کرناٹک کا شرم ناک سیکس اسکنڈل
✍️ شکیل رشید ( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )
_________________
کرناٹک کے سیکس اسکنڈل سے ریاست میں تو سیاسی ہلچل مچی ہی ہوئی ہے، ملک بھر میں بھی سیاسی پارہ گرم ہو گیا ہے ۔ پراجول ریونّا کرناٹک کے ہاسن لوک سبھا حلقہ سے رکن پارلیمنٹ ہیں ، اور اس لوک سبھا الیکشن کے ایک امیدوار بھی ۔ کسی رکن پارلیمنٹ کا کسی سیکس اسکنڈل میں نام آنا اپنے آپ میں شرم ناک بات ہے ، لیکن یہ شرم مزید گہرا اس لیے ہوجاتا ہے کہ وہ ملک کے سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا کے پوتے اور کرناٹک کے ایک سابق وزیر اعلیٰ کمارا سوامی کے بھتیجے ہیں ۔ ان کی گھریلو ملازمہ نے ان کے اور ان کے والد ایث ڈی ریونّا کے خلاف جنسی چھیڑ چھاڑ اور جنسی استحصال کی شکایت درج کرا دی ہے اور پولیس نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی ہے ۔ معاملہ صرف گھریلو ملازمہ کی شکایت ہی کا نہیں ہے ریونّا کی دو ہزار نو سو چھہتّر ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جن میں وہ مختلف عورتوں کے ساتھ فحش حرکتیں کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ، گویا جنسی استحصال کی واردات کسی ایک ملازمہ تک محدود نہیں ہے ہزار سے زائد عورتوں تک پھیلی ہوئی ہے ۔ جن کا جنسی استحصال کیا گیا ہے ، وہ یا تو گھریلو ملازمائیں ہیں ، یا پارٹی ورکر اور پارٹی عہدیدار ۔ ریونّا نے اپنی فحش حرکتیں پین ڈرائیو میں لوڈ کر رکھی تھیں ، الزام ہے کہ ان ویڈیو کے ذریعے وہ مظلوم عورتوں کو بلیک میل کرتا تھا ۔ ریونّا کو فرار بتایا جاتا ہے ۔ دیوے گوڑا کی سیاسی جماعت جنتا دل سیکولر میں ان کے خلاف غصے اور مخالفت کی لہر پھیلی ہوئی ہے ۔ پارٹی ممبران کے غصے کے مدنظر ریونّا کو پارٹی سے معطل کر دیا گیا ہے اور کمارا سوامی نے یہ اعلان کیا ہے کہ اگر انہوں نے غلطی کی ہے تو انہیں سزا ملے گی ۔ اس اسکنڈل نے کرناٹک میں دیوے گوڑا اور کمارا سوامی کی پارٹی کو بیک فٹ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے ، اور چونکہ وہاں جنتا دل سیکولر اور بی جے پی میں انتخابی اتحاد ہے اس لیے بی جے پی بھی اس اسکنڈل سے متاثر ہوئی ہے ۔ بی جے پی کے اندر سے آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ یہ جو انتخابی اتحاد ہوا ہے پارٹی پر اس کے بُرے اثرات مرتب ہوں گے ۔ ویسے اس اسکنڈل سے بی جے پی اور جنتا دل سیکولر دونوں ہی کو نقصان ہو رہا ہے ۔ کانگریس نے اس اسکنڈل کو بنیاد بنا کر پی ایم مودی کو بھی گھیر لیا ہے ۔ ایک تصویر میں مودی ریونّا کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں ، وہ تصویر موضوع گفتگو بن گئی ہے ۔ پرینکا گاندھی نے مودی سے سوال کر لیا ہے کہ عورتوں کے منگل سوتر کی فکر ہے تو مفرور ریونّا کو واپس کیوں نہیں لاتے ؟ کیوں اس معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے ؟ جہاں اس اسکنڈل نے سیاسی پارہ گرم کیا ہے وہیں اس نے ایک اہم سوال دوبارہ کھڑا کر دیا ہے کہ اس ملک میں کب تک عورتوں کا استحصال ہوتا رہے گا ، کب انہیں اقتدار میں ساجھیداری دی جائے گی اور کب سیاسی جماعتیں انہیں ان کی آبادی کے لحاظ سے حکومت سازی اور فیصلہ سازی میں ان کا حق دیں گی؟ پارلیمنٹ میں تو خواتین کے ریزرویشن کا قانون بن گیا ہے تاکہ وہاں خواتین کی نمائندگی بڑھے ، لیکن کیا اس قانون پر عمل ہو رہا ہے؟ اس پارلیمنٹ میں ، جس کی معیاد الیکشن کے بعد ختم ہوجائے گی ، خواتین کی نمائندگی پندرہ فیصد سے کم ہے ، یہی حال ریاستی اسمبلیوں کا بھی ہے ۔ اس بار کیا فیصد ہوگا اس کا پتا الیکشن نتائج کے بعد چلے گا ، لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ فیصد میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوگا ۔ اگر خواتین کو استحصال سے محفوظ رکھنا ہے تو انہیں بااختیار بنانا ہوگا ، اور یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے ۔ لیکن کیا حکومت بشمول ریاستی حکومتیں یہ کام کریں گی؟ کیا وہ یہ کام کرنے کے تئیں سنجیدہ ہیں؟ شاید نہیں ۔ جس طرح ستائی گئی خواتین انصاف سے محروم ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ حکومت اُس کی پیٹھ تھپتھپاتی ہے جس پر ستائے جانے کا الزام لگتا ہے ۔ کیا برج بھوشن سنگھ کے خلاف کوئی کارروائی کرکے خواتین پہلوانوں کے ساتھ انصاف کیا گیا ؟ کیا کلدیپ سنگھ سینگر کو بار بار بچانے کی کوشش نہیں کی گئی ؟ یہ دو بالکل سامنے کے نام ہیں جبکہ یہ فہرست لمبی ہے ۔ بی جے پی کو چاہیے کہ وہ کرناٹک میں اپنی حلیف جنتا دل سیکولر کے ملزم کے خلاف کارروائی کے لیے آواز اٹھائے ، اور اُن خواتین کو جو ستائی گئی ہیں انصاف دلانے کے لیے آگے بڑھے ۔ زبان بند رکھنے سے کام نہیں چلے گا ۔