✍️ محمد شہباز عالم مصباحی
اسسٹنٹ پروفیسر سیتل کوچی کالج، کوچ بہار، مغربی بنگال
_______________________
فیروز شاہ تغلق کے آباد کردہ اور اس کے عم زاد برادر و مربی محمد بن تغلق عرف جونا شاہ کے نام سے مسمی "جون پور ” (جو اصل میں جونا پور تھا، آباد شدہ 1361ء) حالیہ واقع صوبہ اتر پردیش اگر شرقی سلطنت (1479-1394) کے زمانے میں "شیراز ہند” تھا جس میں کثیر اصحاب علم و فضل اور ارباب تصوف کی با رونق انجمنیں سجی ہوئی تھیں جن میں شیخ محمد عیسیٰ تاج چشتی، شیخ قطب الدين بینائے دل قلندر، شیخ حمزہ چشتی، مولانا الہداد محشی جون پوری، ملک العلماء قاضی شہاب الدین دولت آبادی، حضرت مخدوم رکن الدین سہروردی، ملا صدرِ جہاں اجمل، حضرت شیخ صدر الدین ثابت مداری، حضرت قاضی نصیر الدین گنبدی، حضرت ملا شیخ عبد الملک عادل، حضرت مخدوم سید نجم الدین غوث الدہر قلندر جیسی علم و تصوف کی ممتاز شخصیات کے نام قابل ذکر ہیں جن کے علمی و روحانی فیضان سے جونپور کی زمین سر سبز و شاداب تھی تو مملکت بنگالہ میں واقع "پورنیہ” (قبل مسیح سے پہلے آباد شدہ) بھی الیاس شاہی سلطنت (1487-1342ء) کے زمانے میں "سمرقند ہند” تھا جس میں مخدوم عمر علاء الحق والدین لاہوری پنڈوی، قطب عالم شیخ احمد نور الحق و الدین پنڈوی، شیخ افقہ الدین یا رفقۃ الدین پنڈوی، شیخ حافظ زاہد بندگی پنڈوی، شاہ حسین غریب دھکڑپوش، پاسبان خانقاہ علائیہ حضرت مولانا شیخ علی اور مشائخ بازپیریا جیسے اعاظم روزگار علم و تصوف کے جام لٹا رہے تھے اور اپنے قدوم میمنت لزوم سے اس سر زمین کو متبرک بنائے ہوئے تھے جس کا شہرہ چہار دانگ عالم میں تھا۔ چنانچہ سمنان (ایران) سے چل کر مخدوم سید محمد اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنی روحانی پیاس اسی خطے میں آکر بجھائی تھی۔ طوطیٔ ہند امیر خسرو کی میزبانی کا شرف بھی اس خطے کو حاصل رہا تھا جو کیقباد کے ساتھ دلی سے ایک جنگی قافلے میں یہاں آئے تھے اور اپنی مشہور و معروف کتاب ” قران السعدین” کو یہیں ترتیب دیا تھا، جب کہ حافظ شیرازی کو یہاں آنے کی دعوت دی گئی تھی، اور وہ یہاں آنے کے ارادے سے نکل بھی چکے تھے، مگر جب وہ دریائے سندھ کے کنارے پہنچے، دریا کی طغیانی دیکھ کر شیراز واپس چلے گئے اور وہاں سے ایک غزل لکھ کر بھیجی۔ اس غزل کے درج ذیل شعر نے ہندستان بھر میں دھوم مچا دی تھی
شکر شکن شوند ہمہ طوطیانِ ہند
زیں قند پارسی کہ بہ بنگالہ می رود
حضرت دیوان جی شیخ محمد رشید جونپوری نے بھی بنگالہ بشمول پورنیہ کی عظمت پر ایک شعر کہا ہے:
چوں یار بہ بنگالہ کند مسکن و ماوی
شمسی بہ بدخشاں نرود لعل بہ بنگ است
واضح رہے کہ قدیم پورنیہ، رقبہ کے اعتبار سے موجودہ پورنیہ سے کافی وسیع و عریض تھا۔ اس کی وسعت کی وجہ سے ہی اسے ملک پورنیہ اور کبھی سرکار پورنیہ کہا گیا ہے۔ صاحب ریاض السلاطین غلام حسین سلیم زید پوری لکھتے ہیں: از گندہ گولہ و لبِ گنگ تا مورنگ دہ روزہ راہ ملک وسیع پورنیہ است (ریاض السلاطین، ص: 45)۔ کاڑھا گولہ اور گنگا کے کنارے کنارے سے مورنگ تک دس روز کی مسافت پر پھیلا ہوا ملک پورنیہ ہے۔ فرانسس بکانن کے مطابق ضلع پورنیہ سرکار تاج پور،جنت آباد (یعنی گور)، اورمبر (واقع صوبہ بنگالہ) اور سرکار مونگیر (واقع صوبہ بہار) کے کچھ حصوں پر مشتمل تھا۔ یہ 6340 مربع میل پر محیط تھا۔ (An Account of the District of Purnea, Francis Buchanan, P. 57, Patna)۔
اسی لئے میں نے موجودہ مغربی بنگال کے علاقہ مالدہ کے بعض اساطین علم و فضل کو پورنیہ سے منسلک شمار کیا ہے جو کہ بکانن کے مطابق قدیم پورنیہ ہی کا حصہ تھا۔ دیناج پور، کٹیہار، ارریہ اور کشن گنج بھی اسی پورنیہ کے حدود میں شامل تھے۔
جون پور اور پورنیہ کا باہمی روحانی و علمی تعلق:
شرقی سلطنت (جون پور) اور الیاس شاہی سلطنت (بنگالہ) کی سرحدیں سمت مشرق میں چونکہ آپس میں ملتی تھیں اس لئے دونوں مسلم سلطنتوں کے علما، فضلا اور صوفیا کا باہمی تعلق و رابطہ ضرور رہا ہوگا، لیکن جون پور اور پورنیہ کا باہمی علمی و روحانی تعلق تاریخی طور پر شرقی سلطنت اور الیاس شاہی سلطنت کے زوال کے تقریباً 100 سال کے بعد سلسلۂ عالیہ رشیدیہ جون پور کے بانی قطب الاقطاب شیخ محمد رشید جونپوری (مصنف مناظرۂ رشیدیہ) کے والد بزرگوار شیخ جمال الحق محمد مصطفی بندگی عثمانی جون پوری ثم پورنوی کے توسط سے مکمل مبرہن ہے۔
قراٸن سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ جمال الحق محمد مصطفیٰ کی ولادت دسویں صدی ہجری کی ساتویں یا آٹھویں دہاٸی میں (تقریباً 1565ء میں) بمقام سکلاٸی، پرگنہ امیٹھی، ضلع بارہ بنکی میں شیخ عبد الحمید کے گھر میں ہوٸی۔ حضرت شیخ عبد الحمید اپنے وقت کے ایک برگزیدہ ولی کامل اور باتصرف بزرگ گزرے ہیں اور صاحب سمات الاخیار معروف بہ تذکرۂ مشاٸخ رشیدیہ (از عبد المجید کاتب رشیدی) کے مطابق آپ حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے مرید وخلیفہ تھے۔
حضرت شیخ جمال الحق بندگی کی جون پور تشریف آوری اور عقد نکاح :
آپ رحمة اللہ علیہ سکلاٸی سے برونہ واقع جون پور تشریف لاٸے اور علوم وفنون متداولہ کی تحصیل سے فراغت کے بعد شیخ محمد نور صدیقی برونوی کی صاحبزادی سے نکاح کیا۔ اس کے بعد برونہ، جون پور میں کچھ دنوں تک اقامت اختیار کی۔
حضرت شیخ جمال الحق کی پنڈوہ اور پورنیہ میں آمد:
نکاح کرکے برونہ، جون پور میں کچھ دنوں کی اقامت کے بعد آپ نے سب کو برونہ میں چھوڑ کر حضرت پنڈوہ (موجودہ واقع ضلع مالدہ، صوبہ مغربی بنگال) کی راہ لی اور حضرت مخدوم نور قطب عالم پنڈوی رحمة اللہ علیہ کے روحانی اشارہ اور حکم کے مطابق پھر وہاں سے شہر پورنیہ تشریف لاٸے اور پورنیہ میں چمنی بازار کی غیر آباد سرزمین کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے شرف بخشا اور یہاں خانقاہ عالیہ مصطفائیہ قائم کرکے خلق خدا کی رشد و ہدایت میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ آپ کی اولاد امجاد میں سے شیخ محمد سعید جون پوری، شیخ محمد رشید جونپوری، شیخ محمد ولید جونپوری اور شیخ قمر الحق غلام رشید عثمانی جون پوری وغیرہم کا پورنیہ سے نہایت گہرا تعلق رہا جو تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے۔
وصال مبارک:
آپ نے بیسویں ذی الحجہ کی نماز فجر کے بعد وصال فرمایا اور محلہ مصطفی باغ، چمنی بازار، پورنیہ میں مدفون ہوٸے ۔ آپ کا سالِ وفات باوجود تفحص و تلاش بسیار کے معلوم نہ ہوسکا ۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے منجھلے صاحبزادے شیخ محمد رشید مصطفی عثمانی جونپوری (بانی سلسلۂ رشیدیہ و صاحب مناظرہ رشیدیہ) جب اپنے والد بزرگوار کی زیارت کی غرض سے پورنیہ تشریف لاٸے تو چاہا کہ نعش مبارک کو جون پور لے جائیں، مگر الٰہ یار خاں کے لڑکوں نے عرض کی کہ ہم لوگوں کی ہستی اسی ذات پاک کی بدولت ہے ۔ لہذا ان لوگوں کا التماس قبول کیا اوران عقیدت کیشوں کی خواہش اور عقیدت کا احترام کرتے ہوٸےاپنے ارادہ کو ملتوی فردیا اور واپس جون پور تشریف لے گئے۔
مولانا محمد شہروز رشیدی مصباحی پورنوی کے بقول:
ہمارے پورنیہ قدیم (بشمول اتردیناج پور) میں آپ ہی وہ صوفی ہیں جن کے قدموں کی برکت سے بہار میں خاص طور سے خطۂ سیمانچل میں علم دین کی روشنی پھیلی اور لوگوں میں پابندیِ شریعت کا ذوق پیدا ہوا۔ آپ علم و فضل کے اعلی ترین مراتب پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ زہد و تقوی اور معرفتِ الہی کے عظیم مراتب کے بھی حامل تھے۔ ان گوناگوں خصوصیات و کمالات کو پیش نظر رکھ کر بجا طور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ :
خورشید و فلک چکر کھاتے ہیں بہم برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے
مذکورہ بالا دونوں قدیم تہذیب و ثقافت کے اس تعارف اور وہاں کے علما و صوفیا کے ذکر سے مقصد یہ ہے کہ مقصود الذکر شخصیت مجمع البحرین حضرت مفتی عبید الرحمن پورنوی رشیدی زیب سجادہ خانقاہ عالیہ رشیدیہ جونپور علیہ سحائب الرحمۃ ان دونوں شاہ کار تہذیب و ثقافت کے مرقع جمیل و امتزاج حسین، اپنے جون پوری و پورنوی مشائخ ذوی الاحترام کی روایات و امتیازات دیرینہ کے عظیم امین و علمبردار اور بالخصوص آخر الذکر تہذیب یعنی پورنیہ کی آخری یادگار اور اُس مملکت علم و فضل کے آخری تاج دار تھے۔ اور آپ ان دونوں ثقافتوں کے پیکر جمیل کیوں کر نہ ہوتے کہ آپ پیدائشی طور پر پورنوی تھے تو ارادت و سجادگی کے لحاظ سے جون پوری اور چشم فلک نے دیکھا کہ آپ نے واقعی اپنی حیات زریں میں اپنے اعمال و کردار سے جون پور اور پورنیہ کے قدیم اسلاف کی یاد تازہ کردی اور نمونہ و یادگارِ اسلاف بن کر بتاریخ 11 رمضان المبارک 1445ھ مطابق 22 مارچ 2024ء بروز جمعہ مبارکہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔