اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا
__________________
رب کی مشیئتوں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، ہم راضی برضا ہیں، یہی ہمارے ایمان کی پکار ہے، کون کہ سکتا تھا کہ بے نہایت نشیط و سرگرم، گرم دم جستجو نرم دم گفتگو، ظاہری صحت و عافیت سے مالا مال مفتی ذیشان صاحب منگراواں اتنی جلدی اور بالکل اچانک داغ جدائی دے جائیں گے کہ لوگوں کو یقین نہ آئے گا، دیر رات تک بالکل صحیح نظر آنے والا ہشاش بشاش یہ شخص رات کے پچھلے پہر ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجائے گا، محسوس ہوتا تھا کہ ابھی خدا ان سے بڑے کام لے گا، وہ علاقے میں فعال و نشیط اور دل دردمند رکھنے والے باعمل عالم دین کی حیثیت سے معروف تھے، جامعہ عزیزیہ سہریا نے بہت کم مدت میں جو مقبولیت اور معیار حاصل کیا اس کے پیچھے مفتی صاحب کی محنت، انتھک کوشش اور ان کا بے لوث جذبہ خدمت اور اخلاص کی کارفرمائی صاف نظر آتی تھی۔
اپنے محلے کی مسجد میں بھی بچوں کے حفظ قرآن کا نظام دیکھ رہے تھے، بیانات اور درس قرآن کے ذریعے لوگوں میں دینی بیداری پیدا کرنے کے لیے کوشاں رہتے۔ اور نجانے کن کن اصلاحی منصوبوں اور دینی پروگراموں سے وابستہ رہتے۔ یہ کڑھن، یہ فکر مندی، یہ چلت پھرت، یہ بھاگ دوڑ انہیں روایتی مولویوں سے ممتاز کرتی تھی، وہ روایتی اور لکیر کے فقیر قسم کے مولوی ہرگز نہیں تھے، بلکہ وہ آج کے کوتاہ عمل، سوز و ساز سے خالی مولویوں کے لیے روشن مثال تھے، انہوں نے بھر پور عملی زندگی گزاری، اب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، جس رب نے انہیں اپنے پاس بلالیا ہے وہی ذات ان کے ادھورے کام مکمل کرنے والوں کو بھی کھڑے کردے گی وما ذلك على الله بعزيز.
یہ وقت مفتی صاحب کے گھر والوں کے لیے اور ان کے چاہنے والوں کے لیے بہت صبر آزما ہے، اللہ انہیں صبر جمیل عطا فرمائے اور حضرت مفتی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کی سیئات کو حسنات سے مبدل فرمائے إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى فلتصبر ولتحتسب.
شریک غم
محمد رافع ندوی
جامعہ اسلامیہ مظفر پور اعظم گڑھ