Slide
Slide
Slide
ناصرالدین مظاہری

داخلہ نہ ہونا بدنصیبی نہیں ہے

✍️ مفتی ناصرالدین مظاہری

_______________

دینی مدارس میں داخلوں کی بہار آئی ہوئی ہے، ہر طالب علم کی دلی تمنا اور خواہش ہوتی ہے کہ وہ دارالعلوم یا مظاہرعلوم میں داخلہ لے، بہت سے بچوں کی تمناپوری ہوجاتی ہے اور بہت سے بچے نام نہ آنےکی وجہ سے کسی تیسرے ادارہ کی طرف رخ کرتے ہیں۔ میں بڑی صفائی سے عرض کرتا ہوں کہ کسی بھی ادارہ میں داخلہ کی کوئی فضیلت نہیں ہے، نہ ہی طلبہ کو ادارہ اورتعمیرات پر دھیان دینا چاہئے اصل چیز ہے تعلیم کا معیار اور تربیت پر توجہ، جہاں اور جس ادارہ میں طلبہ کی تعلیم وتربیت پر خاص توجہ دی جائے طلبہ ایسے اداروں کو ترجیح دیں پھر چاہے وہ ادارہ بہار کے کسی علاقہ میں ہو یا گجرات کے کسی گاؤں میں، کیرل کے کسی قریہ میں ہو یا اڑیسہ کی کسی بستی میں، میں نے دورافتادہ بعض گمنام مدارس میں ایسے ایسے ہونہار بچے دیکھے ہیں جو کسی بڑی دینی درسگاہ میں اب تک نہیں دیکھے، میں نے بڑے بڑے اداروں میں ایسے کند ذہن غبی بچوں کو فارغ التحصیل ہوتے دیکھا ہے جن کو اپنے درجہ کی کتابوں کا صحیح نام بھی لکھنا نہیں آتا، میں نے بعض بڑی درسگاہوں کے طلبہ ایسے دیکھے ہیں جن کو اپنے دورہ حدیث شریف کے اساتذہ کا نام ہی ڈھنگ سے یاد نہیں ہے اور میں نے بعض مرکزی اداروں کے فارغ طلبہ کو رکشہ اور حمالی کے ذریعہ رزق حلال تلاش کرتے دیکھا ہے اور بہت سے بچے گمنام اداروں میں پڑھے ہوئے مرکزی اداروں میں پڑھاتے آپ نے بھی دیکھا ہوگا۔

اصل میں اداروں کو اداروں پر شرف اور فضیلت دینے کی غلطی ہم نے کی ہے ورنہ فضیلت نہ ادارے کو حاصل ہے نہ اساتذہ کو حاصل ہے بلکہ اصل چیز اساتذہ کی محنت اور طلبہ کی لگن ہے، عمارتوں سے محروم، پیڑ کے نیچے پڑھ کر کتنے ہی نو نہالوں نے ملک اور قوم کانام روشن کیاہے جب کہ بلند وبالا تعمیرات میں پل کر اور شاندار درسگاہوں میں پڑھ کر ملک اور قوم بلکہ اپنے مادرعلمی کا نام بدنام کرتے بہت سے نمونے آپ کو بغیر تلاش کے مل جائیں گے۔

سوچیں بہت سے حاضر دماغ، جیدالاستعداد صلاحیتوں کے مالک یہود ونصاری اور بی جے پی وآر ایس ایس کے آلہ کار ہیں جہاں ہدف صرف اسلام ہے، جن کا مقصد زندگی ہی یہ ہے کہ مذہب اسلام میں تضادات کو تلاش کیا جائے، قرآن پاک اور حدیث شریف میں نعوذ باللہ کمیاں اور خامیاں نکالی جائیں، مسلمانوں کے عقائد کو کمزور اور مشکوک کرنے کے جتن کئے جائیں، صحیح العقیدہ انسانوں کو راہ راست سے بھٹکانے اور علماء کی خلاف ورغلانے کی سازشیں کی جائیں۔

آپ سوشل میڈیا پر نظر کیجیے، کتنے ہی باصلاحیت افراد اپنے مذہب اپنے مسلک اپنے مادرعلمی اور اپنے اساتذہ کے لئے باعث ننگ وعارہیں، پگڑیاں سر بازار نیلام ہورہی ہیں، عباو قبا کا تقدس پامال ہورہاہے، ضمیر فروشی کا بازار گرم ہے، یہ سب کسی نہ کسی ادارہ سے فارغ ہیں لیکن ان کو ان کے علم نے اس لئے فائدہ کی بجائے نقصان پہنچایا کیونکہ انھوں نے کتاب سے آگے صاحب کتاب سے تعلق نہیں بنایا، ان کی نظر سند اور ڈگری پر تھی خود سند بننے کی نہیں تھی اس لئے یہ” بگڑا ہوا ٹولہ” پڑھے لکھے رکشہ چالکوں سے ہزار درجہ بے کار و بدنام ہے۔

فرض کیجیے آپ کا داخلہ دارالعلوم دیوبند یا مظاہرعلوم سہارنپور میں ہوگیا ہے بلکہ آپ فارغ بھی ہوچکے ہیں لیکن آپ کا کردار اور آپ کے افعال دارالعلوم اور مظاہرعلوم کے مقصد اور مزاج کے خلاف ہے اور ایک شخص ہے جو کسی گمنام ادارہ سے فارغ ہے لیکن اس کا کردار صاف وشفاف اور اس کا ماضی وحال خالص دینی ہے تو فیصلہ کیجیے خدا کے یہاں کون مقبول ہے؟

کسی بھی ادارہ میں داخلہ ملنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ باصلاحیت ہیں اور باقی سب بے صلاحیت ہیں، ایسا بہت دفعہ ہوتاہے کہ کمزور سست رفتار کچھوا تیز رفتار خرگوش کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے، بہت ممکن ہے کہ کسی مکتب میں پڑھانے والا خدا ترس اتالیق اور کسی دہات میں جھولا چھاپ مگر تجربہ کار ڈاکٹر زیادہ لائق فائق ہو۔ بہت دفعہ گدڑی میں لعل چھپے ہوتے ہیں اور اکثر وبیشتر محل میں نااہل چھپے پھرتے ہیں۔

اپنی توجہ تعلیم اور تربیت پر مرکوز کیجیے، اپنے چھوٹے بڑے تمام اساتذہ سے عقیدت مندانہ تعلق رکھئے، ادب سیکھئے،مؤدب رہئے۔ اور خیر کے دروازے تلاش کیجیے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: