سید شاہ ہاشم علی سبزپوش
✍️ ڈاکٹر خوشتر نورانی (امریکا)
______________________
آپ حضرت شہود الحق سید شاہ شاہد علی سبزپوش قدس سرہ کے سب سے چھوٹے اورچہیتے صاحبزادے تھے- خانقاہ رشیدیہ کے متولی اور معنوی سجادہ نشین تھے- ولایت و درویشی میں کمال رکھتے تھے،علوم ظاہری و باطنی دونوں کے جامع تھے،اوصاف حمیدہ اور اخلاق فاضلہ سے متصف تھے-
آپ کا اسم گرامی ہاشم علی اورتخلص جامیؔ تھا-معتقدین و متوسلین ’’حضرت ہاشم بابو‘‘سے یاد کرتے تھے-آپ مذہبا حنفی اورمشرباقادری تھے- سلسلۂ نسب قدوۃ العارفین حضرت میر سید شاہ قیام الدین گورکھ پوری کے واسطے سے امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے –
ولادت و تعلیم:
آپ شہرگورکھپور،یوپی کے محلہ جعفرا بازارکے معروف اور معزز علمی و روحانی خانوادے میں ۱۱؍ربیع الاول ۱۳۴۶ھ /۸؍ ستمبر ۱۹۲۷ء کو پیدا ہوئے-آپ کی والدہ مخدومہ صالحہ بی بی کا تعلق قصبہ ولید پور،بھیرہ [ضلع اعظم گڑھ] سے تھا -آپ کی مکمل نشو و نما والد گرامی کے زیرسایہ ہوئی – دینی تعلیم اپنے ہی دولت کدے میں حاصل کی- اس کے بعدعصری علوم کی طرف متوجہ ہوئے – جارج اسلامیہ انٹر کالج گورکھپور سے نویں درجے تک، اسلامیہ انٹر کالج الہ آباد سے دسویں اورہائی اسکول اور پھر سینٹ اینڈریوز کالج گورکھپور سے بی اے اور ایل ایل بی کیا-
خانقاہی دنیا کا مثالی واقعہ:
یہ واقعہ آپ کی کتاب حیات کا ایک انوکھا باب ہے اورشاید خانقاہی دنیا کامثالی واقعہ بھی- حضرت مجمع البحرین مفتی عبید الرحمن رشیدی فرماتے ہیں :
ایک مرتبہ آپ نے اپنے والد بزرگوار حضرت سید شاہ شاہد علی سبز پوش قدس سرہ کے مریدین و معتقدین کے شدید اصرار پر سرزمین پورنیہ(بہار) کو شرف قدوم بخشااور اپنے والد گرامی کے حلقۂ مریدین کا دورہ کیا،اس وقت آپ کی عمر تقریبا ۱۰؍ یا ۱۱؍ برس کی تھی-اس سفر میں آپ کو کافی تحائف اور نذرانے ملے-جب واپس خانقاہ مصطفائیہ، چمنی بازار(پورنیہ) آئے تو سارے تحائف اور نذرانے خانقاہ کے نگراں اور مختار عام مولانا میاں شمس العالم شاہدی (جو آپ کے والد بزرگوار کے مرید صادق اور منظور نظر تھے)کو یہ کہہ کر حوالے کردیا کہ یہ نذرانے و تحائف میں خانقاہ کو نذر کرتا ہوں-جب مولانا موصوف نے اپنے پیر زادے کا یہ عمل دیکھا تو سخت حیرت میں پڑ گئے اور احتراماً اپنے مخدوم زادے سے عرض کیاکہ حضور! یہ تحائف اورنذرانے مریدین و معتقدین نے بطور خاص آپ کوپیش کیے ہیں، اس لیے انھیں اپنے ہی پاس رکھیں اور خانقاہ کو نذر نہ کریں ، لیکن آپ اس پر مصر ہوگئے اور فرمایا کہ میں انھیں اپنے پاس رکھنے کی تاب نہیں لا سکتا، یہ خانقاہ کا حق ہے ، اس لیے میں خانقاہ کو نذر کر رہا ہوں- آخر کار مولانا شمس العالم نے مخدوم زادے کے اصرار کو دیکھتے ہوئے مجبوراً قبول توکر لیا ،لیکن مولانا موصوف نے اپنے مخدوم گرامی حضرت شہود الحق کوخط لکھا کہ مخدوم زادے کو مریدین کی طرف سے جو نذرانے ملے تھے، ہزارہا منع کرنے کے باوجود ان کو خانقاہ میں وقف کردیا ہے، حضرت اس کے بارے میں حکم فرمائیں- حضرت شہود الحق نے جواب ارشاد فرمایا :
’’اچھا! ہاشم نے ایسا کیا ہے ؟، انھوں نے بڑی جواں مردی کا کام کیا ہے،آپ بلا چون و چرا اسے خانقاہ کے لیے قبول کرلیجیے اور رجسٹر میں درج کر لیجیے -‘‘
خانقاہی تاریخ میں ایسے والد و فرزند اور شیخ و مرید کی مثال مشکل سے نظر آئے گی-
عقد مسنون:
آپ کی شادی ضلع غازی پور کے معروف قصبہ یوسف پور میںمجاہدآزادی جناب مختار انصاری کے خاندان میں قاضی اکرام الحق انصاری کی چھوٹی صاحبزادی مخدومہ نجمہ بیگم صاحبہ سے ہوئی جو ۲۰۰۲ء میں دار فانی کو الوداع کہتی ہوئی مالک حقیقی سے جا ملیں-
اولاد امجاد:
آپ کی کل پانچ اولاد ہیں جن میں تین صاحبزادے سید معروف علی سبز پوش، سیدیافث علی سبز پوش ، سید دانش علی سبز پوش اور دو صاحبزادیاں سیدہ تنویر بی بی اور سیدہ سلمیٰ بی بی شامل ہیں-ان میں ہر ایک تواضع و انکساری،علم و اخلاق اور مروت و انسانیت میں اپنے والد کی یادگار اور ان کے صحیح وارث ہیں-
آپ کے وصال کے بعد بڑے صاحب زادے حضرت سید معروف علی سبز پوش خانقاہ رشیدیہ جون پور کے موجودہ متولی ہیں اور چھوٹے صاحبزادے حضرت سید دانش علی سبز پو ش نائب متولی-آپ حضرات اخلاص و دیانت اور انتہائی ذمے داری کے ساتھ خانقاہی امور و فرائض کو احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیںاور اس کی ترقی میں ہمہ وقت کوشاں ہیں-
واضح رہے کہ حضرت معروف بابو ملازمت کے سلسلے میں جدہ میں مقیم تھے،اس لیے کارِ تولیت اور قانونی امور کی انجام دہی کے لیے اپنے برادر عزیز سید دانش علی سبز پوش کو نائب متولی نامزد کیا تھا -حضرت دانش بابو ، حضرت ہاشم بابوکی اولاد میںسب سے زیادہ چہیتے اور ان کے رازدار ہیں-اپنی پیدائش سے ۲۰۱۱ء تک یعنی ۵۳؍سال میں صرف ۱۰؍سال تعلیم کے سلسلے میں انھیںاپنے والد سے الگ رہنا ہوااور پھر ۱۹۸۴ء کے بعد سے تاحیات یعنی ۲۰۱۱ء تک والد صاحب کے ساتھ رہنے کی سعادت حاصل رہی-
بیعت و خلافت:
آپ کو بیعت و ارادت اور اجازت و خلافت دونوں اپنے والد ماجد حضرت شہود الحق سید شاہ شاہد علی سبزپوش سے حاصل تھیں- آپ کم سنی ہی میںیعنی تقریبا ً۱۰؍ یا ۱۱؍ برس کی عمر میں سلسلۂ قادریہ شمسیہ میں بیعت ہوگئے تھے-ایک لمبے عرصے تک شیخ کامل کی صحبت و خدمت میں رہ کر مراتب جلیلہ اور مناز ل رفیعہ پر فائز ہوئے -علاوہ ازیں اپنے برادر بزرگ ،والد کے جانشین اور خانقاہ رشیدیہ کے دسویں سجادہ نشیں حضرت سید شاہ مصطفی علی شہید کی صحبت و محبت بھی حاصل رہی-
آپ اپنے والدماجد کے بہت چہیتے تھے-حضرت سید دانش علی سبزپوش فرماتے ہیں:
’’ابا کی زبانی میں نے سنا ہے،وہ فرماتے تھے کہ:
’’ شاید ہی کوئی رات ایسی گزرتی ہو جس میںمَیںخواب میں اپنے والد کو نہ دیکھتا ہوں-‘‘
یہی وجہ ہے کہ حضرت شہود الحق اکثر فرمایا کرتے کہ:
’’ مصطفی تو پیروں کا محبوب ہے، لیکن ہاشم میرا محبوب ہے ‘‘
سفر حج و زیارت:
۱۹۳۷ء میں جب آپ دس برس کے ہوئے توآپ کوحج کی سعادت ملی، اس سفر مبارک میں آپ اپنے والد گرامی،بڑے بھائی حضرت شہیدمصطفی علی سبز پوش اور خاندان کے دیگر حضرات کے ساتھ تھے-
حضرت دانش علی سبزپوش فرماتے ہیں کہ:
ــ’’میرے والد اپنے حج کے سفر کا اکثر ذکر فرماتے-والد ماجد،والدہ،بھائی سیدمصطفی علی، پیر بھائی بابو رشیدخان سیوانی اور بڑی اماںکے ہمراہ کئی عدد ملازمین ساتھ تھے-حضرت مصطفی علی اور آپ نے اپنے ذاتی پیسوںسے کفن بھی اس وقت خرید لیا تھا، جس میں آپ کفنائے گئے –
ایک بار اسی حج کے دوران باران رحمت برسنے لگا توجو پانی میزابِ کعبہ سے زمین پر گر رہا تھا،اسی میںآپ نے اپنا کفن تر کر لیاتاکہ آخری وقت میںاسی کا کفن نصیب ہو-۱۰؍سال کی عمرکے یہ جذبات تھے-‘‘
بیعت و ارشاد:
اپنے پیر و مرشد سے خلافت و اجازت حاصل ہونے کے باوجود آپ بیعت و ارشاد سے اجتناب فرماتے اور اصرار کرنے پر بھی کسی کومرید نہیں کرتے-
حضرت شاہ دانش علی سبز پوش کا بیان ہے کہ:
’’ابا!اپنی پیری اورفقیری کے اظہار سے بہت بچتے تھے،اور کسی کو مرید نہیں کرتے اور میری معلومات میں ان کا کوئی خلیفہ و مجاز بھی نہیں ہے -‘‘
یہی وجہ ہے کہ آپ کے مریدین و خلفا کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے –
منصب تولیت کی پاس داری:
قدیم دستور کے مطابق خانقاہ رشیدیہ، جون پور اور اس کے ما تحت تمام خانقاہوں یعنی خانقاہ مصطفائیہ،چمنی بازار،پورنیہ ،خانقاہ طیبیہ معینیہ ،منڈواڈیہہ ،بنارس ،تکیۂ حیدری ،بمھن برہ ،سیوان ، خانقاہ علیمیہ ،غازی پورکے اخراجات وآمدات کا حساب وکتاب وقف بورڈ کی منظوری سے اب تک ہوتا چلا آرہا ہے –
دستور یہ تھاکہ خانقاہ رشیدیہ کا جو سجادہ نشین منتخب و مقررہوتا ہے و ہی اس کا متولی بھی ہوتا ہے-حضرت منظور الحق سید شاہ مصطفی علی سبز پوش شہید کے جام شہادت نوش فرمانے کے بعد جب سجادگی و تولیت کی مسند بے رونق ہوگئی توسلسلۂ رشیدیہ کے وابستگان،مریدین و معتقدین اور معززین و عمائدین نے آپ کی اہلیت و استحقاق اور زہد و تقویٰ کودیکھتے ہوئے اس اہم منصب کی ذمے داری کو آپ سے قبول کرنے کی درخواست کی؛لیکن آپ نے اس بار امانت کو اٹھا نے سے گریز کیا -جب مریدین کا شدید اصرار ہوا تو عملی طور پرکار سجادگی کو انجام دینے سے معذرت کر لی اوروقف بورڈ اور سرکاری و قانونی امور کی انجام دہی اور خانقاہی معاملات کی درستگی کے لیے صرف منصب تولیت کو سنبھالنے کے لیے راضی ہوگئے-
اس وقت علما و مشائخ رشیدیہ میں کئی قابل قدر شخصیات موجود تھیں جن میں سے بعض کو حضرت سید شاہد علی سبز پوش سے صرف خلافت و اجازت کی نعمت حاصل تھی اور بعض کو بیعت و ارادت اور خلافت و اجازت دونوں کا شرف حاصل تھا- چناں چہ بیعت و ارشاد کے امور اولاً حضرت سید شاہ شاہد علی صاحب کے خلیفہ حضرت سید شاہ ایوب ابدالی نے انجام دیے، مگر چوںکہ وہ خانقاہ ابدالیہ، اسلام پور کے بزرگ تھے ،اس لیے وہ اپنی خانقاہ کے امور رشد وہدا یت میں لگ گئے-ان کے بعدحضرت سید شاہ عبد الشکور سادات پوری، پھرحضرت حکیم شاہ لطیف الرحمن پورنوی، مولانا شاہ غلام محمد یٰسین پورنوی، مولانا شاہ غلام عبد القادر پورنوی و دیگر خلفا اس خدمت کو انجام دینے لگے – ان حضرات نے آپ کی معنوی سرپرستی اورتولیت کے زیر سایہ بیعت و ارادت اور رشد و ہدایت اور خانقاہی امورکے فرائض انجام دیے اور خانقاہ رشیدیہ کے فروغ اور اس کی تعمیر و ترقی میں قابل قدر کارناموں کوچھوڑ کر راہیِ ملک عدم ہوئے-
آپ کی شہرت باعتبار متولی کے زیادہ رہی اور عملی طور پر اس میں مصروف عمل بھی رہے اور اس میں آپ کی نمایاں خدمات بھی ہیں -آپ کے عہد تولیت میں خانقاہ رشیدیہ اور اس کے ماتحت تمام خانقاہوں اور ان سے متعلق جملہ جائدادوں کے آمدنی اور خرچ کا مکمل حساب خانقاہ میں دن اور تاریخ کے ساتھ محفوظ ہے-جو آپ کی امانت داری اور دیانت داری کی واضح ترین مثال ہے- ساتھ ہی وقف بورڈ اورخانقاہ کی طرف سے مقررہ آڈیٹر وںکی رائیں معائنہ رجسٹر میں درج ہیںجو عام و خاص مریدین سے پوشیدہ نہیں- خواہش مند حضرات چا ہیں توخانقاہ میںآکر اسے بچشم خوددیکھ سکتے ہیں تاکہ انھیںحضرت ہاشم بابو کی امانت ودیانت داری کایقینی ثبوت حاصل ہوجائے –
آپ کے عہد تولیت میںپرائیویٹ طورپر بھی خانقاہ کے حساب وکتاب کا دستور جاری کیا گیا اور اس کے لیے با قاعدہ کئی افراد پرمشتمل ایک ٹیم منتخب کی گئی جس میں باتفاق رائے مولانا سجاد احمد رشیدی، مولانا ذاکر حسین لطیفی اور ماسٹر مظفر امام صدیقی رشیدی کو شامل کیا گیا-یہ حضرات آپ کے وصال کے بعد آج بھی پابندی کے ساتھ اس خدمت کو اخلاص و دیانت داری کے ساتھ انجام دیتے چلے آرہے ہیں-
تاریخی کارنامہ:
خانقاہ رشیدیہ کی مسند سجادگی عملی طورپربرسوں خالی رہی جس کی وجہ سے رشد و ہدایت اور تعمیر و ترقی کا کام جس وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے تھا ، نہ ہو سکا-آپ نے اگرچہ سجادگی سے کنارہ کشی اختیارکر لی تھی؛لیکن فکر ضرور دامن گیر تھی کہ بزرگوں کی امانتوں اور نعمتوں کا وارث و جانشین کسے بنایاجائے اور یہ بار گراں کس کے سپرد کیا جائے-لہٰذا ایک ایسے علم و فن کے کوہ ہمالہ،اخلاق و تصوف کے نیر تاباں ،قطب الاقطاب شیخ محمد رشید عثمانی اور ان کے دس سجادگان کے علوم و معارف کے وارث وجانشین اور بے نفس و مخلص فرد کی تلاش ضرور رہی جو اس خلا کو پر کرسکے-آپ ہی کے عہد زریں میں۲۸؍ سال کے ایک طویل عرصے کے بعداپنے عہد کے نامور عالم،بالغ نظر فقیہ،فقید المثال محقق، حضرت مفتی عبید الرحمن رشیدی جیسی بلند پایہ علمی و دینی شخصیت کی شکل میں اس کی تلافی ہوئی -اس کے بعد خانقاہ رشیدیہ کی مسند سجادگی پھر سے بارو نق ہوگئی-انتخاب سجادگی کا مختصر واقعہ نذر قارئین ہے:
مریدین و معتقدین کااس امر پر سخت اصرار بڑھا کہ حضرت شہید کی شہادت کے بعد اب تک مسند سجادگی خالی ہے اور ایک طویل مدت سے ہم لوگ حضرت قطب الاقطاب شیخ محمد رشید عثمانی جون پوری عرف حضرت دیوان جی کے جانشین اور ان کی خانقاہ کے صاحب سجادہ سے محروم ہیں-آپ حضرات اس طرف ضرور اپنی توجہات کو مبذول کریں اور کسی کو سجادگی کے لیے منتخب و متعین کریں-چناں چہ آپ کافی فکر مند ہوئے اور طویل انتظاراور حالات کے شدید تقاضے بھی اس کے لیے مجبور کر رہے تھے – اس کی اطلاع آپ نے مولانا شاہ غلام محمد یٰسین رشیدی پورنوی کو دی جو رشد و ہدایت کے فرائض انجام دے رہے تھے،انھوں نے بھی اس کی شدت سے ضرورت محسوس کی-
لہٰذا انتخاب سجادگی کے لیے مرکزی خانقاہ رشیدیہ جون پورمیں ایک اجتماعی میٹنگ منعقد ہوئی، جس میں ملک کے مختلف خطوں سے علماو مشائخ رشیدیہ ، معززین وعمائدین شہر اور مریدین و معتقدین نے شرکت کی -علما و مشائخ رشیدیہ میں آپ بنفس نفیس،حضرت مولاناشاہ غلام محمد یٰسین پورنوی، حضرت مفتی عبید الرحمن رشیدی ،مولانا مودود احمد پورنوی، مولانا سید احمد شاہدی کان پوری ،مولانا سید فصیح الدین جون پوری ،مولانا عبد الرشید پورنوی،مولانا سجاد احمد رشیدی ،مولانا سید امیر علی یسٰینی رشیدی اوران کے علاوہ دیگر علما و فضلابھی تھے، جب کہ مریدین کا بھی ایک جم غفیر تھا-ان حضرات کی موجود گی میں حضرت شاہ غلام محمد یٰسین پورنوی نے اعلان فرمایا :
’’میں اپنی رائے اور صواب دید کے مطابق مفتی عبید الرحمن رشیدی صاحب کو خانقاہ رشید یہ ، جون پور کا امین اورسجادہ نشین منتخب کرتا ہوں-‘‘
اس کے بعد حضرت سید ہاشم علی سبزپوش نے بھی فوراً حضرت مولانا کے اس انتخاب کی تحسین فرمائی اور ’’میں آپ کی تائید کرتا ہوں‘‘ کے جملے کوبار بار دہراتے رہے –
اس طرح تمام حضرات کی موجودگی میں انتخاب سجادگی کا ایک عظیم مسئلہ حل ہو گیا اورپھر بھرے مجمع میں اس کا اعلان ہوا اور مجمع البحرین حضرت مفتی عبید الرحمن رشیدی دام ظلہ باتفاق رائے قطب الاقطاب حضرت شیخ محمد رشید عثمانی جون پوری کے علوم و معارف کے امین اور خانقاہ رشیدیہ،جون پور کے گیارہویں سجادہ نشیں منتخب ہوئے- حضرت مجمع البحرین نے بھی صرف اس وجہ سے قبولیتِ سجادگی کے لیے حامی بھر لی کہ ان کو خانقاہ سے بہت محبت تھی اور انھیں اپنے پیر و مرشد حضرت سید شاہ مصطفی علی سبزپوش صاحب کے بعد ایک عرصے سے جو خالی جگہ تھی ، یہ بھلی بھی نہیں لگتی تھی-اس کے بعدحضرت ہاشم بابو، حضرت مجمع البحرین کو تولیت کے گراں بار منصب بھی سپرد کر رہے تھے، لیکن انھوں نے اس کے لیے معذرت کرلی-آخر کار آپ ہی تاحیات اس منصب کے ذمہ داررہے-
خانقاہ رشیدیہ کی سجادگی اور موجودہ صاحب سجادہ کے انتخاب کے سلسلے میں دونوں بزرگو ں (حضرت شاہ غلام محمد یٰسین پورنوی اور حضرت سید ہاشم علی سبزپوش ) نے اپنے اپنے خیالات اور تاثرات بھی خطوط کے ذریعے ایک دوسرے کوبھیجے اور ان کی تحسین و آفرین کی اور اس عظیم اور تاریخی کامیابی پر شکر خداوندی بجالائے- آپ دونوں بزرگوں نے حضرت مجمع البحرین جیسی علمی وتحقیقی اور دینی و اخلاقی شخصیت کا انتخاب کر کے خانقاہ رشیدیہ کے وقارکو بلند کردیا، جن کی ذات بابرکات سے چارسو سال کی قدیم علمی و روحانی تاریخ پھر سے زندہ ہوگئی-
(جاری)