمانے کے کروٹیں بدلنے کی ؛ شاہ کی چھوٹی اور انتہائی خوبصورت بیگم زینت محل کی جوانی اور بڑھاپے کی ، جب وہ رنگون میں اسیری میں تھیں ۔ یہ بہادر شاہ ظفر پر ایک اہم کتاب کا خوبصورت ترجمہ ہے ۔ اس کا اطہر فاروقی کا تحریر کردہ ’ تعارف ‘ وقیع ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ چونکہ یہ کتاب اردو زبان میں ہے اس لیے بہت سے لوگ اس کے پڑھنے سے محروم تھے ، اس وجہ سے اس کے انگریزی ترجمے کی اشد ضرورت تھی ۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ کتاب اپنے اندر اتنا مواد سموئے ہوئے ہے کہ اس سے مزید تحقیقات اور تشریحات کی راہیں کھل سکتی ہیں ۔ اسلم پرویز نے بہادر شاہ ظفر پر 1964 میں پی ایچ ڈی کی تھی ، انہیں 1965 میں ڈگری ملی مگر وہ مزید بیس سال تک تحقیق کرتے رہے اور پہلی دفعہ یہ کتاب 1986 میں شائع ہوئی ، پھر متعدد قانونی و غیر قانونی ایڈیشن شائع ہوئے ۔ ییہ کتاب 240 صفحات پر مشتمل ہے، قیمت 499 روپیے ہے ۔ انتساب بیدار بخت کے نام ہے ۔
ایک آخری سوال ؛ اطہر فاروقی نے یہ ترجمے کیوں کیے؟ تینوں کتابوں کے تعارف پڑھنے کے بعد اس سوال کا جواب مختصراً یہ نکلتا ہے کہ مغلوں کو ہندوستانی تاریخ نے بہت کوسا ہے ، انہیں ہندو دشمن قرار دیا ہے ، عیش پرست کہا ہے ، لیکن وہ ایسے نہیں تھے ۔ مغل ذہین تھے، مہذب تھے ۔ انگریزوں نے افسانہ تراشا کہ مغل خراب ہیں اور ان کی جگہ وہی یعنی انگریز حکومت کر سکتے ہیں ۔ بہادر شاہ ظفر جیسے بھی رہے ہوں آج کے سیاست داں اُس دور کے راجے مہاراجوں سے بدتر ہیں ۔ بہادر شاہ ظفر ہی کو سارے زوال کا قصوروار نہیں قرار دیا جا سکتا ، اور نہ ہی صرف مسلمان حکمرانوں کو ۔ ظفر ہماری ہندوستانی تاریخ کا اہم باب ہیں بلکہ نئے دور کے پیامبر ہیں ۔ لہٰذا ظفر کو اور مغلوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
تینوں ترجمے شاندار ہیں ، پیچیدگی سے پاک صاف ۔ میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں نے اردو کی ان کتابوں کو بھی دیکھا ہے جن کے یہ ترجمے ہیں ۔ اطہر فاروقی کو ان تراجم کے لیے بہت بہت مبارک باد ۔