۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

اپریل فول: ایک رسم بد

اپریل فول  : جھوٹ کی اشاعت کا بہانہ

از قلم: عارف حسین

 اپریل لاطینی زبان کا لفظ ہے۔جو عیسوی مہینوں کے لحاظ سے سال کاچوتھا مہینہ ہے۔ ہر سال یکم اپریل کو’’ اپریل فول ‘‘منایاجاتا ہے۔جھوٹ بول کر ایک دوسرے کو دھوکہ دینا اس رسم کی خاص پہچان ہے۔ بعض لوگ اسے ’’All Fool’s Day‘‘ بھی کہتے ہیں۔اس رسمِ بد کی ابتدا کب اور کیسے اور کہاں ہوئی۔ کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی ہے البتہ چندواقعات اپریل فول سے منسوب کیے جاتے ہیں جو حسب ذیل ہیں:

 بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترہویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا، اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی وینس (venus)کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھا کرتے تھے ،وینس کا ترجمہ یونانی زبان میں Aphro-diteکیا جاتا تھا اور شاید اسی یونانی نام سے مشتق کرکے مہینے کا نام اپریل رکھ دیاگیا۔

 (برٹانیکا،پندرہواں ایڈیشن۔ص۲۹۲ج۸)

 لہٰذابعض مصنفین کا کہنایہ ہے کہ چونکہ یکم اپریل سال کی پہلی تاریخ ہوتی تھی اوراس کے ساتھ ایک بت پرستانہ تقدس بھی وابستہ تھا،اس لیے اس دن کو لوگ جشن مسرت منایا کرتے تھے اوراسی جشن مسرت کا ایک حصہ ہنسی مذاق بھی تھاجو رفتہ رفتہ ترقی کرکے اپریل فول کی شکل اختیار کرگیا۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس جشن مسرت کے دن لوگ ایک دوسرے کو تحفے دیا کرتے تھے، ایک مرتبہ کسی نے تحفے کے نام پر کوئی مذاق کیا جو بالآخر دوسرے لوگوں میں بھی رواج پکڑ گیا۔

 ایک وجہ یہ ہے کہ در اصل یہودیوں اور عیسائیوں کی بیان کردہ روایات کے مطابق یکم اپریل وہ تاریخ ہے جس میں رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تمسخر اور استہزا کا نشانہ بنایاگیا، موجودہ نام نہاد انجیلوں میں اس واقعے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ لوقاکی انجیل کے الفاظ یہ ہیں:

’’اور جو آدمی اسے(یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کو) گرفتار کیے ہوئے تھے اس کو ٹھٹھے میں اڑاتے اور مارتے تھے،اور اس کی آنکھیں بند کرکے اس کے منھ پر طمانچہ مارتے تھے اوراس سے یہ کہہ کر پوچھتے تھے کہ نبوت (یعنی الہام) سے بتا کہ کس نے تجھ کو مارااور طعنے مار مار کر بہت سی اور باتیں کہیں‘‘۔  (لوقا:۲۲:۶۳تا۶۵)

انجیلوںمیں ہی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پہلے حضرت مسیح علیہ السلام کو یہودی سرداروں اور فقیہوں کی عدالت عالیہ میں پیش کیا گیا،پھر وہ انہیں پیلاطیس کی عدالت میں لے گئے کہ ان کا فیصلہ وہاں ہوگا، پھر پیلاطیس کی عدالت نے انہیں ہیروڈیس کی عدالت میں بھیج دیا،اور بالآخر ہیروڈیس نے دوبارہ فیصلے کے لیے ان کو پیلاطیس ہی کی عدالت میں بھیج دیا۔

 لاروس کا کہنا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں بھیجنے کا مقصد بھی ان کے ساتھ مذاق کرنا اورانہیں تکلیف پہنچانا تھا اور چونکہ یہ واقعہ یکم اپریل کو پیش آیا تھا اس لیے’’ اپریل فول ‘‘کی رسم درحقیقت اسی شرمناک واقعے کی یاد گارہے۔

 مولانا تقی عثمانی مدظلہ العالی مذکورہ واقعہ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اگریہ بات درست ہے توغالب گمان یہی ہیکہ یہ رسم یہودیوں نے جاری کی ہوگی اور اس کا منشاحضرت عیسی علیہ السلام کی تضحیک ہوگی، لیکن یہ با ت حیرتناک ہیکہ جو رسم یہودیوں نے (معاذاللہ) حضرت عیسی علیہ السلام کی ہنسی اڑانے کے لیے جاری کی،اسے عیسائیوں نے کسی طرح ٹھنڈے پیٹوں نہ صرف قبول کرلیا بلکہ خود بھی اسے منانے اور رواج میں شریک ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہیکہ عیسائی صاحبان اس رسم کی اصلیت سے واقف ہی نہ ہوں اور انہوں نے بے سوچے سمجھے اس پر عمل شروع کردیا ہواور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عیسائیوں کا مزاج ومذاق اس معاملے میں عجیب وغریب ہے، جس صلیب پر حضرت عیسی علیہ السلام کو ان کے خیال میں سولی دی گئی بظاہر قاعدے سے ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ وہ ان کی نگاہ میں قابلِ نفرت ہوتی کہ اس کے ذریعے حضرت مسیح علیہ السلام کو ایسی اذیت دی گئی، لیکن یہ عجیب بات ہیکہ عیسائی حضرات نے اسے مقدس قرار دینا شروع کردیا اور آج وہ عیسائی مذہب میں تقدس کی سب سے بڑی علامت سمجھی جاتی ہے۔ (ذکر وفکر:۶۹-۷۰)

 اپریل فول سے متعلق ایک اور واقعہ انٹر نٹ پر ملتا ہے معلوم نہیں اس کی سند کہاں تک صحیح ہے کہ فرڈیننڈ بادشاہ کی قیادت میں جب عیسائیوں نے اسپین پر دوبارہ قبضہ کیا تو مسلمانوں پر ظلم وستم کی پہاڑتوڑے گئے اور خوب قتل وغارت گری مچائی گئی، مسلمانوں نے عیسائیوں کے ڈر سے اپنی شناخت وپہچان مٹا کر انہیں جیسی بودو باش اختیار کرلی،مگر فرڈیننڈ کو اس بات کا ابھی تک پورا یقین تھاکہ اسپین سے مسلمانوں کا مکمل صفایا نہیں ہواہے اور وہ شناخت تبدیل کرکے یہاں قیام پذیر ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کو اسپین سے باہر نکالنے کے لیے ایک پلان بنائی گئی اور اعلان کروایا کہ تمام مسلمان غرناطہ میں یکم اپریل کو حاضر ہوجائیں تاکہ انہیں ان کے پسند کا ملک روانہ کردیاجائے۔ اعلان کے مطابق مسلمان غرناطہ میںاکٹھے ہوگئے۔ فرڈیننڈ حکومت نے مسلمانوں کی خوب خاطر مدارات کی،اس کے بعد تمام مسلمانوں کو بحری جہاز میں بٹھایا گیا اور منصوبہ کے مطابق بیچ سمندر دریابرد کروادیا گیا۔اس پر عیسائی جرنلوں نے خوشیاں منائیں اور بعد میں اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے پوری عیسائی دنیا میں مسلمانوں کی دردناک شہادت پرجشن کا ماحول گرمایاجانے لگا، یہ واقعہ چونکہ یکم اپریل کو پیش آیا تھا اس لیے اس کے بعد ہی سے نہ صرف اسپین بلکہ پورے یورپ میں ’’اپریل فول‘‘ منانے کی رسم شروع ہوگئی اور اس دن کو نام دیا گیا’’First April fool‘‘ (یکم اپریل کے بے وقوف)۔

 ’’اپریل فول‘‘کی رسم کے پیچھے کہانی جیسی بھی ہو بہرصورت اس رسم کا رشتہ غلط تصور، توہم پرستی، بت پرستی اور تمسخر واستہزا سے ہے اور اگر فرڈیننڈسے منسوب واقعہ درست ہے تو اس کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہیکہ مسلمان اپنی ہی تغریق وتذلیل میں خوشی منائیں۔

 اپریل فول کی شرعی حیثیت:

 مذکورہ واقعات یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اپریل فول کی ابتدا غلط بنیادوں پر ہوئی ہے اور یہ خالصۃً مغربی خرافات سے درآمد شدہ ہے،جو شریعت کے مزاج ومنشا اور اس کی روح کے خلاف ہے ۔کیونکہ اس رسم میں کذب بیانی، دھوکہ دہی اور ایذارسانی جیسی قباحتیں بیک وقت اکٹھی پائی جاتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا یجتمع الکفر والایمان فی قلب امرئٍ و لا یجتمع الصدق والکذب جمیعا ولا تجتمع الخیانۃ و الأمانۃ جمیعا۔ (مسند احمد:۲/۳۴۹)
کسی کے دل میں ایمان وکفر دونو ںجمع نہیں ہوسکتے،او راسی طرح جھوٹ اور سچ جمع نہیں ہوسکتے اور امانت وخیانت کبھی اکٹھا نہیں ہوسکتے۔

ایک حدیث میں ہیکہ:
منافق کی تین علامتیں ہیں جب بات کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں اور جب وہ وعدہ کرتے ہیں تو خلاف ورزی کرتے ہیں اور جب معاہدہ کرتے ہیں اور امانت ان کے پاس رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتے ہیں۔   (بخاری: باب علامۃ المنافق)

 اپریل فول کو جائز بتاتے ہوئے بہت سے لوگ بھونڈی دلیلیں پیش کرتے ہیں کہ اسلام ہنسی مذاق اور مزاح کی اجازت دیتا ہے اور اپریل فول میں اسی مزاح اور ہنسی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ لہٰذا اس رسم کو اپنانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ ہاں! یہ بات درست ہیکہ اسلام آپس میں ہنسی مذاق کو درست قرار دیتا ہے لیکن جھوٹ بول کر ہنسی مذاق کرنے سے سختی سے منع کرتا ہے بلکہ اسلامی تعلیمات میں ہنسی ومذاق کا دائرہ سچائی کے اردگرد ہی گھومتا ہے اورجس ظرافت میں جھوٹ شامل ہو اسلام اسے اچھا نہیں سمجھتا۔ ارشاد ہے:

قالَ رسَوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وَیْلٌ لِلَّذِیْ یُحَدِّثُ فَیَکْذِبُ لِیُضْحِکَ بِہٖ الْقَوْمَ وَیْلٌ لَہٗ ثُمَّ ویْلٌ لَہٗ۔

 (ابوداؤد: باب فی التشدیدفی الکذب)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو جھوٹی باتیں کرتا ہے، تاکہ لوگوں کو ہنسائے، ہاں اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔

 موجودہ دور میں لوگوں کو ہنسانا بھی آرٹ اور فن میں شامل کرلیا گیا ہے ،اس کے نمائندوں کو ’’کامیڈین‘‘ (Comedian) کے نام سے شہرت ملتی ہے،نیزان پروگراموں میں وہی لوگ کامیاب سمجھتے ہیں جوجھوٹ بولنے میں اول درجے کی مہارت رکھتے ہوں اور اپنی کذب بیانی سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہنسا سکتے ہوں۔

 لوگوں کے لیے خوشی طبعی کے سامان فراہم کرنا شرعاً درست ہے مگر اسی کو پیشہ اور مطمح نظر بنالیناوقاروسنجیدگی کے خلاف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ظرافت اور خوشی طبعی کے واقعات ثابت ہیں مگر انہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے آپٔ نے اپنے وقار کا سودا نہیں کیا، جھوٹ کے ذریعے محفل کو رنگین بنانے کی کوشش نہیں بلکہ جو ہنسی کے واقعات آپؐ سے ملتے ہیں وہ سچائی پر مبنی ہیں،اس میں جھوٹ کا ذرہ برابر شائبہ بھی نہیںپایاجاتا ہے۔بعض صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی ظرافت طبعی کے بارے میں پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! آپؐ بھی ہمارے ساتھ مزاح فرماتے ہیں؟ تو آپؐ نے جواب میں فرمایا::

لااقولُ الاَّ حَقَّا۔ (ترمذی: باب ماجاء فی المزاح)
میں مزاح میں بھی حق بات ہی کہتاہوں۔

 مذہب اسلام کسی بھی چیز میں غلو کو پسند نہیں کرتا، وہ افراط وتفریط کا قائل نہیں،اس کے نزدیک وہی عمل محبوب وپسندیدہ ہے جس میں توازن واعتدال ہو، چاہے وہ عبادات ہی کیوں نہ ہوں نہ اسے افراط پسند ہے اور نہ ہی تفریط پسند ہے۔ ہر چیز حداعتدال میں ہونی چاہیے اور مزاح میں بھی یہی عنصر کارفرما ہے۔

 آئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح کے واقعات سے محظوظ ہوں:

  •  ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سواری کے لیے اونٹ طلب کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں آپ کو سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دوںگا۔سائل نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اونٹنی کا بچہ لے کر کیا کروںگا؟ آپؐ نے فرمایا: اونٹ کو اونٹنی کے علاوہ کون جنم دیتاہے۔(رواہ الترمذی و ابودائود/مشکوٰۃ : ۴۱۶)
  • ایک بوڑھی عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دخول جنت کی دعا کی درخواست کی، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزاحاً ارشاد فرمایا: کہ بڑھیا تو جنت میں داخل نہیں ہوگی، یہ سن کر بڑھیا کو بڑا رنج ہوا،اور روتی ہوئی اپنے گھر کی راہ لی، آپ ؐنے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ جاکر اس عورت کو کہہ دو کہ عورتیں بڑھاپے کی حالت میں جنت میں داخل نہیں ہونگی ۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’’اناانشأناہن انشاء ً فجعلناہ ابکارا‘‘۔ چونکہ جنت میں عورتوں کو دوشیزگی کی حالت میں داخل کیا جائے گا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سچی بات کو مزاح کا جامہ پہنادیا۔
  • حضرت عوف بن مالک اشجعی فرماتے ہیں کہ میں غزوۂ تبوک کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپؐ چمڑے کے خیمہ میں تشریف فرما تھے، میں نے آپؐ کو سلام کیا ،آپؐ نے جواب دیا اور فرمایا کہ اندر آجاؤ۔ میں نے مزاح کے طور پر عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں پورا اندر داخل ہوجاؤں، تو آپؐ نے فرمایا :ہاں پورے داخل ہوجاؤ، چنانچہ میں داخل ہوگیا۔(رواہ ابودائود/مشکوٰۃ المصابیح ۴۱۷)

 مذکورہ احادیث اور مزاح پر مبنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہیکہ اسلام میں اپریل فول کی رسم منانے کی اجازت کیوں نہیں ہے اور اس میں شرعی لحاظ سے کیا کیا مضرتیں پنہاں ہیں۔ بہرحال اس رسمِ بد میں کذب بیانی، دھوکہ دہی، ایذاء مسلم اور تشابہ بالکفار جیسی برائیاں جمع ہیں اس لیے اس کے ناجائز ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: