مسلمانوں سے اتنی نفرت کیوں ؟!
✍️غالب شمس قاسمی
___________________
ہندوستانی سیاسی منظرنامہ گزشتہ ایک دہائی سے نفرت، ڈر، آئینی اداروں کی جانب داری ، اور ذرائع ابلاغ کی یکطرفہ حمایت کی وجہ سے پراگندہ ہوچکا تھا، صحت مند ترقی پذیر معاشرہ مرد بیمار بن گیا تھا، لیکن اب ملک کا سیاسی منظرنامہ کافی تبدیل ہو چکا ہے، نفرت، اور مخالفت، مسلمان اور مٹن کی سیاست نے دم توڑ دیا، حکمراں جماعت کا غرور خاک میں مل گیا، جب وہ چار سو پار کے بجائے ڈھائی سو پار بھی نہیں کر سکی، رام کو لانے کا دعویٰ کرنے والے رام کی نگری میں ہی مردود قرار پائے،حالیہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج نے ان تمام لوگوں کو حوصلہ مند کردیا، جو گزشتہ ایک دہائی کی جذباتی اور اشتعال انگیز سیاست سے ناامید ہوچلے تھے، تانا شاہ اب تانے بانے بن رہا ہے، نظریاتی طور پر شدید مخالف جماعتوں کے سہارے بی جے پی لگاتار تیسری بار اقتدار پر قابض ہو چکی ہے, قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی حکومت بننے کے باوجود ملک میں جس طرح کی فضا بنی ہے، کہ
اب امید ہے کہ مثبت تبدیلی کی خوشگوار ہوا موسم بہار کی نوید ثابت ہوگی، دراصل ہندوستانی ثقافت میں گنگا جمنی تہذیب کی اہمیت مسلم ہے، ملک میں قائم تہذیبی و ثقافتی توازن کو بگاڑنا نا ممکن سا ہے، ذرائع ابلاغ کے ذریعے پھیلایا جا رہا پروپیگنڈہ ناکام ہوگیا، قومی ذرائع ابلاغ بنام گودی میڈیا نے اب عوامی مسائل پر گفتگو شروع کردی۔اور اب تو ملک میں ایک نیا سیاسی بیانیہ متعارف و مقبول ہورہا ہے، جس میں نفرت کے بجائے محبت کی خوشبو ہے، ملک و قوم کی ترقی و فلاح کا جذبہ ہے، زمینی حقائق سے آگاہی ہے، پسماندہ طبقات کی مجموعی ترجمانی ہے۔
ان حالات میں خوش ہونا فطری امر ہے، لیکن اسی پر مطمئن ہو جانا مناسب نہیں، کئی دہائی کی محنت سے نفرتی سیاست نے زمین ہموار کی تھی، دلوں کو مسخر کیا تھا، اتنی آسانی سے وہ ختم ہونے والی نہیں ہے، اس نفرت میں دراصل مسلمانوں کی جانب سے لاحق خطرات کا خوف شامل ہے، اکثریتی طبقہ کے معدوم ہونے، اور مسلمانوں کے غلبہ کا جھوٹا نیریٹو ان کے ذہن و دماغ پر قائم ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں اکثریتی طبقہ متضاد افکار و نظریات سے متاثر نظر آتا ہے، اس میں وہ احساس کمتری بھی شامل ہے، کہ ان کے آباء و اجداد نے ہزاروں سال اس ملک پر حکمرانی کی، لیکن ان کی کوئی قابل ذکر یادگار باقی نہیں ، جب کہ ہندوستان کے طول و عرض میں تمام قابل ذکر پرانے شہروں میں مسلم عہد حکومت کی یادگار اپنے شاندار ماضی کی گواہ ہے، مسلم دور حکومت میں مسلمانوں کی عیاشی کے انہیں اتنے قصے سنائے گئے کہ ان کی فکر میں یہ بات شامل ہوگئی ہے کہ مسلم دور حکومت میں ہندو غربت اور افلاس میں جی رہا تھا، ظلم و زیادتی کا شکار تھا، مذہبی فرائض کی انجام دہی پر پابندی تھی، ان کی عبادت گاہیں غیر محفوظ تھیں، نتیجہ کے طور پر موجودہ مسلم آبادی اور ان کی ذرا سی بھی ترقی سے وہ گھبر ا جاتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مغل سلطنت آج کی جمہوریت سے کئی گنا زیادہ لبرل، آزاد خیال اور فراخ دل تھی، اکثریتی طبقہ بھول جاتا ہے کہ موجودہ ہندوستانی مسلمان آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی فرائض انجام دینے سے بھی گھبرا رہا ہے ۔ قومی ذرائع ابلاغ نے انہیں کبھی بتایا ہی نہیں کہ اب بھی مسلمانوں میں شرح خواندگی نچلی سطح پر ہے، اب بھی زیادہ تر مسلم آبادی خط افلاس سے نیچے کی زندگی بسر کر رہی ہے، سرکاری اداروں اور آئینی عہدوں پر مسلم تقرریاں برائے نام ہے، بلکہ معدوم و عنقا ہے، حج کمیٹی اور دیگر اقلیتی ادارے مفلوج ہو چکے ہیں، بلکہ زیادہ تر تعطل کا شکار ہیں، جہاں مسلمانوں کے بجائے اقتدار کی چاپلوسی کرنے والے بحال کیے جاتے ہیں، اقلیتی تعلیم گاہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی پر فاششٹ طاقتوں کی غلط نگاہیں ہیں، رام پور رضا لائبریری میں نا اہل ہندو کی تقرری ہوئی، جہاں فارسی، اردو اور عربی مخطوطوں کا محافظ ان زبانوں سے نابلد اور بے ذوق شخص ہے، سیاست میں مسلمانوں کی حصہ داری نہ کے برابر ہے، پچیس کروڑ مسلم ابادی میں چوبیس نو منتخب اراکین پارلیمان ہیں، جو کہ گزشتہ پارلیمانی انتخابات سے بھی کم ہے۔مسلمانوں کی نمائندگی گزشتہ سترہویں لوک سبھا انتخابات کے مقابلے میں گھٹ جانا لمحہء فکریہ ہے ، گزشتہ دنوں بر سرِ اقتدار جماعت کی وزارت کا قلمدان تقسیم ہوا، جس میں ایک بھی مسلمان وزارت کے منصب پر فائز نہیں ہوسکا، حکمران جماعت میں بھی مسلم نمائندگی صفر ہے، یہ دوہرا رویہ مسلمانوں کے ساتھ برتا جا رہا ہے، اب آپ ہی بتائیں کہ کس ترک سے ان کمزور و نہتے مسلمانوں کو طاقتور اور خطرناک دکھایا جا رہا ہے۔گزشتہ ایک دہائی میں سب سے زیادہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا، ان کی شناخت کے تحفظ کا مسئلہ در پیش ہوا، ان میں عدم تحفظ کا احساس پروان چڑھا۔ گویا کہ مسلمانوں کی معاشی ، سیاسی، تعلیمی زندگی تباہی کے دہانے پر ہے۔
انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کے عام کارکنان کو تو چھوڑیے ، وزارتِ عظمیٰ کے اہم عہدے پر فائز شخص نے بھی مسلمانوں کو برا بھلا کہا، کھلے دل سے ان کے خلاف زہر افشانی کی، اور ان کی آئی ٹی سیل، اور آر ایس ایس کارکنان تو دن رات اسی کام میں مصروف ہیں، ہندو طبقہ کو اپنے ماضی سے متنفر، اپنے آباء و اجداد کی نااہلی کا سبق ازبر کرایا، یہ بھی دراصل مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ فلموں اور ہندی و انگلش لٹریچر کے ذریعے بھی مسلمانوں کی شبیہ کو کافی نقصان پہنچا ہے، غلط فہمی کی چادر اور دبیز ہوگئی ۔ کہیں پڑھا تھا کہ ہندو قوم پیدائشی طور پر تنگ دل اور تنگ نظر ہوتے ہیں، ایسے میں ان سے زیادہ توقعات رکھنا بھی احمقانہ فعل ہے۔ البتہ یہ قابل تعریف پہلو ہے کہ نفرت، مخالفت اور تفریق کی اتنی زبردست محنت کے باوجود ملک کے عام باشندوں نے جس طرح اسے مسترد کردیا، اپنے آپ میں یہ قابل قدر اور خوش آئند مستقبل کی غماز ہے۔
نا عاقبت اندیش مسلم نوجوانوں کی ایک جماعت کیمرے کے سامنے جذباتی انداز میں اکثریتی طبقہ کے خلاف نا قابل برداشت باتیں کہہ جاتے ہیں، یہ بھی وجہ بنتی ہے نفرت کی، مسلمان اپنے ہندو پڑوسیوں کو اپنی خوشیوں میں شریک نہیں کرتے، جو کہ ماضی میں اختلاف کی خلیج پاٹنے کا اہم ذریعہ تھا۔مسلمان اپنے آباء و اجداد کی قربانیوں اور مسلم عہد حکومت کی تاریخی خصوصیات سے بالکل نابلد ہیں، اگر واقفیت ہوتی تو خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے ہندو بھائیوں کو حقائق سے واقف کراتے، اور بتاتے کہ مسلمانوں کی تعلیم، اور ان کی پوری تاریخ محبت سے عبارت ہے، اور ان کا اخلاقی کمال ہی یہی ہے کہ وہ کسی سے نفرت نہیں کرتا، وہ ناپسند تو کرسکتا ہے، نفرت و تفریق نہیں کرسکتا۔