حضرت مولانا محمد یوسف خاں میرٹھی کی رحلت
✍️ محمد خالد حسین نیموی قاسمی
صدر جمعیت علماء بیگوسرائے
______________________
جو بادہ کش تھے پُرانے، وہ اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی
ابھی یہ جانکاہ خبر شوشل میڈیا کے ذریعہ موصول ہوئی کہ یادگار اکابر ہمارے مشفق حضرت مولانا یوسف خان میرٹھی اللہ کو پیارے ہو گئے. للہ مااخذ ولہ ما اعطی وکلا شیئ عندہ بمقدار
مولانا محمدیوسف خا ں قاسمی کا سانحہ ارتحال ذاتی طور پر میرے لیے گہرے رنج و الم کا سبب ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا موصوف ہمارے مربی ماموں جان وخسر محترم مشفق ملت حضرت مولانا محمد شفیق عالم قاسمی نوراللہ مرقدہ بانی وصدر جامعہ رشیدیہ جامع مسجد بیگوسرائے کے رفیق درس اور ہم پیالہ وہمنوالہ تھے، بچپن سے ہی حضرت ماموں جان کی زبانی مولانا یوسف خان میرٹھی کا نام عام طور پر سنا کرتا تھا.
موصوف دارالعلوم دیوبند کے قدیم فاضل تھے ۔حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی اور حضرت فخرالمحدثین شیخ فخر الدین مرادآبادی کے تلامذہ میں سے تھے.
آبائی وطن فرید پور میرٹھ یوپی تھا ، ان کی عمر تقریبا ۸۰ سال تھی ۔
دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کے کچھ عرصہ بعد انڈین آرمی سے وابستہ ہوگئے تھے، آرمی میں نائب صوبہ دار اور امامت کی ذمہ داری پر مامور تھے ۔ سبکدوش ہونے کے بعد دفتر جمعیۃ علماءہند سے وابستہ ہوئے، جہاں وہ ناظم محاسبی اور ناظم دفتر جمعیۃ علماء ہند مقرر ہوئے ۔ اپنی شرافت طبع ،اصول پسندی، سادگی اور ایمانداری میں شہرت رکھتے تھے.
ہمارے حضرت مشفقِ ملت کے رفیق درس تھے، عہد طالب علمی سے ہی دونوں میں بڑی بے تکلفی ، دونوں بے تکلف یار غار تھے، تین یاروں کا ایک مثلث ہوا کرتا تھا جس کے تیسرے پیلڑ حضرت مولانا سید قاری محمد عثمان منصور پوری ہوا کرتے تھے. آہ کہ اس مثلث کے تینوں زاویے بالترتیب رفیق اعلیٰ سے جاملے. پہلے حضرت منصورپوری، پھر حضرت مشفقِ ملت اور اب مولانا یوسف خان.
حضرت مشفقِ ملت کا جب مجاہد ملت سیمینار میں شرکت کے لیے دہلی کا سفر ہوا تو دونوں کے مابین گرمجوش محبت اخلاص اور بے تکلفی کا بخوبی مشاہدہ کیا. ماموں جان علیہ الرحمہ کی نسبت سے اس عاجز سے بھی بڑی محبت رکھتے تھے،جب کبھی یہ عاجز جمعیت علماء کے دفتر میں حاضر ہوا، عزیز قریب کی طرح شفقتیں پیش کیں. بلکہ کئی بار عطر وغیرہ کا تحفہ بھی پیش کیا…
اس عاجز کو جب صدر جمہوریہ ایوارڈ سے نوازا گیا تو انہوں نے باصرار جمعیت علماء ہند کے دفتر میں مدعو کیا اور ایک مختصر تقریب منعقد کرکے عزت افزائی فرمائی.
کہتے تھے کہ تم ہمارے علامہ کے داماد ہو، گویا میرے بھی داماد ہو. محبت میں مولانا یوسف خان ہمارے حضرت کو” علامہ” سے مخاطب کیا کرتے تھے. اللہ تعالیٰ تینوں بزرگوں کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین
جب مولانا یوسف خان دفتر جمعیت علماء سے وابستہ ہوئے تو آپ نے مولانا شفیق عالم قاسمی کو ایک طویل خط لکھا جس کے حرف حرف سے محبت، خلوص، قدر دانی اور بے تکلفی ہویدا ہے .(یہ خط بندہ کے پاس محفوظ ہے)
اس کے بعد فون پر طویل گفتگو بھی کیا کرتے تھے، اس میں قاری عثمان منصور پوری،مولانا احسان اللہ بنگلوری،مولانا شمش تبریز آروی ،مولانا حکیم مودود اشرف، مولانا عتیق الرحمن آروی وغیرہ کا عام طور پر تذکرہ ہوا کرتا. جمعیت علماء ہند اور دارالعلوم دیوبند کے احوال بھی گفتگو آتے.
جب حضرت قاری عثمان صاحب نوراللہ مرقدہ کے وصال پر الجمعیۃ نے ضخیم معیاری امیر الہند نمبر شائع کیا تو بڑے اہتمام کے ساتھ اپنے دوست مولانا شفیق عالم قاسمی اور اس عاجز کو اس کا ایک ایک نسخہ رجسٹرڈ ڈاک سے ارسال کیا.. اور فون کرکے بتایا کہ اس خاص نمبر میں آپ کے داماد مفتی خالد کا مضمون بھی شامل ہے، جو بہت اچھا مضمون ہے.
جمعیۃ علماء ہند کے دفتر میں انھوں نے طویل عرصے تک ایمانداری او ر اصول پسندی کے ساتھ ملازمت کی۔اخیر عمر میں مختلف عوارض امراض کے شکار رہا کرتے تھے. آج دہلی کے اسکوٹ ہسپتال نئی دہلی میں علالت کے بعد وصال فرمانے کی خبر ملی تو پرانی تمام یادیں افکار کے کینوس پر مرتعش ہونے لگیں، جن میں سے بعض یادوں کو سپرد قلم کیا گیا ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے ( آمین )