۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

راج ٹھاکرے کے دو راستے !

✍ شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )

____________

وہ سیاست داں جن کی اُٹھان سے بظاہر لگتا ہے کہ یہ آگے جاکر اپنی انگلی سے آسمان میں سوراخ کر دیں گے ، اکثر درمیان ہی میں بے دَم ہوجاتے ہیں ، اس کی ایک مثال راج ٹھاکرے ہیں ۔ جب تک راج ٹھاکرے اپنے چچا بالا صاحب ٹھاکرے کے ساتھ رہے ، اُن کی تصویر بنے رہے ۔ انہی کی طرح بولنا ، چلنا اور انہی کی نقل اتارنا ۔ لوگ انہیں بال ٹھاکرے کا وارث کہنے لگے تھے ، اور وہ بھی خود کو شیوسینا کا مالک سمجھنے لگے تھے ۔ لیکن بال ٹھاکرے نے جب ادھو ٹھاکرے کو اپنا جانشین بنایا تب راج ٹھاکرے کے قدموں تلے سے زمین کھسک گئی ، اور وہ شیوسینا سے الگ ہوگیے ، اپنی ایک سیاسی پارٹی ’ مہاراشٹر نونرمان سینا ‘ ( منسے ) کے نام سے بنائی ، ابتدا میں کچھ ٹھیک ٹھاک سرگرمی دکھائی ، مناسب سیٹیں بھی جیتیں ، لیکن پھر ادھو ٹھاکرے کے سامنے ان کی ’ منسے ‘ چِت ہو گئی ۔ راج ٹھاکرے  ’ تخریبی ‘ تو ہیں لیکن سیاسی طور پر ناکام لیڈر ہیں ۔ ان کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی سیاسی پارٹی کی شروعات ’ سیکولر ‘ نظریے کی بنیاد پر کی تھی ، لیکن پھر انہوں نے کٹّر ہندتوادی کا رنگ اختیار کیا ، کچھ دن وہ وزیراعظم نریندر مودی پر گرجے برسے ، اور اب وہ مودی کی گود میں جاکر بیٹھ گیے ہیں ۔ گویا انہیں سیاسی طور پر کوئی پختہ زمین نہیں مل سکی جس پر وہ اپنی سیاسی پارٹی کی بنیاد کو مضبوط کرسکتے ۔ آج راج ٹھاکرے کا ذکر ان کے دہلی دورے اور جمعرات کو وزیراعلیٰ شندے اور نائب وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس سے ملاقات کے سبب ہے ۔ ان ملاقاتوں کو ویسے تو الگ الگ معنی پہنائے جا رہے ہیں ، لیکن ان ملاقاتوں کی بنیاد میں  بی جے پی کے ذریعے شیوسینا کو دو دھڑوں میں تقسیم کرنے کا واقعہ ہے ۔ بی جے پی شیوسینا کو توڑ کر خوب خوش تھی ، لیکن اب شیوسینا کی تقسیم سے اُسے اپنے مقاصد نکلتے نظر نہیں آ رہے ہیں ۔ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کا یہ ماننا ہے کہ مہاراشٹر کے الیکشن میں بال ٹھاکرے کے خاندان کی مدد یا تعاون کے بغیر بی جے پی کی دال گلنے والی نہیں ہے ۔ اور یہ سچ بھی ہے ؛ بی جے پی کی آج کی کامیابی شیوسینا سے اتحاد کا ہی نتیجہ ہے ، لیکن اب اتحاد ٹوٹ چکا ہے ۔ کوشش تو خوب کی گئی کہ ادھو ٹھاکرے کو منا لیا جائے ، اور وہ ایک بار پھر بی جے پی کے ساتھی بن جائیں ، لیکن یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی ۔ ادھو ٹھاکرے اب کسی بھی صورت میں بی جے پی کے ساتھ جانے کو تیار نہیں ہیں ۔ لہذا اب بی جے پی کے سامنے اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے کہ وہ راج ٹھاکرے کو اپنے پالے میں شامل کر لے ۔ سوچ یہ ہے کہ نہ سہی ادھو ، راج ہی سہی ، ایک ٹھاکرے تو ساتھ رہے گا ۔ ایسا سمجھا جاتا تھا کہ دہلی میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کے بعد راج ٹھاکرے کی ’ منسے ‘ اور بی جے پی میں انتخابی مفاہمت ہو جائے گی ، اور جمعرات کو اس کا اعلان ہو جائے گا ، لیکن راج دہلی سے واپس آ چکے ہیں ، اور شندے و فڈنویس سے ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں ، مگر اتحاد کا کوئی اعلان ہنوز نہیں ہوا ہے ۔ شاید معاملہ سیٹوں کی تقسیم کا ہے ؛ راج ٹھاکرے کو ریاست میں کم از کم تین سیٹیں مطلوب ہیں ، مگر بی جے پی انہیں صرف ایک سیٹ دینا چاہتی ہے ۔  مزید یہ کہ بی جے پی نہیں چاہتی کہ راج ٹھاکرے کا امیدوار ، جو ان کا بیٹا امیت ٹھاکرے ہوگا ، ’ منسے ‘ کے نشان ’ انجن ‘ پر الیکشن لڑے ۔ شرط یہ ہے کہ راج ٹھاکرے اگر بی جے پی سے اتحاد کرنا چاہتے ہیں تو انہیں یا تو این سی پی ( اجیت پوار ) یا پھر شندے شیو سینا کی چناؤ نشانیوں میں سے کسی ایک پر  ، یعنی ’ گھڑی ‘ یا ’ تیر کمان ‘ پر انتخاب لڑنا ہوگا ، اور اپنے ’ انجن ‘ کو چھوڑنا ہوگا ۔ اس شرط کو ماننے کا مطلب ، راج ٹھاکرے کا اپنی سیاسی پارٹی سے منھ پھیرنا ہوگا ۔ بی جے پی ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتی ہے ، ایک تو یہ کہ اگر راج ٹھاکرے ’ انجن ‘ چھوڑنے پر راضی ہوجاتے ہیں تو ان کے بیٹے امیت ٹھاکرے کو ’ تیر کمان ‘ پر الیکشن لڑوا کر ادھو ٹھاکرے کے سامنے ان کے گھر سے ہی چیلنج کھڑا کر دیا جائے ، اور دوسرا یہ کہ اگر راج ٹھاکرے شرط قبول نہیں کرتے تو انہیں باہر کا راستہ دکھا کر بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے ، اور یو پی والوں کو یہ کہہ کر خوش کر دیا جائے کہ ’ ہم نے یو پی والوں کو بُرا بھلا کہنے والے راج ٹھاکرے کو اپنے ساتھ شامل نہیں کیا ‘۔ راج ٹھاکرے دو راہے پر کھڑے ہیں ، لیکن بی جے پی سے ہاتھ ملانے کا انجام تو انہیں جھیلنا ہی پڑے گا ۔ بی جے پی کی پوری کوشش ہے کہ راج ٹھاکرے کو استعمال کر لیا جائے ، اور اس طرح استعمال کیا جائے کہ ٹھاکرے خاندان کا کوئی بھی فرد بی جے پی کے لیے کبھی چیلنج نہ بن سکے ، راج ٹھاکرے بھی نہیں ۔ لہذا راج ٹھاکرے کے لیے بہتر یہ ہوگا کہ اپنے روٹھے ہوئے بھائی ادھو ٹھاکرے کو منا لیں ، ان سے ہاتھ ملا لیں ، اور مل کر بی جے پی کو پٹخنی دے دیں ۔ بی جے پی انہیں سبق سکھائے اس سے بہتر ہے کہ یہ بی جے پی کو سبق سکھا دیں ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: