✍️ مفتی ناصرالدین مظاہری
__________________
یہ دور تیز رفتار ترقیوں، تبدیلیوں، امتیاز اور آسانیوں کا دور ہے، اب غلیل، تلوار، بھالے، لاٹھی، ڈنڈے، پتھر، ڈھیلے اور نیزے نے بہت ترقی کرلی ہے، جسمانی محنتوں سے نکل کر دماغی اختراعات اور ایجادات نے کہرام مچا رکھا ہے، نقلی انسان نے وہ وہ کارہائے نمایاں انجام دینے شروع کر دئے ہیں کہ عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں، روبوٹ ہو یا جدید ترین مشینریاں ہر ایک نے انسانی زندگی پر اثر ڈالا ہے، پہلے کے لوگ جسمانی کام کرتے تھے اب کے لوگ دماغی کام کرتے ہیں، پہلے کے لوگ طاقتور ہوتے تھے اب کے لوگ دس پانچ کلومیٹر پیدل چلنے کو بھی کام سمجھتے ہیں، پہلے باجرہ کھا کھا کر نسلیں پلتی تھیں اب پزہ اور برگر نے قبضہ جما رکھا ہے، پہلے اصلی غذائیں، اصلی دوائیں اور اصلی تعلقات ہوتے تھے اب ہر چیز نقلی ہے، کامیاب ترین انسان وہ ہے جو حالات کے ساتھ چلے، رفتار زمانہ کو سمجھے، اللہ تعالی کے دئے ہوئے دماغ کو استعمال کرے، دوسروں کی ایجادات سے فائدہ اٹھائے، اب ہم بیل گاڑی سے حج، سائکل سے دہلی، رکشہ سے لکھنؤ، پیدل کلکتہ جانا چاہیں تو سمجھ لیں کہ زندگی کا بیش قیمتی وقت صرف ہوجائے گا اور جتنے پیسے آپ بچانا چاہتے ہیں اس سے زیادہ کھانے پینے اور علاج ومعالجہ میں لگ جائیں گے۔
پہلے پیغام رسانی کے لئے افراد مقرر تھے، منزلیں اور ٹھکانے مقرر تھے، قاصد اور نامہ بر اپنا فرض نبھاتے تھے اب بھی وہی نظام ہے بس شکل بدل گئی، ترقی ہوگئی، ڈاک کا نظام شروع ہوا، پوسٹ کارڈ، انتردیشیی، بیرنگ اور رجسٹری کا دور آیا، پھر اس نظام میں مزید ترقی ہوئی اور تار کا استعمال شروع ہوگیا، اب تار بھی بیکار ٹھہرا اور لینڈ لائن فون چل پڑے، اس لینڈ لائین نے بہت کم زمانہ پایا اور فون اور موبائل فون آدھمکا، اب تو فون کال پر جتنی مرضی باتیں کرو بالکل فری، نیٹ اتنا کہ ختم کرنا مشکل، آمنے سامنے ویڈیو کال کی سہولت اور یوں اب کالنگ کا نظام بھی ختم ہونے لگا، لوگوں کے پاس وقت کم ہوگیا اور سارا بوجھ واٹسپ، میسنجر، ایمو وغیرہ ایپلی کیشنز پر آگیا، لوگ واٹسپ زیادہ استعمال کرتے ہیں کال کا کام پیغام نویسی اور ریسیونگ کی جگہ پیغام خوانی پر اکتفا کررہے ہیں، اگر کوئی کال کرتا ہے یا کال سنتا ہے تو سمجھو اس کے سینہ میں محبت مروت اور تعلق نبھانے کے جراثیم ابھی زندہ ہیں۔ ورنہ پہلے کے لوگ دوسروں کے لئے فون رکھتے تھے اب بہت لوگ صرف اپنے لئے موبائل رکھتے ہیں۔
آن لائن ٹرین اور فلائٹ ٹکٹ بہت پہلے سے چل رہے ہیں، لوگ ٹکٹ کا پرنٹ ساتھ رکھتے تھے، پرنٹ نکلوانے کے لئے کمپیوٹر والے لوگ ایک دو روپے سے دس دس روپے تک ٹھگ لیتے تھے اس لئے ٹکٹ کمپنی نے صارف کے موبائل پر ٹکٹ کی تفصیلات بھیجنی شروع کردیں اور اس طرح دنیا ایک بڑے خرچہ سے بچ گئی، اگر آپ کے پاس میسیج موجود ہے تو صرف اپنا آدھار کارڈ ساتھ رکھیں، ٹی ٹی ای کو میسیج دکھا دیں یا صرف نام بتا دیں زیادہ سے زیادہ اپنا آدھار کارڈ دکھا دیں ٹینشن ختم۔
بالکل یہی سہولت ہمیں زندگی کے ہر معاملہ میں اختیار کرنا چاہئے، مثلا شادی کارڈ پر لاکھوں کا صرفہ کرنے کی کیا ضرورت ہے جب آپ کا کام واٹسپ میسیج کے ذریعہ چل سکتا ہے، یا کوئی بھی دینی جلسہ، پروگرام، فنکشن، سیمینار، ویبنار وغیرہ کے پوسٹر چھپوا کر پیسے ضائع نہ کرىں جدید ترین سسٹم سے فائدہ اٹھائیں، اخراجات کم کریں، مہنگے شادی کارڈ کو انسان بمشکل ایک آدھ منٹ اور ایک آدھ بار ہی دیکھتا ہے پھر ردی کی ٹوکری میں،لیکن میسیج اس وقت تک موجود رہتا ہے جب تک ڈیلیٹ نہ کیا جائے۔
میں نے اپنی بچی کے نکاح کے موقع پر کمپیوٹر سے ڈیزائن بنوا کر چند عزیزوں کو واٹسپ کردیا، چند لوگ ایسے بھی نکلے جو یا تو موبائل نہیں رکھتے یا پھر واٹسپ نہیں چلاتے تو ایسے لوگوں کے لئے اسی واٹسپ والے کارڈ کا پرنٹ نکال کر فوٹو کاپی نکلوا لیں اور مدعو کو بھیج دیا اس طرح یہ سادہ سا کارڈ بمشکل پچاس پیسے میں تیار ہوگیا، مدعو کو آپ کی فضول خرچی سے کوئی مطلب ہے نہ کم صرفی سے کوئی فائدہ، نفع نقصان دونوں سے سابقہ اور واسطہ آپ کو ہی پڑنا ہے۔
آپ اپنی جیب پر نام و نمود اور ریا ودکھاوا کا بوجھ نہ ڈالیں، سادگی اختیار کریں کیونکہ سادگی ایمان کا حصہ اور مؤمن کا خاصہ ہے۔ البذاذۃ من الایمان۔