مولانا عبد العلیم فاروقی:میں بہر حال کتابوں میں ملوں گا تم کو
✍️ عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے
__________________
زندگی نے کہاں کسی کو بخشا، ایک کے بعد ایک ،موت نے سب کا دروازہ دیکھا ہوا ہے ،باری باری وہ سب کے پاس آئی ،آتی ہے اور آتی رہے گی ۔ابھی کل گزشتہ مؤرخہ 23/4/24 کو ہم سب کےمحبوب ،دلیر ،بارعب ،پیکر علم وعمل ،صاحب فضل وکمال،یادگار اسلاف کئی بااثر اداروں کے مشیر خاص حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی لکھنوی بھی رب حقیقی سے جاملے ،انا للہ وانا الیہ راجعون
جسم تو خاک ہے اور خاک میں مل جائے گا
میں بہر حال کتابوں میں ملوں گا تم کو
دارالعلوم دیوبند پہنچ کر ان کی گرجدارخطابت سے واقف ہوا تھا مدنی دارالمطالعہ طلبہ دارالعلوم دیوبند کی سعی وکوشش کے نیتجے میں کسی قدر قریب سے انہیں آج سے قریبا 28/برس قبل پہلی مرتبہ سنا تھا ،تب سے آج تک ان کی عظمت جو دلوں میں بیٹھی تو بیٹھی رہ گئی ،بلکہ ان کے علمی کمالات ،شگفتہ بیانی اورفکری ندرت وجمال کا احساس روز بروز فزوں تر ہوتا چلا گیا ۔ وہ در اصل فکر دیوبندیت کے ترجمان اور علماء دیوبند کی شان تھے ۔ان کے انتقال پرملال سے فکر وتحقیق ،تاریخ وسیرت اورجمال وجلال سے متصف شگفتہ بیانی کا ایک باب بند ہوگیا ۔بالیقین آنے والی نسلیں انہیں اب کتابوں میں پڑھیں گی اور ورق ورق انہیں محسوس کریں گی ۔وہ ہمارے ہندوستان میں سیرت صحابہ اور مدح صحابہ کے مبلغ اعظم تھے،سچی بات یہ ہے کہ مولانا کی علمی ،اصلاحی ،ملی ،سماجی اور فکری وتحقیقی خدمات وکردارکی جہتیں اتنی وسیع ہیں کہ آنے والے دنوں میں جس عنوان سے بھی انہیں پڑھا جائے گا ،ہر راہ میں پس مرگ بھی وہ ملت کی رہنمائی کرتے ہوئے دیکھا ئی دیں گے
چہرہ کھلی کتاب ہے عنوان جو بھی دو
جس رخ سے بھی پڑھو گے مجھے جان جاؤ گے
حضرت مولانا کو رب نے بلا کا ذہن بخشا تھا، پڑھے ہوئے کو بول لینا کسی قدر آسان ہے ،مگر بغیر پڑھے کو غیر معمولی ذہانت وذکاوت ، جرئت ویقین اور فطری اسلوب میں بیان کر لینا اور سامنے والے کو طبعاً خاموش بھی کردینا یقیناً انہیں خوب آتا تھااور درحقیقت انہوں نے ثابت کردیا کہ
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے و ہ ز ند گی گز ا ر ی ہے
مولانا دارالمبلغین لکھنؤ کے روح رواں ہونے کے ساتھ وہ عرصہ تک جمعیۃ علماء ہند وناظم عمومی بھی رہے ہیں ،دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے رکن شوری بھی تھے ،ان کی اصابت رائے پر بھروسہ کیا جاتا تھا ،وہ رخ کو بھانپ کر اپنی رائے رکھنے کے عادی تھے اور ہمیشہ باوزن اور صاف گفتگو کر نا ان کی عادت کا حصہ تھا ۔
اللہ ان کے درجات بلند کرے اور ان سے وابستہ اداروں کو خوبیوں سے مربوط افراد مہیا کرے۔آمین