۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

ضلع کشن گنج میں رابطے کا اجتماعی امتحان بحسن و خوبی تکمیل پذیر

    از: ظفر امام قاسمی، دارالعلوم بہادرگنج

_____________

    الحمدللہ ضلع کشن گنج بہار کے زیر اہتمام رابطہ مدارس عربیہ کا سالانہ اجتماعی امتحان بڑی ہی خوش اسلوبی اور خوب نظمی کے ساتھ 21 فروری 2024؁ء بروز بدھ جامعہ محمود المدارس کشن گنج بہار میں اپنی تکمیل کو پہونچا،رابطے کا یہ دوسرا سالانہ اجتماعی امتحان تھا جو 12/ فروری نہایت تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوا۔
     رابطۂ مدارس عربیہ دارالعلوم دیوبند ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس کے دامن سے ہندوستان بھر کے ہزاروں مدارس جڑے ہوئے ہیں،
رابطۂ مدارس کا بنیادی مقصد ملک بھر کے مدارس کو اکابرِ دیوبند کے نہج پر باقی رکھتے ہوئے ملک وملت اور قومِ مسلم کے لیے زیادہ سے زیادہ نفع بخش اور سود مند بنانا،ان کے نظامِ تعلیم وتربیت کو بہتر اور فائدہ مند بنانا،درپیش اندرونی وبیرونی مسائل کے لیے متحدہ لائحۂ عمل تیارکرنا،مدارسِ اسلامیہ عربیہ کے خلاف کی جانے والی نفرت بھری کوششوں،گھناؤنی سازشوں اور تعصب انگیزیوں پر نظر رکھتے ہوئے ان کو ناکام کرنے کی منصوبہ بندی کرنا، علماء برادری میں باہمی ربط واتحاد کو فروغ دینا اور دینی،ملی اور ملکی مسائل میں مدارس کے کردار کو زیادہ سے زیادہ موثر وفعال بنانا ہے۔
   مدارس کے نظامِ تعلیم کو مرتب،منظم،مستحکم اور مضبوط بنانے کے لئے مربوط مدارس کا سالانہ اجتماعی امتحان بھی رابطۂ مدارس اسلامیہ  دارالعلوم دیوبند کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے،جس پر مختلف صوبوں میں کافی پہلے سے عمل ہوتا چلا آرہا ہے،اور اس کے بہتر نتائج بھی برآمد ہو رہے ہیں،الحمدللہ سالِ گزشتہ سے ذمہ داران رابطۂ مدارس عربیہ صوبہ بہار بالخصوص حضرت اقدس مولانا مرغوب الرحمن صاحب قاسمی صدر رابطہ مدارس صوبہ بہار اور حضرت اقدس مفتی خالد انور صاحب مظاہری جنرل سکریٹری رابطہ مدارس عربیہ صوبہ بہار کی کافی تگ و دو اور جانفشانی کے بعد اجتماعی امتحان کا یہ سنہرا سلسلہ بشمول ضلع کشن گنج کے صوبہ بہار میں بھی شروع کردیا گیا جس کے مثبت اور بہتر نتائج سالِ گزشتہ ہی سے دیکھنے کو مل رہے ہیں،طلبہ کے اندر جذبۂ تنافس بیدار ہو رہا ہے،مدارس کے ذمہ داران بھی اس میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کو اپنے مدرسے کی ترقی اور عروج کی سیڑھی سمجھ رہے ہیں،اور وہ اس کے تئیں اساتذہ اور طلبہ کو گاہے گاہے مہمیز بھی کر رہے ہیں،یہ ایک خوش آئند بات ہے۔
    رابطہ مدارس عربیہ ضلع کشن گنج کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے اس سالانہ اجتماعی امتحان کو مکمل ہونے میں سال گزشتہ کے برخلاف چار دن کا وقت لگا (گزشتہ سال پانچ دن کا وقت صرف ہوا تھا) جس کے لئے چار مراکز کا انتخاب عمل میں آیا،امتحان میں شرکت کرنے والے مربوط مدارس کے طلبہ کی کل تعداد ایک ہزار سے متجاوز رہی،انتخابِ مراکز میں خاص طور پر اس بات کو پیش نظر رکھا گیا کہ آسانی کے ساتھ اس مرکز کے قرب و جوار کے طلبۂ مدارس شریک ہوسکیں،امتحان میں شریک ہونے والے مساہمین کو امسال چار گروپوں میں بانٹا گیا تھا،ایک تا پانچ والوں کو فرعِ اول،ایک سے دس والوں کو فرعِ ثانی،ایک تا بیس والوں کو فرع ثالث اور مکمل قرآن والوں کو فرعِ رابع میں رکھا گیا(جبکہ پچھلے سال صرف تین فروعات پرمشتمل امتحان کا یہ عمل پیش آیا تھا) ہر فرع کے لئے ایک ایک ممتحن کا انتخاب کیا گیا،کل ملا کر چار ممتحنوں کی خدمات لی گئیں، ہرمرکز کے ہرفرع کے نمبرات میں توازن اور یکسانیت رکھنے کے لئے اس بات کا لحاظ رکھا گیا کہ جس ممتحن نے ایک مرکز میں فرع اول کے مساہمین کا امتحان لیا انہی سے دوسرے مراکز کے اسی فرع کا امتحان دلوایا گیا تاکہ دیگر مراکز کے نمبرات میں بھاری تفاوت نہ ہو کیونکہ نمبرات دینے کے سلسلے میں ہرممتحن کا اپنا ذوق اور مزاج ہوتا ہے،کوئی کشادہ دست ہوتا ہے تو کوئی تنگ دست،اس طرح سے نمبرات میں کافی تفاوت ہوجاتا ہے،اس لئے ہر مرکز کے ایک فرع میں ایک ہی ممتحن کو امتحان لینے کا پابند کیا گیا تاکہ وہ اپنی صوابدید پر نمبرات میں توازن کو برقرار رکھ سکیں،ممتحنین کا انتخاب بھی ماہر،کہنہ مشق،تجربہ کار اور مستند اداروں سے منسلک اساتذہ کو سامنے رکھ کر کیاگیا،فرع اول کے امتحان کے لئے جناب قاری مزمل حسین صاحب سابق مدرس جامعہ جعفریہ مدنی نگر سرائے کوڑی،فرع ثانی کے امتحان کے لئے جناب قاری نذیر احمد صاحب مدرس جامعہ محمود المدارس کشن گنج،فرع ثالث کے امتحان کے لئے جناب قاری انظار صاحب مدرس دارالعلوم بہادرگنج اور فرع رابع کے امتحان کے لئے جناب قاری اسعد عالم صاحب مدرس مدرسہ مظاہر علوم پوا خالی منتخب ہوئے۔
    12 فروری 2024؁ء بروز پیر سے اس کا آغاز ہوا،پہلے دن کا امتحان جامعہ حسینیہ مدنی نگر فرینگورا کشن گنج میں منعقد ہوا،جبکہ دوسرے دن کا امتحان بروز منگل جامعہ جعفریہ مدنی نگر سرائے کوڑی میں،تیسرے دن کا امتحان بروز بدھ دارالعلوم بہادرگنج میں،اس کے بعد بچند وجوہ بیچ میں ایک ہفتے کا وقفہ ہوا اور چوتھے دن کا امتحان 21/فروری 2024؁ بروز بدھ جامعہ محمود المدارس کشن گنج میں منعقد ہوا۔
    چونکہ ہاتھوں ہاتھ امتحان کے نتائج بھی تیار کرنے تھے اور دوسرے ضروری کام بھی ہوتے ہیں اس لئے سال گزشتہ کی طرح امسال بھی ان میں ہاتھ بٹانے کے لئے رابطۂ مدارسِ عربیہ ضلع کشن گنج کے جنرل سکریٹری،نہایت ہی زیرک،ہنرمند، متحرک، چوکس، فعال،انتظامی امور میں یگانہ شخصیت کے حامل انسان محسن و کرم نواز حضرت اقدس مفتی مناظر صاحب نعمانی قاسمی مدظلہ العالی نے اس خاکسار کو مدعو کیا،یہ حضرت کا اس ناچیز پر ایک گراں احسان ہے کہ آپ کی نظرِ انتخاب مجھ ناچیز اور پھوہڑ انسان پر پڑتی ہے،اور موقع بہ موقع مجھ ناچیز کو یاد کرکے آپ کا جو قرض مجھ ناچیز کی گردن کا طوق بنتا ہے جیتے جی میں اس قرض کو بےباق نہیں کرسکتا،آپ کی معیت میں رہ کر جو گہر پارے میری آنکھوں کو عنایت ہوتے ہیں اور جو لعلہائے گراں مایہ مجھے دستیاب ہوتے ہیں شاید کہیں رہ کر مجھے وہ میسر نہ ہوتے،اللہ پاک حضرت کو اس کا بہتر بدلہ عنایت کرے۔
   امسال جونہی امتحان شروع ہوا حضرت مفتی صاحب کی طبیعت ناساز ہوگئی،چونکہ آپ کے نتائج تیار کرنے کا انداز بھی نہایت منفرد اور یکتا ہے،کئی طرح سے جاں سوزی کرکے آپ مختلف طرق میں نتائج تیار کرتے ہیں اس کے لئے طبیعت کا نشیط اور مزاج کا یکسو ہونا از حد ضروری ہے،اور مجھ اکیلے سے تو یہ ممکن نہ ہوتا،سو امسال ہاتھوں ہاتھ نتائج تو تیار نہ ہوسکے تاہم الحمدللہ امتحان کے آخری دن ہم دونوں نے مل کر تقریبا مسلسل چھ گھنٹے صرف کرکے نتائج تیار کردئے ہیں۔
     انسان چونکہ فطرتاً وہمی واقع ہوا ہے،اس کی گھٹی میں شک و وہم کا خمیر ودیعت کردیا گیا ہے،اگر یہ امتحان عام امتحانوں کی طرح ہوتا تو یقینا نمبرات کے سلسلے میں لوگوں کی شک بھری نگاہیں مفتی صاحب کی ذات کی طرف اٹھتیں اور طرح طرح کے اشاروں کنایوں سے آپ کی ذات کے مطعون و متہم ہونے کا اندیشہ تھا،ان ساری باتوں کے پیش نظر ہر فرع کے مساہمین کے لئے آپ نے الگ الگ بِلّے تیار کیے تھے،جس پر نمبروار شمار مرقوم تھے،جسے  امتحان ہال میں داخل ہوتے ہی ہر مساہم کے گلے کا قلادہ بنا دیا جاتا، بس ممتحن کو اسی بلے کے نمبر شمار سے غرض ہوتی،ممتحن کو یہ تک پتہ نہ چلتا کہ یہ کس ادارے کا طالب علم ہے یا یہ کہاں کا رہنے والا ہے،بس ممتحن اپنے آگے رکھے مساہم نمبر کے کاغذ کے اعتبار سے ہر طالب علم کو پکارتا، اس کا امتحان لے کر اس کی کارکردگی کے اعتبار سے اس کو نمبر دیتا، اسی طرح سےکسی کو یہ بھی اشکال ہوسکتا تھا کہ میرے ادارے کے بچے کا نام پہلے کیوں آیا یا اتنے بعد میں کیوں؟اس اشکال کے ارتفاع کے لئے حضرت مفتی صاحب نے یہ دانشمندانہ اقدام کیا تھا کہ ناموں کی ترتیب حروفِ تہجی کے اعتبار سے رکھی تھی،اب یہ مساہمین کے ناموں پر منحصر تھا کہ ان کا مقدر ان کو کہاں جگہ فراہم کرتا ہے۔
    کچھ لوگوں کا سکہ محض ناموں سے چلتا ہے جبکہ کچھ لوگ اپنے کام اور فن سے جانے جاتے اور ہردلعزیز ہوتے ہیں،جو لوگ اپنے کاموں سے جانے جاتے ہیں تعریف کے مستحق درحقیقت وہی لوگ ہوا کرتے ہیں،اگر میرے قارئین اس کو تملق پسندی اور کاسہ لیسی سے تعبیر نہ کریں(اللہ کا احسان ہے کہ یہ خاکسار صرف حقیقت کو عیاں کرنے کی کوشش کرتا اور جو جس منزلت کا ہوتا ہے اس کو اسی منزلت پر رکھنے کی سعی کرتا ہے،کسی کی بےجا تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملانے کی مذموم کوشش نہیں کرتا) تو میں یہ لکھنے سے بالکل بھی دریغ نہیں کروں گا کہ اللہ نے حضرت مفتی صاحب کو ہرفن مولا بنایا ہے،اگر کسی کو واقعی چلتا پھرتا ہرفن مولا شخص دیکھنا ہو تو وہ حضرت مفتی صاحب کی ذات کا مشاہدہ کرلے یقینا اس کو اندازہ ہوجائے گا کہ خالقِ حقیقی نے اُس مشتِ خاک کو کس کس فن اور کس کس کمال سے گوندھا ہے،ہم میں سے اکثر لوگ کام کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں جبکہ کام حضرت مفتی صاحب کی جستجو میں آوارہ گرد۔
     اللہ اللہ اسی سال کے امتحان کے دور کی بات ہے کہ بیک وقت آپ کے کندھے پر اتنی ساری ذمہ داریاں تھیں کہ اگر مجھ جیسا کوئی کم ہمت انسان ہوتا تو شاید ان ذمہ داریوں کی وجہ سے اختلالِ ذہن اور اختلاجِ  قلب کا شکار ہوجاتا،میں آپ کے تہہ بہ تہہ کاموں کو دیکھ کر سر دھنتا اور کہتا: ماموں! اتنے مختصر دنوں میں آپ یہ کام کیسے کرلیں گے؟“اس پر اللہ کا وہ بندہ مجسم تبسم بن جاتا اور نہایت خندہ لبی کے ساتھ جواب دیتا ”سب ہوگا“ اور پھر میری آنکھوں نے دیکھا کہ ہفتہ دس دن کے اندر بڑی خوش نظمی کے ساتھ اللہ کے اس بندے نے سارے کام نمٹا دئے، رت جگی کرکے اس جفاکش انسان نے ان دس دنوں کے اندر تین کتابیں زیرقلم کئے،کئی مدارس کے جلسوں کے بینرز،اشتہارات،اعلانات تیار کئے،اور پھر ان اجلاس میں نظامت کے فرائض بھی انجام دئے،خود اپنے مدرسے کے عظیم الشان اجلاس دستار بندی کے ڈھیر سارے کام آپ نے نپٹائے اور پھر خود ہی نظامت کا فریضہ انجام دیا بلکہ مکمل اجلاس کے باگ کو آپ  ہی نے تھامے رکھا۔
     آپ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ آپ ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کے اس دور میں ڈیزائننگ میں بھی اچھا خاصا درک رکھتے ہیں،اور اس دست کاری سے ڈیزائنگ کو وجود بخشتے ہیں کہ دیکھتے ہی نگاہیں مسحور ہوجاتی ہیں،آپ اپنے ہر کام کو اپنے اعلی ذوق کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں،جس سے آپ کا ہر کام آئینہ کی طرح دور ہی سے جھلملاتا نظر آنے لگتا ہے اور اس کے تعارف کی چنداں ضرورت نہیں پڑتی۔
      جہاں یہ امتحان نہایت خوش گوار ماحول میں تکمیل پذیر ہوا وہیں اس کی ایک کمی جو اس ناچیز نے شدت کے ساتھ محسوس کی وہ یہ تھی کہ مسلم آبادی کے اکثریت والے اس علاقے میں جہاں ہر طرف زرخیزی ہی زرخیزی اور مدارس کی بہتات ہے،اس کے باوجود بھی یہ امتحان صرف حفظ والوں سے متعلق تھا،چاہیے تو یہ تھا کہ عربی درجات کے بچوں کا بھی اجتماعی امتحان ہوتا،عربی درجات کے بچوں کا امتحان نہ ہونا یہاں کے مدارس میں عربی تعلیم کے فقدان کی طرف مشیر ہے،ذمہ داران مدارس کو اس جانب توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے، اسی طرح یہ کمی بھی کافی شدت کے ساتھ محسوس کی گئی کہ ضلع کشن گنج کے سینکڑوں مدارس میں سے اب تک صرف 25،30  مدارس ہی مربوط ہیں،اہلِ مدارس کو چاہیے کہ رابطہ مدارس سے اپنا اور اپنے مدرسے کا ربط جوڑیں تاکہ براہِ راست ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے فیوض و برکات کا انعکاس آپ اور آپ کے مدرسے کے اوپر پڑتا رہے۔
    امید ہے کہ یہ اجتماعی امتحان ان شاء اللہ بہت سے خیر کے دروازوں کو وا کرےگا،طلبہ کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرکےان کے اندر کے تنافسانہ اور تسابقانہ جذبوں کو بےکراں کرنے میں معین و مددگار ثابت ہوگا ساتھ ہی ان کے حوصلوں کو مہمیز اور ہمتوں کو انگیخت کرےگا اور ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو گھٹن کی موت مرنے سے بچانے میں ایک مؤثر اور نمایاں کردار ادا کرےگا خدا کرے کہ یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہو،اور اس کا فیض ابدی اور سرمدی ثابت ہو۔
    چار دنوں کا یہ امتحان ایک ہفتے کے وقفے کے باوجود دیکھتے ہی دیکھتے کنارے لگ گیا اور جب ہم واپس اپنی اپنی منزلوں کی طرف روانہ ہوئے تو ہمارے ہاتھوں میں جہاں ظاہری طور پر حضرت مفتی صاحب کی طرف سے عطا کردہ ایک ایک شاندار بیگ،اس کے اندر یومیہ ضروریاتِ زندگی کی کچھ چیزیں (جو ایک خوشنما جیبی بیگ میں بند تھیں اور جو دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں)کپڑے کا ایک شاندار جوڑا اور ایک مخملی تولیہ تھا تو وہیں باطنی اعتبار سے بھی ہمارے دماغوں  کے کشکول میں انوکھے تجربات اور نادر مشاہدات موجود تھے۔
    رمضان کے بعد ماہ ذی قعدہ میں باضابطہ ایک شاندار انعامی پروگرام کا انعقا ہوگا جس میں مجموعی اعتبار سے اول،دوم اور سوم پوزیشن لانے والے طلبہ کو گراں قدر انعامات سے نوازا جائےگا ان شاء اللہ۔
                           

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: