✍️ مفتی ناصرالدین مظاہری
_____________
آپ علمی لحاظ سے کچھ بھی ہوں لیکن جب آپ کے ادارے نے آپ کو اپنا نمائندہ تجویز کرلیا ہے تو اب آپ پر بہت سی اضافی ذمہ داریاں عائد ہوچکی ہیں۔ مجھے یاد ہے فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین نے اپنی زندگی کے اخیر میں سفراء کرام کو دفتر تحفظ میں بلایا اور نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ
"کسی غریب کا چندہ کم یا حقیر سمجھ کر مت چھوڑنا بلکہ غریب کے چندے کو اہمیت اور اولیت دینا کیونکہ غریب کی کمائی بہت محنت کی ہوتی ہے کم بھی ہوتی ہے خون پسینہ بھی بہت بہتا ہے اخلاص بھی زیادہ ہوتاہے علماء کا احترام بھی بہت ہوتاہے دل بھی صاف اور نیت بھی شفاف ہوتی ہے ان کی آمدنی ہرقسم کی رطب ویابس ملاوٹ سے پاک ہوتی ہے اس لئے غریب کے چندہ کو ہرگز حقیر سمجھ کر مت چھوڑنا”
اس سے پہلے بھی اپنے بعض اداریوں میں اہل خیراورارباب مدارس سے عرض کیا کہ تحصل چندہ کے لئے رمضان المبارک کے علاوہ کسی بھی مہینہ کوخاص کرلیں کیونکہ روزہ کی حالت میں سفراء بھی پریشان ہوتے ہیں، معطیان کا آرام وسکون بھی درہم برہم ہوجاتاہے اسی لئے بہت سے معطیان کی برہمی اور بداخلاقی بھی دیکھی جاتی ہے، بہت سے اہل خیر سفراء حضرات کی بے اعتدالیوں، لالچ اور وقار علم وعلماء کےمنافی امور کا مشاہدہ کرکے اظہار ناراضی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ مثلا بعض معطیان نے اپنا نظام الاوقات آویزاں کردیاہے پھر بھی سفراء بے وقت پریشان کرتے ہیں، بعض امراء کے یہاں سفراء کی بھیڑ اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ چندہ دہندگان کو مجبورا لائن لگاکر چندہ دینا پڑتا ہے، بہت سی جگہوں پر پرانی رسیدیں دیکھ کر چندہ دیاجاتا ہے تو بعض سفراء نقلی رسیدیں بناکر رمضان کے مہینہ میں دھوکا دیتے آئے دن پکڑے جاتے ہیں، بہت سے سفراء کی شکایات ملتی ہیں کہ روزہ بھی نہیں رکھتے، نماز بھی چھوڑ دیتے ہیں، بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض امراء ایسا وقت رکھتے ہیں کہ اس وقت سفراء کا پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے یعنی یا تو چندہ سے محرومی یا نماز کی قضا، مثلا تراویح کے فورا بعد یا مغرب اور عشاء کے درمیان چندہ دیتے ہیں، دہلی ممبئی کولکاتہ، حیدرآباد جیسے بڑے شہروں میں آدمی کیسے وقت پر پہنچ سکتا ہے حال یہ ہے کہ سفراء بے چارے بسوں اور رکشوں سے جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض امراء ایسا رویہ رکھتے ہیں گویا وہ چندہ نہیں بھیک دے رہے ہیں حالانکہ آپ زکوۃ دے رہے ہیں جو آپ پر فرض ہے اور سفراء وہ زکوۃ وصولنے آئے ہیں جوان کا احسان ہے ورنہ آپ کو خود پہنچانا چاہئے یہ آپ کا حق ہے۔
ہمارے حضرت مفتی مظفرحسین رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ لائن میں لگ کر چندہ مت لینا اس سے علم وعلماء کا وقار مجروح ہوتایے چندہ ملے تولو نہ ملے تو مت لو، آپ مدرسہ چلانے کاظاہری سبب ہیں بس۔
جھوٹ بول کر یا غلط سلط میزان آمد و خرچ دکھاکر چندہ مت لیجیے ورنہ جب بنیاد ہی خراب ہوگی تو عمارت کے خراب ہونے میں کیا شک ہے۔ حضرت فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے سفراء عرب ممالک میں نہیں جاتے کیونکہ تیل کی آمدنی میں گرمی زیادہ ہوتی ہے، جن مدارس میں اخراجات سے زیادہ آمدنی ہوئی ہے وہاں فتنوں نے ضرور سر ابھارا ہے۔ ہم اللہ تعالی کے وکیل ہیں جب تک ہوسکے گا مدرسہ چلائیں گے نہ ہوسکے گا مدرسہ سے الگ ہوجائیں گے۔
ہمارے بعض سفراء دوران سفرایساحلیہ بنا کر رکھتے ہیں کہ طبیعت کو گھن محسوس ہوتی ہے مجھے یاد ہے دس پندرہ سال پہلے خوریجی دھلی میں حاجی عبداللطیف(فرنیچر والے) کے آفس پہنچا ان سے چندہ لینا تھا اس وقت حاجی صاحب نے ایک مدرسہ کے سفیر کی کلاس لگا رکھی تھی میں سلام کرکے اندر داخل ہوا تو میری طرف اشارہ کرکے بولے یہ دیکھو صاف ستھرے کپڑے پہنے رکھے ہیں خط بھی اچھا بنوا رکھا ہے غسل بھی تازہ تازہ کررکھا ہے ایک آپ ہیں، لگتا ہے ایک ہفتہ سے غسل نہیں کیا ہے، بال گرد آلود، حلیہ بھی عجیب وغریب۔ میں نے کہا کہ میں ان کو جانتا ہوں مدرسہ بھی موجود ہے، بولے مدرسہ کی تو بات ہی نہیں کررہا ہوں میں تو پاکی اور صفائی پر گفتگو کررہا ہوں۔
بہرحال آپ حافظ، عالم مفتی، مدرس شیخ الحدیث کچھ بھی ہوسکتے ہیں آپ پر اپنے ادارہ کی، دین کی، علم کی کئی نمائندگیاں عائد ہوتی ہیں اور ہر چیز آپ کے وقار سے باوقار اور آپ کی بے توقیری سے بے توقیر ہوتی ہے۔ اپنی قدر آپ کریں۔ دین کی قدر بڑھ جائے گی۔