✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
__________________
مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے سابق استاذ، منکسر المزاج، اکابر امارت شرعیہ سے غیر معمولی محبت کرنے والے جناب محمد نسیم اختر صدیقی حزیںؔ ساکن چندوارہ ہاؤس کہنہ سرائے بہار شریف، نالندہ نے 22 فروری 2024 مطابق 11شعبان 1445ھ بروز جمعرات بوقت چھ بجے صبح پٹنہ کے میدانتا اسپتال میں آخری سانس لی، انہیں ضعف، کبر سنی کے ساتھ مسلسل ہچکیاں آنے لگی تھیں 2فروری کو اسی مرض میں انہیں ہوسپیٹل میں د اخل کرایا گیا تھا، دیہاتی لوگوں کا خیال ہے کہ مسلسل ہچکیاں کسی کے یاد کرنے سے آتی ہیں، محمد نسیم اختر صدیقی صاحب نے جب دنیا کو الوداع کہا تو معلوم ہوا کہ اللہ انہیں یاد کر رہا تھا۔ جنازہ کی نماز بعد نماز جمعہ 23فروری کو مولانا محمد شاکر صاحب پرنسپل مدرسہ عزیزیہ بہار شریف، ضلع نالندہ نے پڑھائی اور گگن دیوان قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ، دو بھائی اور ایک بہن کو چھوڑا، حافظ محمد ہمایوں اختر سیاست سے منسلک ہیں اور دوسرے صاحب زادہ ڈاکٹر محمد طلحہ صدیقی ہیں۔
جناب محمد نسیم اختر صدیقی بن مولانا ابو المکارم صدیقی(1998-2009) بن شیخ ابراہیم بن شیخ بخور علی بن شیخ بخشو بن شیخ رمن کی ولادت 17اپریل 1936کو ضلع نالندہ کے علاقہ قدیم پور،چندوارہ گاؤں میں ہوئی، ان دنوں اس کا بلاک رہوئی ہے، 1946کے فساد میں پورا خاندان بشمول والدہ زینب النساء بنت شیخ عبد الستار رئیس علاقہ قدیم پور چندوارہ شہید کر دی گئیں، صدیقی صاحب تعلیم کے سلسلے میں باہر تھے، اس لیے بچ گیے، اس کے بعد ان کے والد نقل مکانی کرکے بہار شریف آگیے اور یہیں کے ہو کر رہ گیے، صدیقی صاحب کی ابتدائی تعلیم حیدر آباد دکن میں ہوئی، جہاں ان کے چچا عبد الغفار صدیقی بسلسلہ ملازمت مقیم تھے، میٹرک ٹاؤن ہائی اسکول بہار شریف سے کیا، آئی ایس سی نالندہ کالج بہار شریف، بی ایس سی بی ایڈ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ سے کرنے کے بعد ممبئی انجینئرنگ کالج سینٹ زبویر کالج سے انجینئرنگ کرنا شروع کیا، لیکن وہ بوجوہ اس کو مکمل نہیں کر سکے، 1967ء میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں سائنس کے معلم کی حیثیت سے بحالی عمل میں آئی اور یہیں سے 31دسمبر 1999کو سبکدوش ہوئے۔
صدیقی صاحب کی زوجہ حجن سروری بیگم بنت مولوی عین الحق (م 1986) بن حاجی فرمان حسین چمپا پور، بختیار پور ضلع پٹنہ ہیں جو الحمد للہ حی القائم ہیں، ضعف وپیرانہ سالی کے دور سے گذر رہی ہیں، اب یہی خاندان کی سر پرست رہ گئی ہیں۔
صدیقی صاحب کا مزاج مذہبی اور علمی تھا، جوان کو اپنے والد کی طرف سے ورثہ میں ملا تھا، 1952ء میں انہوں نے بہار شریف میں ادبی انجمن کی بنیاد ڈالی تھی اور قلمی رسالہ ستارہ صبح نکالا کرتے تھے، انہوں نے شاعری بھی کی اور خاندان کی شہادت کا غم جو دل ودماغ پر چھایا ہوا تھا اس کی وجہ سے حزیں تخلص اختیار کیا، پہلی غزل غالب کی زمین میں ان کے شعر پر تضمین کی شکل میں کہی جو نالندہ کا لج کے مشاعرہ میں سنائی، اس مشاعرہ میں مشہور شاعر جگن ناتھ آزاد مرحوم بھی شریک تھے۔
صدیقی صاحب سے میرے تعلقات انتہائی قدیم تھے، جن دنوں میں مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور ویشالی میں تدریسی خدمات انجام دے رہا تھا، اس زمانہ میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں کثرت سے میرا آنا جانا ہوتا تھا، ان کا با رونق مرصع ڈاڑھی سے سجا ہوا چہرہ، مسکراتے سرخ لب، کسی کو بھی متاثر کرنے کے لیے کافی تھے، عرصہ دراز تک میں یہی سمجھتا رہا کہ وہ دینیات کے استاذ ہیں، یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ وہ سائنس ٹیچر ہیں، یہ جان کر میرے دل میں ان کی وقعت اور بڑھ گئی، ان کی شفقت، توجہ اور خرد نوازی نے دل پر اثر کیا، سبکدوشی کے بعد وہ بہار شریف رہنے لگے، لیکن تعلقات میں کمی نہیں آئی، جب بھی وہ پٹنہ تشریف لاتے تو مجھ سے ملنے امارت شرعیہ ضرور آتے، انہوں نے نسیم خزاں لکھی تو مجھے تبصرہ کے لیے دیا، لیکن بادی النظر میں نسیم اور خزاں کا جوڑ میری سمجھ میں نہیں آیا، اس لیے اس پر تبصرہ آنے سے رہ گیا، بعد میں معلوم ہوا کہ حزیں، خزاں ہو گیا، ان کی وفات کے بعد بھی کسی نے خزاں اور کسی نے خزیں لکھا، حالاں کہ وہ خزاں اور خزیں نہیں حزیں (حا) تھے،مغموم اور ملول۔ گذشتہ سال جب میں بہار شریف عازمین حجاج کی تربیت کے لیے مدرسہ عزیزیہ گیا تو وہاں سے فراغت کے بعد ان کے در دولت پر بھی حاضری ہوئی، انہوں نے بہار کی تاریخ کے اوراق الٹنے شروع کیے، میں دیر تک سنتا رہا، انہوں نے اپنے پاس بڑوں کے بہت سارے خطوط ہونے کا بھی ذکر کیا، میں نے تجویز رکھی کہ وہ اپنی یاد داشت قلم بند کرادیں اور خطوط کو بھی مرتب کر دیں، انہوں نے حامی بھر لی، ایک طالب علم بھی املا کرانے والا مل گیا تھا، انہوں نے لکھانا شروع کیا، لیکن صحت میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا تھا، جس کی وجہ سے مسلسل یہ کام نہیں ہو پا رہا تھا، بالآخر وہ ادھورا ہی رہ گیا، اور ان کی حیات مستعار کا آخری ورق الٹ گیا۔
ابھی یکم مارچ کو مدرسہ اشاعت الاسلام کے جلسہ میں بہار شریف گیا تو ان کے صاحب زادہ ڈاکٹر طلحہ سے میں نے تعزیتی ملاقات کیی اور ان کے مسودہ کو طباعت کے مرحلے سے گذارنے کی تجویز رکھی، الحمد للہ وہ پر عزم نظر آئے، بتایا کہ ابھی والد صاحب کی باقیات کو اکٹھا کر رہا ہوں، سب جمع ہو جائے تو پھر آگے کام بڑھاؤں گا، میں مطمئن ہوکر چلا آیا، اب انتظار ہے جب ان کی شاعری،ا ن کی نثری تحریریں منظر عام پر آئیں گی، یہی ان کے لیے بہترین خراج عقیدت ہو گا، میرے علم میں ہے کہ ان کا سینہ تاریخ کے دفینوں کا گنجینہ تھا، جنہیں گنج ہائے گراں مایہ کی حیثیت حاصل تھی، اس لیے میری توقعات یوں ہی سی نہیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل دے، آمین یا رب العالمین۔ خاک میں کیا صورتیں ہو گئیں جو پنہاں ہو گئیں۔