شکیل رشید ( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )
______________
مختار انصاری کی باندہ جیل میں طبیعت کی خرابی اور اسپتال میں موت ، اسی طرح پولیس حراست میں موت کہی جاے گی ، جس طرح شہاب الدین اور عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کی موت حراستی موت کہی جاتی ہے ۔ ان تینوں بلکہ چاروں اموات میں کئی قدرِ مشترک ہیں ، چاروں ہی مافیا ڈان تھے ، چاروں ہی بااثر سیاست دان تھے اور چاروں ہی کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ جیل میں انہیں قتل کیا جا سکتا ہے ۔ اور چاروں ہی کے خدشے درست ثابت ہوے ! چاروں ہی کی موت رمضان المبارک کے مہینے میں ہوئی ۔ شہاب الدین جیل میں بیمار ہوے اور اسپتال میں انتقال کر گیے ۔ ان کی بیماری بھی پراسرار تھی اور موت بھی ۔ عتیق احمد نے بار بار اپنی جان کو لاحق خطرے کا اظہار کیا تھا ، بلکہ اس تعلق سے کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا ، لیکن عتیق احمد کو چھوٹے بھائی اشرف کے ساتھ ، انہی کے شہر آلہ آباد میں اس وقت ، جب پولیس انہیں اسپتال معائنہ کے لیے لے جا رہی تھی ، تین ایسے نوجوانوں نے جنہیں کوئی جانتا تک نہیں تھا ، گولیوں سے بھون دیا تھا ۔ آج تک عتیق احمد اور اشرف کے قتل پر اسرار کا پردہ پڑا ہوا ہے ۔ اور اب مختار انصاری کی موت ! یہ موت بھی پراسرار ہے ۔ مختار انصاری نے بذات خود اور اہل خانہ نے الگ سے اس خدشے کا اظہار ، ایک نہیں کئی بار کیا تھا کہ ، جیل میں زہر دیا جا سکتا ہے ۔ مختار انصاری کے گھر والوں کا یہ دعویٰ ہے کہ انہیں سلو پوائزن دے کر قتل کیا گیا ہے ، یعنی آہستہ آہستہ مختار انصاری کو زہر دیا گیا جس کے نتیجے میں ان کی طبیعت بگڑتی گئی ، اور ایک روز طبیعت ایسی بگڑی کہ جان چلی گئی ۔ باندہ جیل میں انہیں جمعرات کی رات دل کا دورہ پڑا تھا ۔ اس سے قبل ان کے وکیل رندھیر سنگھ سُمن اور اہل خانہ ، بالخصوص ان کے بیٹے عمر انصاری اور بھائی افضال انصاری نے انہیں سلو پوائزن دینے کے الزامات لگاے تھے ۔ بارہ بنکی کی ایم پی ایم ایل اے عدالت میں ایمبولینس کیس کی پیشی کے دوران مختار انصاری کے وکیل کی طرف سے عدالت میں تحریری شکایت بھی دی گئی تھی کہ جیل میں انہیں سلو پوائزن دیا جا رہا ہے ۔ مختار انصاری نے 21 ، مارچ کو دی گئی اپنی درخواست میں لکھا تھا کہ جب انہیں 19، مارچ کو باندہ جیل میں کھانا دیا گیا تو انہیں ایسا لگا جیسے انہیں کوئی زہریلی چیز پلائی گئی ہو جس کی وجہ سے ان کے ہاتھ اور پیروں کی نسوں میں درد شروع ہوگیا ۔ بعد میں پورے جسم کی نسوں میں درد پھیل گیا ۔ انہوں نے لکھا تھا کہ لگتا ہے درخواست گزار مر جائے گا ، جبکہ درخواست گزار اس سے قبل مکمل طور پر صحت مند تھا ۔ اس کے ساتھ ہی مختار انصاری نے اپنے وکیل کے توسط سے عدالت میں اپنی درخواست میں لکھا تھا کہ ’ اس سے تقریباً 40 روز قبل درخواست گزار کے کھانے میں کچھ سلو پوائزن دیا گیا تھا ، جس کی وجہ سے جیل کا عملہ بھی ، جو درخواست گزار کا کھانا تیار کرتا ہے اور چکھنے کے بعد اسے دے دیتا ہے ، درخواست گزار کے ساتھ بیمار ہو گیا تھا ۔ اور درخواست گزار کے ساتھ عملے کا علاج بھی کیا گیا تھا ‘۔ سوال یہ ہے کہ ان درخواستوں اور شکایتوں کی بنیاد پر اسپتال میں مختار انصاری کی حفاظت کے لیے کچھ اقدامات کیے گیے تھے یا عدالت نے درخواست پر کوئی توجہ ہی نہیں دی تھی؟ پانچ بار کے ایم ایل اے مختار انصاری ایک سیاست دان کی حیثیت سے کئی سیاسی پارٹیوں کو کھٹکتے تھے ، اس کی ایک وجہ ان کی عوامی مقبولیت بھی تھی ، اور ان کا کسی کے آگے نہ جھکنے والا مزاج بھی ۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی موت کی خبر سامنے آنے کے بعد غازی پور ، جہاں کے وہ تھے ، بند پڑا ہوا ہے ، اور لوگ ان کے آخری دیدار کے لیے سڑکوں پر اتر آے ہیں ۔ مختار انصاری کو ’ باہو بلی ‘ یا مافیا ڈان کہا جاتا ہے ، لیکن وہ ایک خاندانی آدمی تھے ۔ مجاہدِ آزادی اور اپنے دور کے کانگریس کے صدر ڈاکٹر مختار انصاری ان کے دادا تھے ، ملک کے سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری ان کے چچا ، اور مہاویر چکر یافتہ بریگیڈئیر عثمان انصاری ان کے نانا تھے ۔ مختار انصاری کے درجنوں دشمن تھے ، یہ دشمنیاں یا تو ذاتی تھیں یا پھر سیاسی ۔ شہاب الدین اور عتیق احمد و اشرف کی موت کی طرح اس موت کو بھی سیاسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے ۔ یہ الزام لگ رہا ہے کہ اتر پردیش کی ہندتوادی یوگی سرکار کچھ مافیا ڈانوں کی سرپرستی کر رہی ہے اور کچھ کو راستے سے ہٹوا رہی ہے ، اور یہ سب دھرم اور ذات و برادری کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے ، اور عتیق احمد ، اشرف اور مختار انصاری اسی کا شکار ہوے ہیں ۔ یو پی سرکار کٹگھڑے میں ہے ، وہ ، اس کی پولیس ، اعلیٰ افسران اور جیل انتظامیہ سب سوالوں کے گھیرے میں ہیں ۔ یوگی سرکار نے ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کا حکم تو دے دیا ہے ، لیکن کیا صاف شفاف انکوائری ممکن ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ تنقیدوں اور نکتہ چینیوں سے بچنے کے لیے انکوائری کا حکم دیا گیا ہو ؟ یوگی حکومت کو چاہیے کہ وہ حراستی قتل کے الزام کو اور اپنے اوپر لگے چند مافیا کی سرپرستی اور چند کو راستے سے ہٹانے کی منصوبہ بندی کے الزامات کو دھونے کے لیے شفاف انکوائری کراے ، ایسی آزاد انکوائری جس میں کوئی حکومتی اور سیاسی دخل نہ ہو ۔