✍️ سید احمد اُنیس ندوی
__________________
دور حاضر کا ایک بڑا المیہ عبادات میں تساہل اور نوافل و مستحبات کا استخفاف بھی ہے۔ سب سے پہلے فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کی سنن و نوافل کو "سنت ہی تو ہے” یا "نفل ہی تو ہے” کہہ کر ترک کیا گیا بلکہ اس کے ترک کا عام معمول بنا لیا گیا۔ تراویح جیسی عبادت میں درجات اور رکعات کے جھگڑے کھڑے کر کے لوگوں کے دلوں میں اس کا بھی استخفاف پیدا کر دیا گیا۔ صبح و شام کے معمولات جو دل میں اللہ تعالی کا استحضار پیدا کرنے کے لیے تلقین کیے جاتے ہیں , ان کو بھی اسی طرح ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا کہ یہ سب فرض و واجب تو ہے نہیں۔ دعا و مناجات کا عام ماحول بھی متاثر ہونے لگا, فجر سے اشراق تک مسجد کی صفوں میں بیٹھنے والے اب ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ افطار کے وقت گھروں میں دعا کا ماحول نظر نہیں آتا۔ کیونکہ ہم تو صرف وہ عمل کرتے ہیں جو فرض یا واجب ہوتا ہے۔ اشراق, چاشت, اوابین سے لے کر تہجد تک سب "نفل” کے دائرے میں آ کر عملی طور پر غائب ہو گئیں۔ گھر کے کسی کونے میں مصلے پر بیٹھ کر آہ و زاری کرنے کا رواج ختم ہو چکا ہے۔ تسبیح لے کر اللہ اللہ کرنا نعوذ باللہ بدعت کے زمرے میں داخل کر دیا گیا ہے۔ راہ سلوک (جس کا اصل مقصد تزکیہ و احسان تھا) سے تنفر تو اس قدر عام ہوا کہ اس کا نام لینا بھی مطعون ہونے کے لیے کافی ہو گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جن کے یہاں ان اعمال کا اہتمام نظر آیا وہاں علم کی کمی کے باعث بدعات و خرافات نے جگہ بنا لی۔ اور جہاں اعلی علمی تحقیقات کا زور نظر آیا یا ریسرچ اسکالر بننے اور بنانے کا مزاج پروان چڑھا وہاں فرائض پر اکتفا کو کافی سمجھ لیا گیا, اور نوافل و مستحبات کا نہ صرف اہتمام ختم ہوا بلکہ اس کی پابندی کرنے والوں کو "دینی شعور” سے نابلد لوگوں کی فہرست میں ڈال دیا گیا۔ علم و ذکر کا وہ امتزاج جو ہمارے سلف کا امتیاز تھا وہ اب کمیاب سے نایاب تک کا نامبارک سفر طے کر رہا ہے۔
سلف صالحین نے اس سلسلے میں جو تابندہ نقوش چھوڑے ہیں وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔ ائمہ اربعہ کو ہم صرف فقہی موشگافیاں کرنے والا سمجھ بیٹھے ہیں۔ حالانکہ ایک طرف ان سے زیادہ احادیث و آثار کا تتبع کرنے والے حضرات کم ہی ہیں۔ روایت اور درایت کے جن اصولوں پر حضرات ائمہ مجتہدین کی نظر ہوتی ہے وہاں تک رسائی اس دور کے اکثر علماء کے بس میں بھی نہیں ہے۔ ماضی قریب میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی کے علوم سے ہی ابھی یہاں کے اہل علم صحیح طور پر مستفید نہیں ہو پائے ہیں۔ ائمہ مجتہدین کے مستدلات براہ راست کتاب و سنت ہوتے ہیں یا انہی اصولوں کی روشنی میں جزءیات اور فروعات طے کیے جاتے ہیں , انہی اصولوں کی روشنی میں عمل کا درجہ طے ہوتا ہے, یہ علم و تفقہ کا وہ بلند مقام ہوتا ہے جو خاص توفیق الہی سے ہی نصیب ہو پاتا ہے۔ وہیں دوسری طرف یہی سلف صالحین "مستغفرین بالاسحار” اور "یبیتون لربھم سجدا و قیاما” کی عملی تفسیر بھی ہیں۔ وہ "اذکروا الله ذکرا کثیرا○ و سبحوہ بکرۃ و اصیلا” کے حقیقی مصداق بن کر بھی نظر آتے ہیں۔ وہ سرتاپا دعا و مناجات بھی ہوتے ہیں۔ انفرادی عبادات سے لے کر نوافل و مستحبات تک ہر عمل کا اہتمام ان کی شخصیت کو ایک الگ ہی وقار عطا کرتا ہے۔
جس طرح شدید ضعیف اور موضوع روایات کا بڑھتا چلن باعث تشویش اور قابل اصلاح ہے, بالکل اسی طرح ذوق عبادت میں یہ تساہلی و سستی بلکہ بعض موقعوں پر اس کا تمسخر و استہزا بھی بہت زیادہ اصلاح اور توجہ چاہتا ہے۔
عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی