Slide
Slide
Slide

مختار انصاری کا پوتا مختار انصاری

✍️ محمد طلحہ ادروی

_______________

مرحوم مختار انصاری صاحب کی وفات سے پورا ملک اور پرووانچل کا علاقہ بطورِ خاص سوگوار ہے ، جو ان سے پولیٹیکل اختلاف رکھتے تھے آج وہ بھی ایسا محسوس کر رہے ہیں جیسے کوئی گھر کا فرد اٹھ گیا ہو ، پندرہ بیس سال سے مسلسل جیل میں ہونے کی وجہ سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوگوں کی زبانوں سے ان کے تذکرے ختم ہوجاتے ، لیکن زبانوں سے ان کا ذکر کیسے ختم ہو سکتا تھا جبکہ وہ دلوں میں اترے ہوئے تھے ، محسوس کیا جاسکتا ہے کہ وہ بچے جنھوں نے انہیں کبھی دیکھا بھی نہیں تھا ان کے لئے کیسے والہانہ اور پرجوش جذبات رکھتے ہیں ۔
مختار انصاری مرحوم جس خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنی قومی وملی خدمات کی وجہ سے جانا جاتا ہے ، سو سے زائد سالوں سے اس خاندان کے افراد ملکی سیاست کا اہم حصہ رہے ہیں ، ان کے دادا ڈاکٹر مختار احمد انصاری کو کون بھلا سکتا ہے ، ایک ایسے مجاہد آزادی جن کی بے چین روح  ملت کے لئے ہمیشہ کچھ کر گزرنے کی دھن میں رہتی تھی ، اس وقت کی تحریکات کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہر جگہ ڈاکٹر مختار احمد انصاری نمایاں نظر آئیں گے ، پہلے مسلم لیگ کے سرگرم رکن تھے ،غالبا صدر بھی رہے ، پھر کانگریس جوائن کی تو اس کے بھی صدر رہے ، تحریک خلافت میں متحرک رہے ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے فاؤنڈر ممبر تھے ، شیخ الھند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بہت محبت کرنے والے اور انکے بڑے معتمد تھے ، جب مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے شیخ الہند رحمۃ اللّٰہ کے حکم پر دہلی میں نظارۃ المعارف قائم کیا تو ڈاکٹر مختار انصاری معاونین خصوصی میں سے تھے ، شیخ الہند کی تحریک میں بھی ڈاکٹر صاحب کا تعاون رہا ،جب حضرت شیخ الہند ممبئی پہونچے تو جو زبردست استقبال ہوا ،اس میں ڈاکٹر صاحب ہی کا ہاتھ کارفرما تھا  ،انگریزوں نے جب سی آئی ڈی اور مختلف افراد سے خفیہ جانکاریاں لینی شروع کیں تو حضرت شیخ الہند اور ڈاکٹر مختار انصاری کے مابین غالب پاشا کے تعلق سے جو گفتگو ہوئی تھی اسکو بھی کچھ "وفادار” لوگوں نے انگریزوں تک پہونچایا ، ڈاکٹر مختار انصاری نے اپنے بھائی حکیم عبدالرزاق صاحب کو شیخ الہند کو پہونچانے ممبئی ساتھ بھیجا تھا، اور خفیہ ایجنسی کے لوگ شیخ الہند ،عبیداللہ سندھی کے ساتھ ساتھ انصاری برادران کی بھی تاک میں رہتی تھی ، پھر آپ میں سے جو دلچسپی رکھتے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے قضیہ میں ایک نام مولانا مطلوب الرحمن عثمانی بھی ہے ، جب یہ حج سے واپس آئے تو انگریز نے بندرگاہ پر ہی گرفتار کرکے شیخ الہند کی تحریک کے بارے میں تفتیش کے لیے نینی تال جیل بھیج دیا تھا ، پھر عثمانی صاحب جب دیوبند آگئے تو اس وقت بھی ڈاکٹر مختار انصاری کے بھائی حکیم عبدالرزاق دیوبند ان سے ملنے آیا کرتے تھے ، وفادار لوگ اس کی اطلاع بھی پہونچایا کرتے تھے ،انگریزوں نے یہ بھلا کیا کہ  سارے خفیہ دستاویزات انڈیا آفس لائبریری لندن میں جمع کر رکھا ہے ،کلکٹر سہارنپور کی سیکریٹ انفارمیشن ، یوپی گورنمنٹ کے سیکرٹری کا ہوم ڈیپارٹمنٹ آف انڈیا کے سیکرٹری کے نام خفیہ مراسلہ ، شیخ الہند اور مولانا سندھی کی جاسوسی کے کرداروں کی رپورٹ وغیرہ یہ وہ ساری چیزیں ہیں جہاں ڈاکٹر مختار احمد انصاری کا ذکر شیخ الہند کی تحریک کے پس منظر میں ملتا ہے ۔
بات کہاں سے کہاں جانکلی ، عرض یہ کر رہا تھا کہ مختار انصاری مرحوم اس عالی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے ،ان کے نانا  بریگیڈیئر عثمان ہوتے تھے ،جنھیں انڈین گورنمنٹ نے انکی بہادری اوراعلی کارکردگی کے لئے فوجی ایوارڈ سے نوازا تھا ،ان کے والد صاحب بھی ایک شریف سیاستدان رہے ، کمیونسٹ پارٹی سے جڑ کر سیاست کرتے تھے ،ان کے بڑے بھائی افضال انصاری بھی ایک عرصے تک کمیونسٹ پارٹی سے لگ کر سیاست کرتے رہے ،مختار انصاری کی زندگی میں غریب پروری ،اور مزدور ،غریب طبقے سے محبت کا جو نمایاں پہلو دکھتا ہے شاید اس کے پیچھے کمیونسٹ عنصر بھی کار فرما رہا ہو ، مختار انصاری مرحوم جس لائن کے آدمی تھے اس میں ہوتے ہوئے آدمی کی شخصیت میں کئی کمزور پہلو کا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ، مختار انصاری مرحوم کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ان کا رعب و دبدبہ تھا ، بلا مبالغہ ان کے اشاروں سے ایوان میں بیٹھے لوگ بھی کانپتے تھے، اور یہ رعب و دبدبہ ان کا خود کا کمایا ہوا تھا، اور اسے حاصل کرنا اس وقت کی پوروانچل کی سیاست کا شاید لازمی حصہ تھا، ان کے چشم و ابرو  کے اشارے سے ہی بڑے سے بڑا کام کرنا سامنے والے پر لازم ہوجاتا تھا ، مختار انصاری صاحب کے رعب و دبدبے کا کیا عالم تھا ،اس کا اندازہ ذیل کے واقعے سے لگائیے ، واقعہ شہرت کی حد تک پہونچا ہوا ہے ، ڈاکٹر ارشد قاسمی صاحب نے ایک تحریر میں ذکر کیا ہے ،انہیں کے الفاظ میں پڑھئے :

2014 کی بات ہوگی دارالعلوم دیوبند کی بائیس بگہہ زمین جسے کسی زمیندار نے دارالعلوم کو  وقف کی تھی ،جس پر کسی اتر پردیش کے مافیا نے قبضہ کرلیا تھا ،ارباب حل و عقد پریشان تھے کہ زمین کیسے واپس لی جائے مشورے میں طے ہوا کہ لیگل کارروائی کے بجائے بھائ مختار سے مدد لی جائے.
ایک وفد جس میں مولانا احمد الحسینی، مفتی راشد صاحب، مولانا انوارالرحمن بجنوری وغیرھم نے جیل میں جاکر ملاقات کی اور مولانا ارشد مدنی دامت برکاتہم کا ایک رقعہ پیش کیا جس میں کچھ اس انداز کی تحریر تھی.
"جب حیدرآباد نظام نے دارالعلوم دیوبند کا چندہ کسی وجہ سے بند کردیا تھا تو تمہارے  دادا مرحوم ڈاکٹر مختار انصاری نے کہا تھا کہ اگر پورا ہندستان چندہ بند کردے تو اکیلا مختار دارالعلوم کو چلائے گا آج اسی دادا کے پوتے مختار کی دیوبند کو ضرورت آن پڑی ہے”  ارشد مدنی
بھائ مختار نے مدنی صاحب کے خط کو کھولا پڑھا اور سر پر رکھ لیا،اور پھر اگلے دو دن میں دارالعلوم کا قبضہ بحال ہوگیا، اس قابض کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا،یہ رعب تھا بھائ مختار کا”
جب تک زندہ رہے بڑی شان سے رہے ، ان کو مارنا دشمنوں کے لیے کچھ آسان نہ تھا، ایک ہفتہ بعد بھاجپا لیڈر برجیش سنگھ کیس میں بطور گواہ پیش ہونا تھا ،اور شاید کیس فیصلہ کن مرحلے میں تھا ،اس لئے مختار کو بیچ سے ہٹانا لازم تھا ، سو بزدلی کے ساتھ ان کو انجام تک پہونچایا گیا ،کئی مواقع پر جس طرح وہ ملت کے کام آئے وہ انہیں کا حصہ تھا ،خدا تعالیٰ انکی مغفرت فرمائے ،درجات بلند فرمائے ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: