Slide
Slide
Slide

روزہ داروں اور بے روزہ داروں کی عید

✍️ مفتی ناصرالدین مظاہری

________________

ماہ مبارک کے تیس روزے الحمدللہ آج مکمل ہورہے ہیں ان روزوں کا صلہ اور بدلہ آج رات ان شاءاللہ تعالی ملے گا کیونکہ اس رات کو لیلۃ الجائزہ فرمایا گیا ہے، رات گزرتے ہی عالم اسلام کا سب سے بڑا اور مسنون تہوار عیدالفطر ہے، عیدالفطر کے دن ہر روزہ دار رمضان المبارک کے روزوں کی تکمیل اور اطاعت و تعمیل پر شاداں و فرحاں ہوتاہے، بہت سے خوش نصیبوں کو آج رات شب بیداری کی توفیق ملتی ہے، جو طاعات اور عبادات کی گئی ہیں ان کا شکر ادا کرنے اور اللہ تعالی ان عبادات کو محض اپنے فضل و کرم سے قبول فرمالے اس کی دعائیں کی جاتی ہیں۔

عید کے دن مسنون تیاریوں کے بعد خراماں خراماں عیدگاہ کی طرف یہ کاروان عبدو عبادات بڑھتا ہے اور دوگانہ ادا کرکے بارگاہ رب العالمین میں دست بہ دعا ہوجاتاہے، اصل میں ہماری ہر خوشی اللہ کی اطاعت سے شروع اور اللہ کی اطاعت پر ختم ہوتی ہیں۔

عموما عیدگاہوں کے باہر میلے ٹھیلے، خوان و پکوان، شیر و شیرینی، حلوہ پراٹھا، مٹھائی اور چاٹ وفروٹ کی دکانیں نت نئے لذیذ سامان سے سجی ہوتی ہیں، احب البلاد میں ابغض البلاد کے جو نظارے اور مشاہدے ان آنکھوں نے دیکھے ہیں اس کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔

بہت سے بے روزہ دار روزہ داروں سے زیادہ تیاریاں کرتے ہیں، کرتا پاجامہ، پینٹ شرٹ اور بناؤ سنگھار کے ممکنہ اسباب و ذرائع استعمال کرکے نئی نسل زنانہ رنگ ڈھنگ اور روپ بہروپ اختیار کرتی جارہی ہے۔

بے روزہ داروں کو عید کی کیا خوشی ہوتی ہے اور کیوں ہوتی ہے نہیں معلوم۔ البتہ اتنا ضرور جانتاہوں کہ بے روزہ داروں کی وجہ سے اصل روزہ داروں کو عیدگاہ میں جگہ ملنی مشکل ہوجاتی ہے۔عیدگاہ تو دور اور بعد کی بات ہے عید سے پہلے فجر کی نماز میں آپ صف اول کا تصور جمائے ہوئے ہوں تو تکبیر اولی نہیں اذان کے وقت پہنچنے کی کوشش کیجیے بلکہ بہتر ہے کہ اذان ہی دے دیجیے۔

بے روزہ داروں کے چہرے عید کے دن بھی صاف پہچانے جاتے ہیں، بے کیف، بے رونق، ہونق، جھکی جھکی مجرمانہ گردنیں، دبی دبی آواز، آواز میں کوئی کھنک نہیں کوئی دھنک نہیں، ایسا لگتا ہے جیسے اقراری مجرم کوتوال کے حضور۔ اور یہ ہے بھی حقیقت ہم سب سے بڑے سب سے اچھے سب سے کریم سب سے رحیم رب عمیم کے سامنے ہوتے ہیں، اس دن ہمیں اپنے رب سے انعامات ملنے کی باری ہے، وہ ذات ہی ایسی ہے کہ

من کہ سر در نَیاورَم بہ دو کون
گردنَم زیرِ بارِ منّتِ اوست

(میں جو دونوں جہانوں کے سامنے سر نہیں جھکاتا لیکن میری گردن اس کے احسانوں کی زیرِ بار ہے)

یہ انعام برابر برابر نہیں ملے گا زمین آسمان کا فرق ہوگا کسی کو رائی کسی کو پربت، کسی کو ہمالہ کسی کو بقدر نوالہ، اخلاص، ایمان، یقین، تعامل، تسلسل، دوام، استمرار، نیت، ہمت غرض ایک ایک چیز کی پیمائش ہوگی، جس طرح ہر دودھ میں مکھن کم زیادہ ہوتاہے جس طرح ہر پانی قوت اور افادیت میں کم زیادہ ہوتاہے جس طرح ہر جگہ کا موسم اپنی افادیت میں کم زیادہ ہوتاہے بالکل اسی طرح ہماری طاعات اور عبادات کا حال ہوتاہے کوئی اپنے خلوص نیت کی وجہ سے دورکعت میں وہ ذخیرہ پالیتاہے جو دوسرے لوگ سینکڑوں رکوع اور سجدوں سے یہ مقام نہیں پاتے: ع

فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست

جس طرح چتکبرا گھوڑا ہزاروں گھوڑوں میں پہچانا جاتا ہے اسی طرح عید کی بھیڑ میں روزے دار اور روزہ خور پہچانے جاتے ہیں۔

خوش نصیب ہیں وہ پیشانیاں جو یاد الھی میں سجدہ ریز ہوئیں، بختاور ہیں وہ سر جو رب رحیم کے آگے جھکے، نصیبہ ور ہے وہ کمر جو مسجود حقیقی کے سامنے خم ہوئی، بابرکت ہیں وہ ہاتھ جو مجیب الدعوات کے سامنے دراز ہوئے۔

یارب! تو دینے والا ہے میں گداگر ہوں، یا رحیم تیرے کرم کی چادر تیرے غضب پر حاوی ہے میں ظلوم وجہول ہوں، مولی تو سب کاآقاہے میں ایک بندہ بدنام ہوں میرے اعمال کی سپاہیوں اور کوتاہیوں پر عفو و کرم کا قلم پھیردے اور عید کے بعد جب تیرے بندے عیدگاہ سے اپنے گھروں کو لوٹیں تو تیری رضا اور مرضی میرے شامل حال ہو۔ ایاک نعبد وایاک نستعین۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: