فلموں میں اسلاموفوبیا: ایک تجزیہ

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی

✍️ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی

__________________

یہ کہا جاتا ہے کہ فلمیں سماج کی  آئینہ دار اور عکاس ہوتی ہیں ،یا سماجی بقائے باہم کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ بلاشبہ ایسی بہت ساری فلمیں ہیں جو اپنے موضوعات اور عناوین کے اعتبار سے سماج کو مثبت پیغام دیتی ہیں ۔ منفی سوچ اور منفی کردار و عمل سے عوام کو روکتی ہیں ۔ فلموں کا اپنا انداز اور بیان ہوتا ہے ، منفرد لب و لہجہ ہوتا ہے ،اسی مخصوص انداز میں وہ سماج کواچھا یا برا پیغام دیتی ہیں ۔ علاوہ ازیں فلموں میں اُردو ادب پر خاصا کام ہوا ہے، یہ کہا جاسکتا کہ اُردو زبان و ادب کے فروغ میں فلموں کا خاصا کردار ہے ۔اس کی شہادت یہ ہے کہ اُردو کا مؤقر روزنامہ اور اردو اخبارات میں صف اول کا یومیہ جریدہ ” انقلاب” میں باضابطہ ایک کالم ” فلموں میں اُردو ادب”  کے نام سے شائع ہوتا ہے ۔ اسی  طرح ایسی بہت ساری فلمیں تیار کی گئی ہیں جن میں اعلی معیار کی اُردو بولی گئی ہے جیسے "مغل اعظم” وغیرہ وغیرہ ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن فلموں کے توسل سے سماج میں پائی جانے والے منفی افکار و نظریات یا سماجی عدم مساوات یا اور کوئی برائی کو دکھایا جاتا تھا تاکہ سماج سے وہ برائیاں معدوم ہوسکیں آج انہیں فلموں اور پردے کے توسط سے معاشرے میں انتشار و افتراق اور نفرت و عداوت کو پروان چڑھانے کا کام کیا جارہاہے ۔ فلموں کا جانبدار کردار کوئی نیا نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ معاشرتی یکجہتی کو  کمزور کرنے کے لیے اب تک بہت ساری فلمیں بنائی جاچکی ہیں ۔ ایک فلم "انڈین ” کے  نام سے بنائی گئی ہے اس میں اس نظریہ کو فروغ دیا گیا ہے کہ سب مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتے ہیں ،البتہ ہر دہشت گرد مسلمان ہوتا ہے ۔ حب الوطنی کے موضوع پر بہت ساری فلموں میں بتایا گیا ہے کہ مسلمان وطن سے وفادار یا مخلص نہیں ہوتا ہے ۔ فلموں میں مسلم  مذہبی نمائندگی کے لیے  عمدا ایسے شخص کو کاسٹ کیا جاتا ہے جو مذہب و دین سے پوری طرح ناواقف ہوتا ہے ۔ لیکن عوام اس فلم کو دیکھ کر، اسے مذہب کا صحیح ترجمان سمجھتی ہے اور جو اول فول وہ شخص پردہ پر کہتا ہے فلم بیں  اسے حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ یہ ایک کھیل ہے جو جان بوجھ کر فلموں میں مسلمانوں کی تضحیک و تذلیل کے لیے کھیلا جاتا ہے ۔ اس لیے اس کھیل کو ہی نہیں سمجھنا ہے بلکہ ہمیں اس کے پس پردہ جو عزائم ہیں انہیں بھی پوری طرح جاننا ہوگا اور عوام کو ایسی فلموں سے متنبہ کرنا ہوگا جو اس طرح کی سوچ ،یا کسی طبقہ کی تذلیل پر مشتمل ہیں۔ فلموں کو سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی کیا جارہا ہے ۔ ادب و آرٹ جب سیاسی جماعتوں کے زیر سایہ فروغ پایا جانے لگے تو اس میں کام کرنے والے ادارے پوری طرح خود کو سپرد کردیتے ہیں اور جو ان کے آقا کہتے ہیں وہ اسی کے مطابق اپنی صلاحیتوں اور ادب و آرٹ کو ترتیب دیتے ہیں ۔ فلموں میں مسلمانوں کے خلاف کام کرنے یا اسلامو فوبیا کو فروغ دینے کا شاندار مرکز و محور سمجھا جا رہا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے ایک فنکار اپنے فن کو محض چند ٹکوں کی خاطر یا اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے فروخت کررہا ہے ۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ اپنے اس عمل پر اسے کوئی شرمندگی اور ندامت تک نہیں ہے ۔ گزشتہ برسوں میں کئی ایسی فلمیں تیار کی گئیں جن کی کہانی سراسر مسلمانوں کے خلاف ہے ” بہتر  حوریں” "دی کیرالہ اسٹوری” ” کشمیر فائلس” اور اب ایک اور فلم بنائی گئی ہے جس کا نام ” ہم دو ہمارے بارہ” رکھا گیا ۔ اس فلم کے نام سے ہی ظاہر ہورہا ہے کہ فلم منفی پروپیگنڈے اور سیاسی  مقصد کی تکمیل کے لیے تیار کی گئی ہے۔  اس فلم کے بارے میں دانشوروں اور ماہرین کی آراء کو سمجھنا ضروری ہے چنانچہ ماہر قانون پروفیسر طاہر محمود نے کہا ہے:
ہمارے بارہ کے عنوان سے بننے والی فلم میں قرآنی  آیات اور حدیث کی بدترین بے حرمتی کی گئی ہے۔ کلام پاک کی جس آیت کریمہ سے اس فلم کی ابتدا ہوتی ہے اس کا تعلق زوجین کے جسمانی تعلقات کے شرعی آداب سے ہے۔ فلم میں اس کے صرف چند ابتدائی الفاظ کو بڑے جارحانہ انداز میں پڑھا گیا ہے اور باقی الفاظ کو یکسر حذف کر دیا گیا ہے جو کہ لوگوں کو اس معاملے میں اعتدال برتنے اور اس کے لیے بارگاہ الہی میں جواب دے ہونے سے آگاہ کرتے ہیں۔
پوری فلم ہر لحاظ سے دانستہ شرارت اور کھلی بدنیتی کی غمازی کرتی ہے۔ اس فلم کے بانی اور کردار ملکی قانون جرائم کے تحت مذہبی جذبات مجروح کرنے کے مجرم اور اس کے لیے لائق تعزیر ہیں ، جس کے لیے ضابطہ کی کاروائی کی جا سکتی ہے اور کی جانی چاہیے”
معروف اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے:
” پچھلے  دس سال سے مسلمانوں کو خاص طور پر ہر محاذ پر نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور اس میں علمی، فلمی اور عملی طور پر ہرزہ سرائی اور ہر طرح کی بددیانتی کا کھلم کھلنا استعمال ہوا ہے۔ کشمیر فائلس ہو، یا کیرالہ اسٹوری یا پھر "اب ہمارے بارہ” جیسی فلمیں بنا کر مسلمانوں کے بارے میں غیر حقیقی اور من گھڑت تصویر پیش کی گئی ہے اور اس کا مقصد ایک پوری کمیونٹی کو بدنام کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
سوال یہ ہے کہ ہندوستان کی وزارت داخلہ یا حکومت ہند کی آبادی سے متعلق جو سرکاری  ایجنسی ہے اس نے کب یہ بتایا کہ مسلمانوں کے کب اور کہاں یہ شرح پیدائش ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ "ہمارے بارہ” جیسی فلمیں بنا کر اسلام کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے”
بالی ووڈ فلموں میں اب جس طرح کی سوچ اور جو واقعات دکھائے جارہے ہیں ان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ فلمیں اب اسلامو فوبیا کو فروغ دے رہی ہیں ۔ "ہمارے بارہ ” نامی فلم بھی اسی ذہنیت اور اسلام دشمنی کی واضح علامت ہے ۔ جب کہ ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں ایسی بھی فلمیں بنی ہیں جنہوں نے ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں مذہبی رواداری اور قومی و ملی یکجہتی کو فروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ لیکن نفرت آمیز فلموں سے سستی شہرت اور پیسہ تو کمایا جا سکتا ہے مگر ہندوستانی سماج  دو لخت ہورہا ہے؛ اس پر بڑی سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ یہ بھی واضح رہے کہ صرف ہماری قومی یکجہتی مجروح نہیں ہورہی ہے بلکہ دانستہ طور پر مسلم کمیونٹی کی دل آزاری بھی کی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں جب ہم ہالی ووڈ کی فلموں کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں اور زیادہ اسلاموفوبیا کو دکھایا جاتا ہے ۔
سچائی یہ ہے کہ ہالی وڈ کی فلموں میں مسلمانوں کے بارے میں دیرینہ اور گھسے پٹے دقیانوسی خیالات اور بعد ازاں نائن الیون کے واقعات کی کوریج دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے حالیہ رحجان میں تیز رفتار اضافے کا باعث بنی ہے۔ نائن الیون کے بیس سال بعد مسلمانوں کے خلاف منافرت کی تمام حدود پار کر چکی ہے۔
اسلاموفوبیا کی سوچ نے مغرب میں اورسیکولر ممالک میں خطرناک صورت حال اختیار کر رکھی ہے۔ اس حوالے سے بعض مغربی میڈیا نے بھی نامناسب کردار ادا کیا اور اپنے معاشرے کو اسلام کی ایک غلط اور خوفناک تصویر بنا کر پیش کیا ہے۔
نائن الیون کے بعد اکثر مغربی اخبارات میں اس قسم کی خبریں اور تجزیے شائع ہوتے رہے ہیں جن میں مسلمانوں کو عالمی معاشرے میں انتہا پسند و تشدد پسندی اور تناؤ کا سبب قرار دیا گیا ہے اور یہ سب بعض عناصر کی کم عقلی اور عالمی سطح پر متعصب اور منظم منصوبہ کا شاخسانہ ہے اس  وقت فلموں میں اسلاموفوبیا کے حوالے سے جو مناظر سامنے آرہے ہیں وہ یقینی طور پر ہمارے معاشرے کو نفرت کا شکار کررہے ہیں ۔
فلمیں ہالی ووڈ کی ہوں یا پھر بالی ووڈ کی اب ان فلموں کے ذریعے سے مسلمانوں اور اسلام کی جو تصویر پیش کی جاتی ہے اس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے ۔ جان بوجھ کر ایسی کہانیاں ترتیب دی جاتی ہیں جن سے مسلم کمیونٹی بدنام ہوسکے اور مذہب اسلام کو مسخ کیا جاسکے ۔
یہاں یہ بات بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے واعظین  ہیں  جو قرآن و حدیث کو بغیر سمجھے مقبولیت حاصل کرنے کے لیے بیان کردیتے ہیں ۔
پھر ان کی بیان کی ہوئی باتوں کو دشمن اچک لیتے ہیں اور پھر عوام کو برگشتہ کرنے کا انہیں سنہرا موقع مل جاتاہے ۔ اس لیے مذہب اسلام کی بابت کوئی بات نقل کرنے یا بیان کرنے سے قبل اس کی تحقیق و تفتیش کرنی ضروری ہے ۔ مذہبی جلسوں اور کانفرنسوں میں ایسے واعظین کو ہرگز دعوت نہ دیں جن کا مزاج جارحانہ ہے یا ان کی سوچ میں کسی بھی طرح سے تنگی پائی جاتی ہے ۔

Exit mobile version