بچوں کو آغاز ہی سے محنت کا عادی بنانا چاہیے
✍️ محمد قمر الزماں ندوی
______________________
پروفیسر اسٹیوارٹ کا انتقال 103/ سال کی عمر میں کیلیفورنیا میں ہوا، یہ اور ان کی بیگم دونوں پچاس سال راولپنڈی میں پڑھاتے رہے۔
پروفیسر اسٹیوارٹ نے 1960ء میں اپنی الوداعی تقریر میں اس خطے کے بارے میں بڑی خوب صورت بات کی، اس کا کہنا تھا پاکستانی ایک ناکارہ اور مفلوج قوم ہیں ،اس کا کہنا تھا: اس قوم کو اس کی مائیں نکما بناتی ہیں، یہ اپنے بچوں کا ہرکام خود کرتی ہیں، ان کے کپڑے دھوتی ہیں، استری کرتی ہیں، بچوں کے جوتے پالش کرکے دیتی ہیں، لنچ باکس تیار کرکے بچوں کے بستوں میں رکھتی ہیں اور واپسی پر لنچ باکسز کو نکال کر دھو کر خشک بھی خود کرتی ہیں۔
بچوں کی کتابیں اور بستے بھی مائیں صاف کرتی ہیں اور ان کے بستر بھی خود لگاتی ہیں، چنائچہ بچے ناکارہ اور سست ہو جاتے ہیں ایسے بچے پانی کے گلاس کے لیے بھی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو آواز لگادیتے ہیں یا ماں کو اونچی آواز میں کہتے ہیں امی پانی تو دے دو،! پاکستانی سست و کاہل بچے اس کلچر کے ساتھ جوان ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جو لوگ ایسے ماحول میں پل بڑھ کر جوان ہوتے ہیں کیا وہ ناکارہ اور مفلوج نہیں ہوں گے؟
بقول پروفیسر اسٹیوارٹ: اگر تم لوگوں نے واقعی قوم بننا ہے، تو پھر تمہیں اپنے بچوں کو شروع دن سے اپنا کام خود کرنے اور دوسروں بالخصوص والدین کی مدد کرنے کی عادت ڈالنا ہوگی تاکہ تمہارے بچے جوانی تک پہنچ کر خود مختار بھی ہو اور ذمے دار بھی،
بحثیت والدین آپ خود فیصلہ کریں جو بچہ خود اٹھ کر پانی کا گلاس نہیں لے سکتا ،وہ کل قوم کی ذمے داری تو دور اپنی زمہ داریاں کیسے اٹھائے گا ؟۔
______________________
مذکورہ تجزیہ بالکل حقیقت پسندانہ تجزیہ نہیں ہے ، اس میں بہت غلو اور مبالغہ سے کام لیا گیا ہے ۔ بچے کو یقینا چاق و چوبند بنانا چاہیے، اس کے اندر نشاط ، چستی، اور حرکت عمل لانے کے لیے بچپن سے ہی انہیں مشقت اور جہد و جہد کا عادی بنانا چاہیے ، لیکن ایک عمر ایسی ہوتی ہے ،جہاں بچے اپنے کام کو خود انجام نہیں دے سکتے، وہ خود اسکول کے لئے تیار نہیں ہوسکتے ، وہ بستر نہیں لگا سکتے، وہ جوتے صاف نہیں کرسکتے ،،ان کاموں میں والدین اور بڑے بھائی بہنوں کے تعاون اور مدد کی ضرورت پڑتی ہے ، اور جب بچے باشعور ہو جاتے ہیں اور وہ طفل مکتب کے دور سے نکل کر آگے سکنڈری اور ثانویہ کے قریب یا اس سے آگے پہنچتے ہیں ،تو والدین خود بخود انہیں کچھ کام سپرد کرنے لگتے ہیں اور محنت و مشقت کے عادی بنانے لگتے ہیں۔ ممکن ہے کہ پروفیسر صاحب نے کچھ خوشحال گھرانے کی تصویر کو دیکھ کر پورے ملک کو اس پر قیاس کرلیا ہو ۔
جس کمی اور کمزوری کا اظہار پروفیسر صاحب نے پڑوسی ملک کے بارے میں کیا ہے ،اس طرح کی کمیاں تقریباً ہر ملک اور سماج و سوسائٹی میں کچھ نہ کچھ پائی جاتی ہے ، یقینا اس کی طرف توجہ ہونی چاہیے اور کمی کو دور کرنا چاہیے۔۔۔
اسلام تو بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں سب سے زیادہ حساس واقع ہوا ہے ۔ اسلام میں بچوں کی دینی تربیت ،اخلاقی تربیت ،جسمانی تربیت ،ذہنی تربیت اور جنسی تربیت کا پورا نظام اور سسٹم موجود ہے ،جس کی نظیر کسی اور مذہب میں نہیں ہے ۔
جسمانی تربیت کے سلسلہ میں اسلام کا واضح تصور یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس روئے زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا اور خلافت کے اس بار گراں اور عظیم ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے اس کو ایک مضبوط توانا اور سڈول جسم عطا فرمایا تاکہ وہ ان ذمہ داریوں کو بحسن خوبی انجام دے سکے ۔
انسانی زندگی میں صحت و تندرستی کیا گیا مقام ہے ؟ اس کا اندازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،، طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر ہے ،،۔
یہ حقیقت ہے کہ انسان کو جو صلاحتیں قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی ہیں ، ان میں سے مکمل اور بھر پور فائدہ اسی وقت اٹھایا جاسکتا ہے ،جب اس کا جسم تندرست و توانا ہو، مشہور کہاوت ہے تندرستی ہزار نعمت ہے۔
بہر حال اگر یہ کمیاں ہیں اور تربیت میں یہ خامیاں ہیں ،تو اس کا ازالہ ہونا چاہیے اور جس قوم کے بارے میں یہ تبصرہ کیا گیا ہے ،اس کو تو کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہونا چاہیے اور اپنی قوم میں فعالیت پیدا کرکے اس الزام کا دفاع کرنا چاہیے۔