کیا مودی جنوبی بھارت کو فتح کر پائیں گے؟
✍ افتخار گیلانی
_________________
بھارت میں الیکشن کمیشن نے سات مرحلوں پر محیط عام انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا ہے۔ پہلے مرحلے میں 19اپریل کو ووٹ ڈالے جائیں گے، جبکہ آخری مرحلے میں یکم جون کو ووٹنگ ہوگی۔ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان چار جون کو کیا جائے گا۔ یعنی پہلے اور ساتویں مرحلے کے درمیان 44 دن کا وقفہ ہوگا، اور اگر انتخابات کے شیڈول کے اعلان سے مدت کو شامل کیا جائے، تو سیاسی پارٹیوں کو 79 دن اب تک کی سب سے طویل ترین انتخابی مہم چلانی پڑے گی۔
شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی انتخابی ضابطہ اخلاق کا بھی نفاذ ہوگیا ہے، یعنی اب حکومت کوئی پالیسی فیصلہ لے سکتی ہے نہ ترقیاتی کاموں کے اعلانات وغیرہ کر سکتی ہے۔ ایک طرح سے اس مدت کے دوران اب تمام سرکاری کام اگلی حکومت کے قیام تک ٹھپ ہوجائیں گے اور بیوروکریسی اب حکومت کے بجائے الیکشن کمیشن کو جوابدہ ہوگی۔
اپوزیشن پارٹیاں اتنے طویل مرحلوں پر محیط انتخابی عمل پر پہلے سے ہی تحفظات ظاہر کر چکی ہیں، کیونکہ تقریباً 80دنوں تک انتخابی مہم چلانے اور اس کو زندہ رکھنے کے لیے زر کثیر کی بھی ضرور ت ہوگی، جو کہ اس وقت صرف حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے پاس ہی ہے۔
543رکنی لوک سبھا کے لیے 97کروڑ یعنی 970ملین ووٹر 10.5 لاکھ پولنگ بوتھوں میں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ پولنگ افسران کی تعداد ہی 1.5کروڑ ہوگی، جو 55لاکھ الکٹرانک ووٹنگ مشینو ں کے ذریعے اس عمل کو مکمل کروائیں گے۔ اس بار 1.8کروڑ نئے ووٹر ہوں گے اور 19.7کروڑ ووٹر ایسے ہیں، جن کی عمر 20سے 29سال کے درمیان ہیں۔ ہندوستان میں چھ قومی پارٹیاں، 57علاقائی رجسٹرڈ پارٹیاں اور 2597غیر رجسٹرڈ پارٹیاں ہیں، جو متواتر انتخابات میں حصہ لیتی ہیں۔
جموں و کشمیر میں امن و امان کی بحالی کے بلند و بانگ دعوں کے باوجود وہاں اسمبلی کے انتخابات منعقد نہیں ہوں گے، جبکہ کمیشن نے چار صوبائی اسمبلیوں آندھرا پردیش، سکم، اروناچل پردیش اور اڑیسہ کے لیے لوک سبھا کے ساتھ ہی انتخابات منعقد کرانے کا اعلان کیا۔
چیف الیکشن کمشنر راجیوکمار کا کہنا تھا، گو کہ جموں و کشمیر کی سبھی سیاسی پارٹیوں نے لوک سبھا کی سیٹوں کے ساتھ ہی اسمبلی انتخابات منعقد کروانے کی وکالت کی تھی، مگر سیکورٹی اداروں نے اس کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا نئی حد بندی کے مطابق جموں و کشمیر کی 90 نشستوں کے لیے تقریباً ایک ہزار کے قریب امیدوار ہوں گے اور ہر امیدوار کی حفاظت کے لیے دو سیکشن فورس کی ضرورت ہوتی ہے۔
یعنی سیکورٹی فورسز کی اضافی 500 کمپنیاں درکار ہوں گی۔ مگر حقیقت ہے کہ نئی دہلی میں بیٹھے حکمران لوک سبھا انتخابات منعقد کرواکے پہلے عوامی رجحان کی سن گن لےکر ہی اسمبلی انتخابات کے تئیں رخ صاف کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ان کو اب بھی خدشہ ہے کہ عوامی حکومت چاہے براہ نام ہی سہی، کہیں، پچھلے پانچ سالوں کے دوران ٹھونسے گئے فیصلوں کو واپس نہ لے۔
ان کو بھی لگتا ہے کہ کشمیر میں جو خاموشی چھائی ہے، وہ مصنوعی ہے اور شاید اس کے پیچھے کوئی طوفان نہ چھپا ہوا ہو، جو ذرا سی ڈھیل دینے سے باہر آجائے۔
اپوزیشن کانگریس کے صدر ملیکاارجن کھڑگے کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات ملک کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان انتخابات کے نتائج نہ صرف بھارت بلکہ پورے خطے کے لیے دو رس عوامل کے حامل ہوں گے۔کھڑگے کے مطابق یہ جمہوریت کا امتحان ہوگا۔
اگر بی جے پی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں واپس اقتدار میں آتی ہے، تو اگلی مدت کے دوران آئین میں دور رس تبدیلیاں کی جائیں گی۔ بی جے پی کے ایک ممبر نے پہلے ہی عندیہ دیا ہے کہ آئین سے سیکولر اور سوشلسٹ لفظ کو ہٹا دیا جائےگا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے یہ جمہوریت بنام آمرانہ نظام کا مقابلہ ہے، جو مودی کی تیسری مدت کے دوران باضابطہ پنجہ گاڑ لے گا۔
موجودہ صورت میں بھی یہ لوک سبھا کا آخری الیکشن بھی ہے۔ کیونکہ 2029کے انتخابات کے وقت موجودہ لوک سبھا کی شکل و صورت ہی مختلف ہوگی۔ اگلے انتخابات کے وقت ایک تہائی نشستیں خواتین کے لیےمختص ہون گی، یعنی آنے والی لوک سبھا کے 33فیصد مرد اراکین کو 2029کے انتخابات لڑنے کا موقع ہی نہیں ملے گا۔
دوسرا 2026میں لوک سبھا کی سیٹوں کی حد بندی ہونے والی ہے، جو 2011کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوگی، جس میں شمالی بھارت میں آبادی بڑھنے سے اس کی سیٹیں جنوبی بھارت کی نسبتاً خاصی بڑھ جائیں گی۔اس طرح بھارتی سیاست میں جنوبی بھارت کا وزن بہت ہی کم ہو جائے گا۔
شمالی بھارت ہی بی جے پی کا گڑھ ہے۔ جنوبی صوبوں کے ووٹروں کا شاید وہی حال ہونے کا اندیشہ ہے، جو مودی کی آمد کے بعد پورے ملک میں ایک وقت کے بادشاہ گرمسلمانوں کا ہوگیا ہے۔
اتراکھنڈ میں تجربہ کیے گئے یکساں سول کوڈ کو پورے ملک میں نافذ کیا جائے گا۔ بیک وقت پارلیامانی اور صوبائی انتخابات یعنی ون نیشن ون الیکشن کے آئیڈیا کو آئین میں ترمیم کرکے قانون بنایا جائے گا۔ وفاقیت کو مزید کمزور کرکے مرکز کو مزید اختیارات منتقل کیے جائیں گے۔ حکومت صدارتی نظام کے قریب تر ہو جائے گی اور اختیارات ایک شخص کے پاس مرکوز ہوں گے۔
مودی نے بی جے پی کے لیے 370 سیٹوں اور اتحادیوں کے ساتھ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس یعنی این ڈی اے کے لیے 400 سیٹوں کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مودی نے پچھلے چند مہینوں میں، این ڈی اے میں 30 سے زیادہ چھوٹی پارٹیوں کو شامل کیا ہے۔ا یسے افراد کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا ہے جن کو وہ ماضی میں ذاتی طور پر نشانہ بناتے تھے۔ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر، کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور شہریت قانون میں ترمیم جیسے ایشوز کو لےکر ہی بی جے پی اس وقت فی الحال میدان میں ہے۔
سال 2019 کے برعکس اس وقت بی جے پی کے پاس کوئی بڑا جذباتی ایشو نہیں ہے۔ 2019میں پلوامہ کشمیر میں حفاظتی دستوں پر حملہ اور پھر بالا کوٹ پر ہندوستانی فضائیہ کی کارروائی نے ایک ہیجا ن ملک میں برپا کردیا تھا، جس کا مودی نے خاطر خواہ فائدہ اٹھا کر ایوان میں 303نشستیں حاصل کیں۔
ان میں سے 224 نشستوں پر شمالی ہندوستان میں کامیابی حاصل کی۔ 2019میں بہار صوبہ کی 40نشستوں میں 39بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو مل گئی تھیں۔ اسی طرح اتر پردیش کی کل 80میں سے 62، مدھیہ پردیش کی 28میں سے 27، گجرات، ہریانہ، ہماچل پردیش، جھارکھنڈ اور اتراکھنڈ کی سبھی پارلیامانی سیٹیں بی جے پی کی مل گئی تھیں۔
یعنی جتنی سیٹیں شمالی بھارت سے مل سکتی تھیں، وہ مل چکی ہیں، اب اس میں اضافہ کی گنجائش کم ہی ہے۔ا س لیے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کسی جذباتی موضوع کے بغیر اور جنوبی صوبوں میں قدم جمائے بغیر 370سیٹیں لانا ناممکن ہے۔
اس لیے اگر بیٹل گراؤنڈ اسٹیٹس یعنی انتخابی لحاظ سے اہم صوبوں پر نظر ڈالی جائے، تو اقتدار میں برقرار رہنے کے لیے جنوب کے پانچ صوبوں اور مہاراشٹر میں بی جے پی کو اس بار بھاری کارکردگی دکھانی پڑے گی، جس کے بعد ہی وہ 370کا ہندسہ پار کرسکتی ہے۔ مہاراشٹر میں پچھلی بار شیو سینا کے ساتھ مل کر دونوں نے 48میں سے 41سیٹوں پر قبضہ کیا تھا۔ مگر بعد میں دونوں الگ ہوگئے اور بال ٹھاکرے کے بیٹے ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں شیو سینا اس وقت اپوزیشن اتحاد میں ہے۔ حالانکہ اس کا ایک دھڑا بی جے پی کے ساتھ ہے، مگر اس کا سیاسی وزن بہت کم ہے۔
جنوبی بھارت میں لوک سبھا کی 131نشستیں ہیں اور 2019میں بی جے پی نے ان میں سے محض 30سیٹوں پر ہی کامیابی حاصل کی تھی۔ ان میں سے بھی 26سیٹیں کرناٹک سے ملی تھیں اور چار سیٹیں تلنگانہ سے حاصل ہوئی تھیں۔ بقیہ تین صوبوں اور دو مرکزی زیر انتظام علاقوں پڈوچیری اور لکشدیپ میں اس کا کھاتہ ہی نہیں کھل سکا تھا۔
کرناٹک اور تلنگانہ کے صوبائی انتخابات میں ایک سال قبل ہی کانگریس نے بھاری اکثریت حاصل کرکے اقتدار پر قبضہ کیا ہے۔ اس لیے کرناٹک یا تلنگانہ میں 2019جیسی کارکردگی کو دوبارہ حاصل کرنا بی جے پی کے لیے مشکل ہوگا۔ ابھی تک جنوبی صوبوں میں کرناٹک ہی ایسا صوبہ ہے، جہاں بی ایس یڈورپا کی قیادت میں دو بار بی جے پی اقتدار میں آچکی ہے۔
جنوبی بھارت کو فتح کرنے کے لیے ان دنوں مودی مسلسل ان صوبوں کے دورے کر رہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ وہ صرف شمالی بھارت کا لیڈر ہونے کا دھبہ مٹا کر ملک گیر لیڈر کے بطور اپنے آپ کو پیش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جنوب کو فتح کیے بغیر وہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی وراثت کو تاریخ کے صفحات سے مٹا نہیں سکتے ہیں یا اپنے آپ کو نہرو ثانی کے بطور پیش نہیں کرسکتے ہیں۔
دوسری طرف بھارت کوآئندہ چند برسوں میں پانچ ٹریلین اکانومی بنانے کا خواب جنوبی صوبوں کے بغیر ناممکن ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اگر جنوب کی پانچ ریاستیں بشمول گجرات اور مہاراشٹر ہندوستان کے حصے نہ ہوتے، تو اس کا حال برونڈئے، صومالیہ یا جنوبی سوڈان سے بد تر ہوسکتا تھا۔ پورے بھارت کی اقتصادیات کے ستون جنوبی بھارت کی کارکردگی پر ٹکی ہوئی ہے۔
مثال کے طور پر جنوبی ریاست کرناٹک نئی دہلی سے حاصل ہونے والے ہر روپے کے بدلے مرکزی ٹیکسوں میں 2.12 روپے کا حصہ ڈالتی ہے۔اس کے برعکس، شمالی ریاست اتر پردیش مرکز سے ایک روپے لےکر قومی خزانے میں صرف 56 پیسہ کا حصہ ڈالتا ہے۔ واضح طور پر، جنوبی ریاستیں اپنے شمالی ہم منصبوں کو معاشی سہارا دیتی ہیں اور مرکزی حکومت کا سارا تام جھام اور ہندوستان کو معاشی طاقت بنانے کے وعدے ان ہی کے دم پر ہے۔
کئی عالمی کمپنیاں، جو مینوفیکچرنگ، چین سے منتقل کرنا چاہتی ہیں کی نظریں جنوبی ہندوستان کے صوبوں پر ہی ٹکی ہوئی ہیں۔ کیونکہ نہ صرف اس علاقے میں لا اینڈ آرڈر بہتر ہے، بلکہ تکنیکی مہارت وافر مقدار میں موجودہے۔ ہندوستان کی الکٹرنکس کی برآمدات میں ان پانچ صوبو ں کا حصہ 46فیصد، یونی کارن میں بھی 46فیصد، انفارمیشن ٹکنالوجی کی برآمدات میں 66فیصد اور اس کے علاوہ عالمی سطح کے آیڈیٹرز، آرکیٹیکٹ اور دیگر فنی ماہرین 79فیصد جنوبی ہندوستان میں ہی ہیں۔
شمالی بھارت میں جہاں نوکریوں کا کال پڑا ہے، جنوب میں ملازمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ چاہے ڈیفینس یا اسپیس کے انجینیر یا سائنسدان ہوں، تو اکثر جنوبی بھارت سے ہی تعلق رکھتے ہیں، اس لیے سائنس سے تعلق رکھنے والے ادار ے یا لیبارٹریز بھی اسی خطے میں ہیں۔
جنوب میں پہلے سے ہی کئی اقتصادی کلسٹرز ہیں جن کی فی کس آمدنی $3000 سالانہ سے زیادہ ہے، شمالی ہندوستان میں اس طرح کی فی کس آمدن صرف دارالحکومت دہلی کے آس پاس اور گجرات کے چند علاقوں تک محدود ہے۔
تلنگانہ نے توگزشتہ چھ سالوں میں اپنی فی کس آمدنی دوگنی یعنی $4000 کر دی ہے۔ جنوبی بھارت کے سیاست دانوں کو بھی اپنی ریاستوں میں بہترین کارکردگی دکھانے کے مواقع ملے ہیں، کیونکہ مغربی ممالک کی طرز پر ہر پانچ سال کے بعد اقتدار میں تبدیلی آتی ہے۔ اس طرح پاور کا سائیکل گردش کرتا رہتا ہے اور حکمران کا احتساب بھی ہوتا رہتا ہے۔
اس لیے جن جذباتی اور فرقہ وارانہ موضوعات پر شمالی ہندوستان میں ووٹ ملتے ہیں، وہ جنوب میں بک نہیں پاتے ہیں۔اس کے علاوہ 1977 کے بعدسے، جنوب میں علاقائی پارٹیاں مضبوط ہیں۔ وہ کرناٹک کے علاوہ دیگر صوبو ں میں بی جے پی کو گھسنے نہیں دے رہے ہیں۔ مزید برآں، بی جے پی نے کئی ایسے قوانین بنا کر مرکز کو مضبوط کرکے ریاستوں کی خود مختاری کو کم کرکے ان کی ناراضگی مول لی ہے۔
ان علاقائی پارٹیوں کا خیال ہے کہ ان کو ختم یا تباہ کرنے کے سامان مہیا کروائے جا رہے ہیں۔ ریاستوں کے ذریعے لیے گئے محصولات کو ختم کرکے ایک مرکزی ٹیکس جی ایس ٹی نافذ کرکے صوبوں کو مالیات کے لیے اب مرکز کے دست نگر رکھ کر ان کی معاشی خود مختاری سلب کر لی گئی ہے، جس کا براہ راست اثر جنوبی صوبو ں پر پڑا ہے، کیونکہ ٹیکس کے زمرے میں وہ اچھی خاصی رقوم اکھٹی کرتے تھے، اور اس طرح ان کا انحصار مرکز پر کم ہو تا تھا۔
پورے بھارت کی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی ہونے کے باوجود، اب 2026 میں حد بندی کے بعد جنوبی ہندوستان کی لوک سبھا میں سیٹیں کم ہونے سے اس کا سیاسی وزن کم ہوجائےگا۔ جنوب میں آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ ملک کی اقتصادیات کی خاطر خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام پر عمل کرتے ہوئے، آبادی پر کامیابی کے ساتھ روک لگاکر جنوبی صوبوں کو انعام و اکرام ملنا چاہیے تھا۔
جبکہ شمالی ریاستوں میں آبادی کے بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اور ملک کی اقتصادیات میں بھی ان کا حصہ برائے نام ہے۔ اگر لوک سبھا میں صرف آبادی کو معیار بنا کر شمالی ہندوستان کی سیٹیں بڑھا کر جنوب کو سیاسی طور پر بے وزن کردیا گیا، تو اس کے نتائج خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
خیر پچھلے انتخابات میں کانگریس نے رافیل جنگی طیاروں میں کورپشن کا ایشو بڑے پیمانے پر اٹھایا، مگر پلوامہ اور بالا کوٹ کی گھن گرج میں وہ دب گیا۔ اس بار کانگریس نے غریبوں کو کم از کم آمدنی کی گارنٹی کا وعدہ اپنے منشور میں شامل کیا ہے۔
اس کے علاوہ الیکٹورل بانڈز کے بھانڈے کو سپریم کورٹ نے حال ہی میں جس طرح بیچ چوراہے پر پھوڑا ہے، وہ اس کو لےکر بھی انتخابی میدان میں اتر رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کے حوالے سے مودی حکومت نے ایک ایسی پالیسی بنائی تھی، کہ جو کمپنیاں فنڈنگ کرنا چاہتی ہیں، وہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا میں پیسے جمع کروا کر ایک بانڈ لیتی تھی،جیسے پوسٹ آفس سے پوسٹل آرڈر ملتا تھا۔
پھر اس کو متعلقہ پارٹی کے دفتر میں دینا ہوتا تھا، جو پندرہ دن کے اندر اس کو کیش کروا سکتی تھی۔ اس پورے عمل میں ڈونر کی شناخت خفیہ رہتی تھی، اس کا نام صرف اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو ہی پتہ ہوتا تھا۔ ظاہر سی بات ہے حکمران پارٹی کو اسٹیٹ بینک کے ریکارڈ کی جانکاری ہوتی ہی تھی۔ حیرت تو یہ ہے کئی کمپنیوں نے اپنے منافع سے بھی زیادہ کے بانڈ خرید کر حکمران بی جے پی کو مبینہ طور پر دیے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ کمپنیوں پر ای ڈی، یا دیگر ادراوں کے ذریعے ریڈ کی جاتی تھی اور اس کے ایک ہفتہ کے اندر ہی یہ کمپنیاں بانڈز خریدکر بی جے پی کو عطیہ کرتی تھیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن کس طرح اس ایشو کو انتخابات میں بھنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ پارلیامانی انتخابات کی فنڈنگ ہی کرپشن کی جڑ ہے۔ اس پر ابھی تک کوئی مؤثر کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی ہے، نہ ہی اس کا متبادل سوچا گیا ہے۔
مودی کے ہندوتوا کی دھار کو کند کرنے کے لیے اپوزیشن نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کروانے کے مطالبہ کو زور و شور سے اٹھایا تھا اور بہار میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی سربراہی میں اس کو روبہ عمل بھی لایا تھا۔ اس سے یہ پتہ چلانا مقصود تھا کہ بی جے پی کا کور ووٹ بینک اونچی ذات کے ہندو یعنی برہمن، ٹھاکر یا چھتری اور ویشیہ یا بنیا کس طرح اپنی آبادی کی شرح سے زیادہ وسائل پر یا سرکاری نوکریوں پر قابض ہیں۔
مگر چونکہ اب نتیش کمار ہی بی جے پی کے خیمہ میں چلے گئے ہیں، اس لیے یہ داؤ چل نہیں پایا ہے۔ مگر کانگریس کو امید ہے کہ فلاحی وعدوں سے وہ درمیانی اور نچلی ذاتوں کے ہندوؤں کو لبھانے میں کامیاب ہوگی۔ اس کے علاوہ پارٹی کا خیال ہے کہ روزگار کی کمی پر نوجوانوں میں حکومت کے خلاف شدید غصہ ہے، جس کو وہ کیش کرسکتی ہے۔
مگر بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس ہندی بولنے والی ریاستوں میں واپسی کر پائے گی، جہاں بی جے پی اپنے ہندو توا ایجنڈہ کے سہارے ایک بارپھر 2019 کی کارکردگی کو دہرانے پر تلی ہوئی ہے؟
اور کیا بی جے پی جنوبی بھارت کو اس بار فتح کر سکے گی؟ 1687 میں شمالی ہندوستان کے حکمران اورنگ زیب نے گولکنڈہ یعنی دکن کو فتح کرکے مغلیہ سلطنت میں شامل کردیا تھا ۔مگر اس کے بعد ہی اس عظیم سلطنت کا زوال بھی شروع ہوگیا۔
کیا تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرا ئے گی؟ویسے اگر دیکھا جائے، اگر اپوزیشن جنوبی صوبوں کو ہندوتوا کی لہر سے بچا پاتی ہے اور مشرقی صوبوں میں ان سیٹوں پرجہاں پچھلی باربی جے پی نے کم فرق سے میدان مار لیا تھا، میں پوری طاقت لگاتی ہے، تو مودی کے لیے تیسری بار وزیرا عظم بننا نا ممکن ہوگا۔