فلکیات اور میڈیکل سائنس میں ہماری خدمات(1)
✍️ محمد قمر الزماں ندوی
_________________________
اسلام کبھی کسی علم کا مخالف نہیں رہا اور نہ ہی کسی زبان کا مخالف رہا ،قرآن مجید میں درجنوں ایسے علوم کا تذکرہ ہے، اور کتنے ہی ایسے حقائق پر قرآن مجید میں روشنی ڈالی گئی ہے جن کا تعلق فلکیات،طبعیںات ، نباتات اور حیوانات کے علوم سے ہے ، متعدد جگہوں پر خود انسان کے اندرونی جسمانی کیفیات اس کی مرحلہ وار پیدائش اور اس کی نفسیات کا تذکرہ آیا ہے ۔
اسلام نے علم کا ایسا وسیع اور ہمہ گیر و ہمہ جہت تصور پیش کیا کہ کہیں اور اس کی مثال نہیں ملتی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حمکت مومن کا گمشدہ مال ہے ،جہاں ملے وہ اس کو حاصل کرنے کا اولین حقدار ہے ۔علم و دانش کی باتوں سے ایک مسلمان کو ویسا ہی انس و تعلق ہونا چاہیے جیسا کہ اپنے گم شدہ شئی کے ملنے پر انسان محسوس کرتا ہے ۔ اسلام نے ہمیشہ علم و تحقیق کی حوصلہ افزائی کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے پہل تابیر نخل سے منع کیا، لیکن بعد میں آپ نے اس کی اجازت دی کہ درخت کے نر مادہ میں اختلاط کی صورت اختیار کرکے پھل کے سائز اور حجم کو بڑھائیں ۔
آپ نے بعض غزوات میں منجنیق کا استعمال فرمایا ،جو اس زمانہ کی توپ تھی ۔حضرت سلمان فارسی رض کے مشورہ پر ایک غزوہ میں دشمنوں سے حفاظت کے لیے خندق کھدوائی، جس کی وجہ سے اس غزوہ کا نام ہی غزوئہ خندق پڑا ۔آپ نے بعض غزوات میں ایسی گاڑیاں بنوائیں، جس پر اوپر چمڑے کا غلاف ڈالا گیا، تاکہ دشمن کے تیر چمڑے میں پھنس کر رہ جائیں۔
غرض یہ کہ اسلام نے علم و تحقیق کی کبھی مخالفت نہیں کی، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی ، مسلمانوں نے حکماء، اطباء ،ماہرین فلکیات اور سائنسدانوں کو ہمیشہ سر پر بٹھایا اور ان کے ساتھ اعزاز و اکرام اور داد تحسین و احترام کا معاملہ کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان میدانوں میں مسلمانوں کی خدمات بہت ہی نمایاں ہیں ۔فلکیات کا میدان بہت ہی مشکل میدان مانا جاتا ہے ،لیکن اس کے باوجود اس میدان میں بھی مسلمان سب سے نمایاں نظر آتے ہیں ۔اس میدان میں ان کی خدمات کے کیا کہنے ۔سب سے پہلا نام اس میدان میں حکیم یحییٰ منصور 214ہج کا لیا جاتا ہے ۔ جنہوں نے دمشق میں دور عباسی میں قاسیون نامی مقام پر رصد گاہ تعمیر کرائی ۔انہوں نے چاند 🌙 اور بعض سیاروں کے بارے میں نئے نئے انکشافات کئے ۔ مامون الرشید کے دور میں ایک دوسرے ماہر فلکیات اور محقق عباس بن سعید جوہری ہوئے (متوفی 229ہج) اس نے بھی دو رصد گاہیں تعمیر کروائیں ۔اسی دور کا ایک ماہر فلکیات خالد بن ولید مروزی م/ 231ہج تھے جنہوں نے سورج ☀️ سے متعلق نئی تحقیقات کیں ۔ عہد عباسی کے ممتاز اور کلیدی سائنس دان چار تھے، جن کے نام یہ ہیں ۔حکیم یحییٰ بن منصور ،خالد بن عبد الملک مروزی ،سند بن علی، اور عباس بن سعید جوہری ۔۔۔
مسلم سائنسدانوں میں ایک اہم نام ابو عباس احمد بن فرغانی متوفیٰ 243ھج کا بھی ہے ۔یہ شخص علم ہئیت میں ید طولیٰ رکھتا تھا ۔اس نے دھوپ گھڑی تیار کیا ۔ اسی نے طغیانی ناپنے کا آلہ ایجاد کیا ۔ جس سے دریا کے پانی کا صحیح اندازہ ہو جاتا تھا ۔
علی بن عیسئ اصطرلابی متوفیٰ 224ہج کا نام بھی اس میدان میں بہت نمایاں ہے ،جس نے چاند ،تاروں اور سورج کے درمیان فاصلوں کی پیمائش کا طریقہ ایجاد کیا ۔اسی نے آلئہ سدس بھی تیار کیا ،جس سے کم سے کم فاصلہ بھی جانا جاسکتا ہے ۔
تیسری صدی میں ایک اہم نام ابو عبداللہ محمد بن جابر بنانی کا ملتا ہے ،جو اس میدان کے بہت ماہر تھے ،زمین کی گردش اور سورج کی رفتار اس کی تحقیق کا اہم موضوع تھا ۔
بنانی کے شاگردوں میں ایک اہم نام حکیم ابو محمد العدلی القاینی متوفیٰ 370ہج کا آتا ہے، یہ بھی ماہر فلکیات تھے ،رصد گاہ کی تعمیر میں اس نے نئے نئے آلات تیار کئے ۔فلکیات کے میدان میں ایک نمایاں نام ابوالحسن یونس صوفی متوفیٰ 395ہج کا آتا ہے ،یہ نہایت ذہین حوصلہ مند اور عالی دماغ تھا ماہر ہئیت تھا ۔اس کی تحقیقات سے آج بھی سائنسدان فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔
فلکیات میں ایک اہم نام ابو الوفاء بوزجانی متوفیٰ 378ہھ کا بھی ہے، جو ایک ماہر ریاضی دان تھا ۔عمر خیام متوفیٰ 1039ہج یوں تو شاعر اور ادیب تھے، لیکن اس کے ساتھ وہ ایک زبردست سائنس داں بھی تھا ۔فلکیات کا میدان اس کا اصل میدان تھا ۔ اس میدان میں بھی ان کی خدمات نمایاں ہیں ۔
علم طب اور میڈیکل سائنس میں بھی مسلمانوں کے کارنامے سب سے نمایاں ہیں ، ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ،اس فن کو ہر دور میں مسلمانوں نے اپنی تحقیق کا خاص موضوع بنایا ، تمام تر تعصب کے باوجود اہل یورپ اس بات پر مجبور ہوئے کہ مسلمان سائنس دانوں کی خدمات کا اعتراف کریں ۔یہاں تفصیل بیان کرنے کا موقع نہیں ،صرف ان کے ناموں کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔
اس سلسلہ میں اہم ترین نام ابو الحسن علی بن سہل طبری متوفیٰ 251ہج کا آتا ہے جو بغداد کے شفا خانوں کے نگران اعلیٰ تھے ۔
یہ اپنے طبی تجربات ڈائری میں تحریر کرتے جاتے تھے ۔جس کا تعلق ادویہ کی خصوصیات اور صحت ،موسم اور آب و ہوا سے ہوتا ۔ان ہی تجربات کو انہوں نے ایک ضخیم کتاب کی صورت دی ابجدی ترتیب سے فردوس الحکمت کے نام سے مرتب کیا ۔
آگے کی تفصیل اگلی قسط میں بس چلتے چلتے اس تبصرہ کو بھی پڑھتے جائیے کہ:
"جب یورپ میں سر درد کو بدروحوں کا چمٹنا کہا جاتا تھا اور ان بدروحوں کو نکالنے کے لئے چرچ لے جا کر سر میں کیلیں ٹھونکیں جاتی تھی، اس وقت مسلمان عراق میں بیٹھے جدید کیمسٹری اور ادویات کی ترقی کی بنیاد رکھ رہے تھے،
جہاں ابن سینا "القانون فی الطب” کو تحریر کررہا تھا جسے آگے جاکر ایک ہزار سال بعد اکیسویں صدی میں بھی پڑھا جانا تھا، وہیں جابر بن حیان وہ کتاب لکھ رہا تھا جسے اگلے سات سو سال تک کیمسٹری کی بائیبل کا خطاب ملنا تھا، وہ اس وقت ایسا تیزاب (Salphuric acid) بنا رہا تھا، جس کی پیداوار کسی ملک کی صنعتی ترقی کی عکاسی کہلانی تھی، وہیں مسلمان سیاح دنیا گھوم رہے تھے، مسلمان ماہر فلکیات (Astrologist) اپنا حصہ ڈال رہے تھے، کبھی اسپین کو صاف ترین شہر بنا رہے تھے، تو کبھی بغداد کو علم کا گہوارا بنا رہے تھے، تو کہیں نئے علاقے فتح ہورہے تھے،
اس ترقی کی وجہ ان کا اپنے نصاب یعنی قرآن و حدیث کی پیروی کرنا اور دینی علوم کے ساتھ تمام دنیاوی علوم کو ساتھ لے کر چلنا تھا، اور تمام تر ہنر مندوں کو اپنی تہذیب کو پروان چڑھانے کیلئے استعمال کرنا تھا.
پھر وقت بدل گیا ہمارے "اکابرین” کوے کے حلال و حرام پر مناظرے کرنے لگے، اور ہم نے اپنے نصاب میں وہ علوم شامل کردیے، جن میں نہ ہماری دنیوی ترقی تھی نا آخرت کی کامیابی، جہاد اور مجاہدین ذاتی مفادات کے لیے استعمال ہونے لگے، کھیرے، ککڑی، کیلے، مسواک کا سائز، ہمارے اہم مسائل میں شامل ہوگئے،آمین تیز آھستہ پڑھنے پر کفر کے فتوے لگنا شروع ھوگئے۔فرض کے بعد دعا جائز ھے نا جائزھے پر جھگڑے ھونے لگے۔اور پھر ھلا کوخان چنگیزی فوج نے مسلمانوں کے سروں سے فٹ بال۔کھیلے اور کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کر دئے۔علمی کتابیں دریا میں بہا دئے گئے۔اور مسلمان ایک ھزار سال پیچھے چلے گئے۔اور آج پھر وھی صورتحال ھیں
اور آج ہم اس حیرانگی کا شکار ہیں کہ "تبدیلی آ کیوں نہیں رہی۔”
جبکہ ھمارا علمی معیار یہ ھے کہ ھم لارڈ میکالے کے نصاب سے باھر ھی نہیں نکل سکے” –
(جاری)