از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى آکسفورڈ
_____________________
اگر نه سہل ہوں تجهـ پر زميں كے ہنگامے
برى ہے مستى انديشه ہائے افلاكى
اہل لكهنؤ كے لئے خطيب امت ومبلغ ملت مولانا عبد العليم فاروقى رحمة الله عليه كى وفات كا سانحه معمولى نہيں، نصف صدى تكـ يہاں كا چپه چپه ان كے نغموں سے مسحور تها، گوشه گوشه ان كے پر كيف خطبوں سے معمور تها، اور ہر معركه ان كے دم سے معركۂ يوم نشور تها، كيا لكهنؤ ميں كوئى ايسا انسان بهى ہے جس نے اس بلبل خوش نوا كا نام نه سنا ہو؟ يا سنا ہو اور اس آواز ہنگامه خيز سے مانوس نه رہا ہو؟ شهر پرى روياں كى علمى ودعوتى محفليں انہيں ياد ركهيں گى، افسوس وه خوش بيان آواز خاموش ہوگئى جو مدح صحابه كے جلسوں ميں صور اسرافيل بن كر بلند ہوتى تهى، وه دل بيتاب رخصت ہوا جو ملى مسائل كے لئے بيقرار ہو جاتا تها، وه غيرت كا پتلا نظروں سى اوجهل ہو گيا جو اصحاب رسول كے ناموس كا سب سے بڑا محافظ تها، محرم كے جلسے اسے تلاش كريں گے، نگاہيں اسے ڈهونڈيں گى، مگر وه الوداع كہنے والا شور وشرر كى زمين سے بہت دور چلا گيا ہے، اور يه كہكر گيا ہے كه قيامت كو مليں گے "چوں صفحه تمام شد ورق بر گردد”:
عشق كوئى ہمدرد كہيں مدت ميں پيدا كرتا ہے
كوه رہيں گے نالاں برسوں ليكن اب فرہاد نہيں
دار العلوم ندوة العلماء ميں ميرے كمره كے ايكـ ساتهى تهے جناب ولى الله لكهنوى جو اصلا اله آباد كے رہنے والے تهے، لكهنؤ ان كا ننهيال تها، اور پاٹا ناله ميں ان كى رہائش تهى، مولانا عبد العليم فاروقى رحمة الله عليه ان كے ماموں تهے، عجب نہيں اگر ہمارے كمره ميں ہميشه مولانا عبد العليم صاحب اور امام اہلسنت مولانا عبد الشكور صاحب رحمة الله عليہما كا كسى نه كسى مناسبت سے ذكر نه ہوتا رہا ہو، يه سنه 1979م اور اس كے بعد كى بات ہے، اس وقت بهى بحيثيت مقرر مولانا عبد العليم صاحب كى شہرت تهى، محرم كے دنوں ميں احاطۂ شوكت على، مولانا عبد العليم صاحب اور مولانا عبد الشكور صاحب كا چرچا ہر زبان پر ہوتا۔
مولانا عبد الشكور لكهنوى رحمة الله عليه ندوه كے اولين مدرسين ميں سے تهے، ميرى خوش نصيبى ہے كه مجهے مولانا عبد الحميد سواتى رحمة الله عليه سے اجازت حديث حاصل هے جنهين براه راست مولانا عبد الشكور ندوى رحمة الله عليه سے اجازت تهى، ندوه كے اولين مدرسين ميں سے ايكـ اور نام ہے مولانا عبد اللطيف رحمانى رحمة الله عليه جو علامه سيد سليمان ندوى رحمة الله عليه كے استاد تهے، مجهے ان كے شاگرد مولانا محمد يحيى ندوى سے بهى اجازت حاصل ہے، والحمد لله على ما أنعم۔
مولانا عبد الشكور رحمة الله عليه كا يه عظيم كارنامه ہميشه ياد ركها جائے گا كه جب لكهنؤ اور اس كے اطراف مين رفض وتشيع كا غلبه هوا، اور سنيون كے اندر بهى يه بدعات سرايت كرنے لگيں تو مولانا نے اس فتنه كے سد باب كے لئے جان وتن كى بازى لگادى، جگه جگه صحابۂ كرام كے فضائل ومناقب بيان كئے، شب وروز ان كے حقوق ياد دلائے، يوں آپ نے شاه عبد العزيز دہلوى رحمة الله عليه كى اس ميراث كو زنده ركها جس سے ہر طرف غفلت برتى جا رہى تهى، لكهنؤ كے مسلمانوں كى اصلاح ميں آپ كا جو حصه ہے وه كسى سے مخفى نہيں، ايكـ مصلح كى داستان زندگى قربانيوں اور انقلاب آفريں احوال ومقامات سے عبارت ہوتى ہے، جبكه عافيت طلبوں، مصلحت كوشوں، زاويه گزينوں اور گوشه نشينوں كے بام ودر سے ايكـ ہى آواز ہمه وقت سنائى ديتى ہے: آشياں اجڑا كيا، ہم ناتواں ديكها كئے۔
مولانا عبد العليم صاحب كى ابتدائى تعليم وتربيت جد امجد حضرت مولانا عبد الشكور صاحب فاروقى اور والد ماجد حضرت مولانا عبد السلام صاحب كے زير سايه ہوئى، لکھنؤ اور لکھیم پور میں طالبعلمى كے بعد مظاہر علوم سہارن پور ميں داخله ليا جہاں شرح جامی سے مشکاۃ المصابیح تک کی کتابیں پڑھیں، مظاہر علوم ميں آپ كے اساتذه ميں شيخنا الأجل مولانا شيخ محمد يونس صاحب جون پوری رحمة الله عليه بهى تهے۔
سنه 1389هـ ميں آپ نے دارالعلوم ديوبند ميں دورۂ حديث كى تكميل كى، يہاں آپ كے شيوخ ميں تهے: مولانا فخر الدين احمد مراد آبادى (صحيح بخارى نصف اول)، مفتى محمود حسن صاحب گنگوہى (صحيح بخارى نصف دوم)، مولانا شريف الحسن صاحب ديوبندى (صحيح مسلم وسنن ابن ماجہ)، مولانا فخر الحسن صاحب (سنن ترمذى وشمائل)، مولانا عبد الاحد صاحب ديوبندى (سنن ابو داود)، مولانا حسين احمد صاحب بہارى (سنن نسائى)، شيخنا المسند مولانا نصير احمد خان صاحب برنى (موطأ بروايت يحيى بن يحيى ليثى)، مولانا اسلام الحق صاحب كوپاگنجى (شرح معاني الآثار)، اور مولانا نعيم احمد صاحب ديوبندى (موطأ محمد) رحمہم الله تعالى۔
فراغت كے بعد آپ تدريس، دعوت وتبليغ سے منسلكـ ہوئے، اور ميراث نبوت كى نگہبانى ميں پورى زندگى گزارى، آپ شعله بيان خطيب، كشاده دل عالم، وسيع المشرب انسان، پر اثر واعظ، اور موقع شناس مقرر تهے، آپ نے خطابت كو ايكـ نيا رخ عطا كيا، لكهنوى زبان وتہذيب كے امتياز كى پاسبانى كى، جس جلسه ميں ہوتے اس ميں آپ كے سوا ہر آواز ماند پڑ جاتى، آپ كى طوطى گفتارى سامعين كا ايمان بڑهاتى اور انہيں نيا حوصله ديتى، عوامى جلسوں كى سربراہى كے باوجود عالمانه شان ميں كمى نه آنے دى۔
مرحوم نے دارالمبلغين كو ترقى دى، بحيثيت ركن شورى دار العلوم ديوبند اور دار العلوم ندوة العلماء كى خدمت كى، گونا گوں خاندانى اور علمى رشتوں كى وجه سے مفكر اسلام مولانا سيد ابو الحسن على ندوى رحمة الله عليه سے قربت رہى، مفكر اسلام اپنے ايكـ مضمون ميں لكهتے ہيں: "مولانا عبد الشكور صاحب فاروقى كے ہمارے خاندان اور اس كے بزرگوں سے بڑے گہرے روحانى روابط تهے، ان كے والد محترم مولوى ناظر على صاحب تحصيلدار حضرت مولانا سيد عبد السلام صاحب ہنسوى (خليفه حضرت شاه احمد سعيد صاحب مجددى دہلوى) كے مريد ومجاز وعاشق صادق تهے، مولانا سيد عبد السلام صاحب ميرے والد ماجد مولانا سيد حكيم عبد الحى حسنى صاحب كے ماموں تهے، اور وه اپنے وقت كے مشائخ كبار اور اہل الله ميں سے تهے، شاه احمد سعيد صاحب اور ان كے بهائى شاه عبد الغنى صاحب كے ہندوستان سے ہجرت كرجانے كے بعد سلسلۂ مجدديه نقشبنديه ميں مولانا عبد السلام صاحب سے بلند پايه اور عالى مرتبت شيخ اس وقت ہندوستان ميں نظر نہيں آتا” (پرانے چراغ 2/191) ۔
وقت كے ساتهـ خاندانى اور علمى رشته مضبوط تر ہوا، مفكر اسلام كے جانشين استاد محترم حضرت مولانا سيد محمد رابع صاحب رحمة الله سے تعلق بہت بڑهـ گيا تها، ناظر ندوة العلماء مولانا سيد حمزه حسنى رحمة الله عليه اور آپ كے درميان تعاون ومحبت كى جو كيفيت تهى اس كا ذكر ہر كہتر ومہاں كى زبان پر تها۔
ندوه كے قيام كے دوران وقتا فوقتا آپ كى زيارت ہوتى رہتى تهى، انگلينڈ آجانے كے بعد گاہے بگاہے ملاقات ہوتى، ذى الحجه سنه 1440هـ ميں ندوه حاضرى ہوئى، اس وقت مولانا عبد العلى فاروقى صاحب نے مناقب ام المؤمنيں حضرت عائشه رضي الله عنہا كے موضوع پر ايكـ كانفرنس منعقد كى تهى، مجهے بهى اس ميں مدعو كيا گيا تها، ميں نے ام المؤمنيں كے فضائل پر مختصر گفتگو كى، اس موقع پر مولانا عبد العلى اور مولانا عبد العليم صاحب كى آتشيں تقريريں سننے كا اتفاق ہوا، مجمع ہمه جوش وخروش تها، "درياؤں كے دل جس سے دہل جائيں وه طوفاں” كا منظر تها:
تا تو بيدار شوى ناله كشيدم ورنه
عشق كاريست كه بے آه وفغاں نيز كنند
اسى سفر ميں 30 ذى الحجه بروز سنيچر صبح ساڑهے چهـ بجے مولانا عبد العليم صاحب نے عاجز كو شرف زيارت بخشا، ندوه كے دار الشفا ميں ميرى قيامگاه پر كچهـ دير گفتگو ہوئى، مولانا نے چند كتابيں بهى ہديه كيں، آپ كى نيكـ دلى اور تواضع كا دل پر اثر ہوا، اس ملاقات كا تذكره ميرے عربى سفرنامه (رحلة الهند) ميں بهى ہے۔
مرحوم كا انقلابى كام مدح صحابہ کی تحریک كو نئى شكل دينا تها، آپ كے جد امجد مولانا عبد الشكور صاحب نے لكهنؤ كے سنيوں كو بڑى حد تكـ شيعوں كے اثرات سے آزاد كرا ديا تها، اس كے بعد يه تحريكـ صحابۂ كرام كى عظمتوں كو اجاگر كرنے اور ان كے دفاع ميں لگى رہى۔
تحريكيں اگر بدلتے ہوئے حالات كو نه سمجهيں اور صرف پرانے راگ الاپتى رہيں تو اپنى معنويت كهو ديتى ہيں، اور ان كى حيثيت ايكـ بے جان لاشه كى ره جاتى ہے جسے زبردستى ڈهويا جاتا ہے، وه يه بهول جاتى ہيں كه "اگر چه پير ہے مومن، جواں ہيں لات ومنات”، مولانا عبد العليم صاحب كو اندازه ہو گيا تها كه اگر بر وقت اس جمود سے نكلنے كى كوشش نه كى گئى تو يه تحريكـ دم توڑ دے گى، ان كا عقيده تها كه "ہر دم رواں، ہر دم دواں، ہر دم جواں ہے زندگى” اس لئے انہوں نے اس تحريكـ كى اصلاح اور اس كے موضوعات كے توسع كى طرف توجه دى "واے گر باشد ہميں امروز من فردائے من:
كيفيت باقى پرانے كوه وصحرا ميں نہيں
ہے جنوں تيرا نيا، پيدا نيا ويرانه كر
صحابۂ كرام كى تعظيم كى بنيادى وجه يه ہے كه وه نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كے اولين شاگرد تهے، آپ نے انہيں وحى كى نگرانى ميں تيار كيا تها، الله تعالى نے ان كے ايمان كى گواہى دى، ان كى قربانيوں كو قبول كيا، اور انہيں "رضي الله عنهم ورضوا عنه” كے دلنواز خطاب سے سرفراز كيا، صحابه كى تعظيم صرف كوئى بے جان عقيده نہيں، بلكه اس كا رشته عمل سے گہرا اور مضبوط ہے، مسلمان جس قدر اس برگزيده جماعت سے قريب ہوں گے اسى قدر خدا سے قريب ہوں گے، اس لئے ہر عہد كى يه ضرورت ہے كه صحابة كرام كے عملى نمونوں كو اجاگر كيا جائے، اور مسلمانوں كو ان نمونوں پر عمل كرنے كى ترغيب دى جائے۔
چنانچه مرحوم نے مدح صحابه كے جلسوں ميں ان عملى نمونوں كى تشريح كى طرف توجه كى، نوع بنوع موضوعات كا انتخاب كيا، اور اس تحريكـ ميں ايكـ نئى روح پهونكـ دى، اميد ہے كه آپ كے جانشين بجان ودل اس ميراث كى حفاظت كريں گے، اور يه ياد ركهيں گے كه جانے والے نے اپنا عہد پورا كيا "فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر وما بدلوا تبديلا”:
حاصل عمر نثار ره يارے كردم
شادم از زندگى خويش كه كارے كردم