ڈاکٹر طارق غازی اور کلکتہ کی اردوصحافت
✍️ معصوم مرادآبادی
_________________
ممتاز صحافی اور ادیب ڈاکٹر طارق غازی گزشتہ روز کینڈا میں انتقال کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ اردو کے جید صحافی مولانا حامد الانصاری غازی کے بیٹے تھے ۔ طویل عرصہ جدہ سے شائع ہونے والے”سعودی گزٹ” کے منیجنگ ایڈیٹر رہے۔سعودی عرب جانے سے پہلے وہ کلکتہ کی اردو صحافت سے وابستہ رہے تھے ،جس کا اندازہ درج ذیل خط سے ہوتا ہے جو انھوں نے کلکتہ کی اردوصحافت سے متعلق خاکسار کے ایک مضمون کو پڑھ کر لکھا تھا۔ یہ خط کلکتہ کی اردوصحافت کے دلچسپ گوشوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ ملاحظ فرمائیں۔
محترم معصوم مرادآبادی صاحب
سلام و رحمت
کلکتہ کا جو ذکر کیا تم نے۔۔۔
لطف فزوں تر یوں ہوا کہ اس بہانے ایک بار اور اردو صحافت کا ذکر مذکور ہوگیا۔ اس سلسلہ میں آپ کی مساعی قابل قدر بھی ہیں اورمستقبل کے لیے راہ نما بھی۔
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را
اس مضمون سے جہاں اردو صحافت کی تاریخ کا آموختہ ہوا وہاں کچھ یادیں بھی تازہ ہوگئیں۔ میں ستمبر 1971 سے ستمبر1975 تک انگریزوں اور کمپنی بہادر کے پہلے دارالحکومت میں کولوٹولہ ا سٹریٹ کے متوازی بولائی دت ا سٹریٹ کے 9 نمبر میں مقیم رہا۔ تب’جام جہاں نما‘ سمٹ کر مولانا شائق احمد عثمانی کا جاری کردہ ’عصر جدید‘،خان بہادر محمد جان جاپان والے کی ملکیت میں آچکا تھا۔ اسی ادارہ کا شام کا روزنامہ ’امروز‘ اقبال اکرامی صاحب کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ ذرا فاصلہ پر چونا گلی اردو کی فلیٹ ا سٹریٹ تھی۔ وہیں سے ابراہیم ہوش کی ادارت میں شام کا روزنامہ ’آبشار‘ شائع ہوتا تھا۔ اس کے پاس ہی ساگر دت لین میں مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی اور میرے زمانہ میں ان کے صاحب زادے احمد سعید ملیح آبادی کے روزنامہ ’آزاد ہند‘ کا دفتر تھا، چونا گلی میں قدرے پہلے روزانہ’ہند‘ کا دفتر تھا جس کے اڈیٹر میرے پرانے کرم فرما رئیس الدین فریدی تھے، وہیں سے کریم رضا مونگیری مرحوم کا فلمی ہفتہ وار ’عکاس‘ شائع ہوتا تھا جو بعد میں شام کے روزنامے میں تبدیل ہوگیا تھا۔ اسی نواح میں شام کے روزنامہ ’غازی‘ کا دفترتھا، اس کے محترم مدیر کا نام ذہن سے محو ہوگیا۔ قریشی تھے اورجری آدمی تھے۔ کولوٹولہ اسٹریٹ میں لور چت پور روڈ کے آس پاس غالباً ہرن باڑی میں شہزادہ سلیم کا ہفتہ وار’الہلال‘ شائع ہوتا تھا۔ عبدالعزیز ایک ہفتہ وار غالباً ’تعمیر ملت‘ شائع کرتے تھے۔ وسیم الحق انگریزی ہفتہ وار’ا سٹرگل‘ شائع کرتے تھے، بعد میں انہوں نے روزنامہ’اخبار مشرق‘ شائع کرنا شروع کیا۔ وسیم الحق کے چھوٹے بھائی جسیم الحق فلم ویکلی شائع کرتے تھے۔ بعد میں کلکتہ سے روزنامہ ’اقرا‘ کااجرا ہوا۔
احمد سعید ملیح آبادی صاحب کی اولاد میں اردو کا شغف نہ رہا تو وہ اخبار بیچ کر ملیح آباد چلے گئے۔ میرے چلے آنے کے بعد’عصر جدید‘ بھی زیادہ عرصہ نہ چلا۔ پھر خان بہادر محمد جان کا خاندان اپنے آبائی وطن دہلی منتقل ہوگیا۔ ابراہیم ہوش کے انتقال کے بعد ان کے دوست اور شاعر سالک لکھنوی کی ادارت میں ’آبشار‘ شائع ہوتا رہا۔ اقبال اکرامی صاحب اللہ کو پیارے ہوئے تو ’امروز‘ بھی دیروز ہوگیا۔ اب کلکتہ میں اردو اخبارات کا کیا حال ہے مجھے خبر نہیں۔
کلکتہ کے مزید چند اردو صحافی دوست جو اکثر یاد آتے ہیں: رضوان احمد (آزاد ہند)، پاکستا نی شاعر منیر نیازی کے ہمنام منیر احمد نیازی(آزاد ہند)، محمود ایوبی(بعد میں بمبئی کے ہفتہ وار ’بلٹز‘اردو کے مدیر)، سید ناظر الحسینی (عصرجدید) عبدالمالک (عصر جدید)، بدر عالم(عصر جدید / امروز)، اے اے اے نشاط، ہندستانی مورخ سید رئیس احمد جعفری کے الہ آبادی ہمنام رئیس جعفری(عصر جدید) وغیرہ۔
میں ستمبر1971 میں کلکتہ آیا۔ لوور چت پور روڈ سے چورنگی کی ٹرام میں بیٹھ کر چورنگی، شکسپئر سرانی، پارک سرکس، کلکتہ میدان وغیرہ کی سیر کی، لوگوں سے میل ملاقات ہوئی تو میرا تاثر تھا کہ کلکتہ شہر نہیں تھا‘ وہ ایک کروڑ آبادی والا دنیا کا سب سے بڑا قصبہ تھا۔ اب دیدی کی ممتا نے اسے کیا روپ دیا ہے کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔
ایک بار پھر اس وقیع اورمعلوماتی مضمون پر معصوم مرادآبادی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
محمد طارق غازی
وھٹبی۔ کینڈا
جمعرات2 جون2022