دین اور مسلمان (۵)
محمد عمر فراہی
یوں تو میں بغیر کسی تحقیق اور پہچان کے مدرسوں میں اپنی زکواۃ دیتا نہیں لیکن کبھی کبھی کچھ مولوی حضرات کی گفتگو سے متاثر ہو کر کچھ رسیدیں کٹوا لینی پڑتی ہے ۔ایسے ہی کچھ سال پہلے میں نے ایک مولوی صاحب کو چندہ دے دیا تو وہ ہر سال آنے لگے کہ آپ کا اتنا چندہ ہے اور میں دیتا رہا ۔اتفاق سے مسلسل تین سال تک میں اپنے کارخانے پر ان سے نہیں مل سکا اور وہ واپس جاتے رہے ۔چونکہ میرا مکان میرے کارخانے سے دور ہے اور رمضان میں عصر کی نماز بعد روزہ کھولنے کیلئے گھر لوٹ آتا ہوں اس لئے کارخانے پر ملاقات مشکل سے ہو پاتی ہے ۔تیسرے سال مولوی صاحب نے میرے ہندو کاریگر سے کہا سیٹھ سے بات کراؤ ۔میرے آدمی نے کہا سیٹھ مولوی صاحب بہت غصے میں ہیں کہہ رہے ہیں میں کتنی بار سے دوڑ کر آرہا ہوں اور تمہارے سیٹھ ملتے نہیں ۔چندہ نہیں دینا ہے تو کہہ دیں میں اب نہیں آؤں گا ۔میں نے فون لیکر ان سے بات کی اور کہا محترم مجھے کیا معلوم کہ آپ کب آنے والے ہیں ۔آپ تین سال کی ایک ساتھ رسید بنا دیں اور ان تین سالوں کا جو سود ہو وہ بھی جوڑ دیں ۔اب وہ اور غصہ ہو گئے ۔بولے آپ کیسی بات کرتے ہیں ہم سود کھاتے ہیں ۔میں نے کہا آپ غصہ ہو رہے تھے اس لئے آپ کو غصہ دلانے کیلئے آپ کے مزاج کے خلاف مزاق کر لیا آپ کو چونکہ میں نے تین سال تک دوڑا کر پریشان کیا اس لئے کچھ رقم بڑھا کر مجھے سزا دے سکتے ہیں ۔میں نے اپنے کاریگر سے کہا ان کو پیسے دے دو میں آ کر دے دوں گا ۔کچھ لوگ جو ایماندار ہوتے ہیں ان کے اندر چاپلوسی نہیں ہوتی خواہ آپ چندہ دیں یا نہ دیں لیکن مولیوں کی اکثریت تھوڑا سا چندہ بڑھانے کیلئے آجکل جھوٹ بھی بہت بولنے لگی ہے ۔
پچھلی پوسٹ میں میں نے دو رسیدوں کی کاپی پوسٹ کی تھی تاکہ ایک صحیح رسید سے دوسری کی غلطی کی نشاندھی ہو سکے ۔جس رسید میں غلطی تھی وہ ایک مفتی ہیں اور کئی سالوں سے میں انہیں چندے دیتا ہوں ۔اس بار انہوں نے کہا میں مل نہیں سکتا اگر ممکن ہو تو آن لائن کر دیں ۔میں نے کہا کوئی بات نہیں آپ رسید وہاٹس اپپ پر بھیج دیں ۔اس رسید میں ایک تو جلد نمبر نہیں تھا دوسری غلطی رقم کا ایک صفر باکس سے باہر کردیا گیا ہے اور تیسری غلطی یہ کہ کسی بھی رقم کے داہنے طرف آخر میں یہ (-/) خط کھینچ کر رقم کو یوں (-/500) لکھا جانا چاہئے تھا انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔اگر آخر میں یہ( -/ ) خط نہیں کھینچا گیا ہے تو 500 کو ایک صفر کے بعد خط کھینچ کر اس طرح -/50 بھی کیا جاسکتا ہے ۔چوتھی غلطی یہ ہے کہ رسید میں عبارت کے کالم میں پانچ سو روپیہ لکھنے کی بجائے صرف روپیہ لکھا ہے ۔چونکہ زسید ان کے پاس ہی ہے اس لئے دوبارہ کاربن رکھ کر اس عبارت کو پچاس روپیہ بنانا بہت مشکل نہیں ہے ۔ باقی غلطیاں اتنی معنی نہیں رکھتیں مگر رقم کو عبارت میں نہ لکھنے کی وجہ سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی گنجائش رہتی ہے ۔
خیر ہو سکتاہے مفتی صاحب کی یہ چاروں غلطیاں نادانستہ طور پر ہو گئی ہوں ۔کسی کی نیت اور ایمان پر سوال اٹھانا ہمارا مقصد نہیں لیکن میں نے اسے اس لئے موضوع بنایا کہ آج کل بہت تیزی کے ساتھ ایسے فراڈ ہو رہے ہیں ۔اس لئے کسی کو شک کا موقع کیوں دیا جائے ۔
ابھی اسی رمضان میں شاید غفران ساجد قاسمی صاحب نے فیس بک پر کسی ایسے ہی سفیر کے بارے میں لکھا تھا کہ اس نے ممبئی میں ایک صاحب سے ایک ایسے مدرسے کے نام پر چندے کی رسید کٹوا لی جو اب بند ہو چکا ہے ۔یہ بات رقم دینے والے کو بعد میں کسی سے پتہ چلی کہ سفیر تو معتبر تھا رسید اور مدرسہ جعلی ہیں ۔مگر کیا کیا جائے دینے والا مدرسہ تو نہیں دیکھتا وہ چہرے دیکھ کر اعتبار کر لیتا ہے ۔خود میں نے اپنے پاس آنے والے ایک ایسے مولوی صاحب کا جھوٹ پکڑا جن سے میرے تعلقات ایک مسجد کی امامت سے ہوئی بعد میں انہوں نے امامت چھوڑ دی اور میرے پاس بہار کے ایک مدرسے کیلئے چندہ اصولنے آنے لگے اور میں ذاتی تعلق کی وجہ سے چندہ بھی دے دیتا ہوں مگر میں نے ان کی غیرت مجروح نہ ہو ان سے ان کے جھوٹ کا تذکرہ نہیں کیا ۔اصل میں انہوں نے چندہ بڑھانے کے لئے ایک ایسا جھوٹ بولا جو مجھے انہیں کے مدرسے کے ذمدار سے بات کرتے ہوۓ پتہ چلی ۔
ویسے چندے کے اس کاروبار میں کمیشن کی وجہ سے جھوٹ اور دھوکہ اتنا بڑھ رہا ہے کہ کچھ فیصد سفیر تو بغیر مدرسوں کے بھی چندے اصول لیتے ہیں اور ان کی وجہ سے مستحق مدارس اور ان کے ایماندار سفراء بھی شک کے گھیرے میں آ جاتے ہیں ۔بات رسید میں ہیرا پھیری کی آئی تو بتا دیں پچھلے لاک ڈاؤن کے دوران مقامی ایم ایل اے نے امام کیلئے لفافہ میں پانچ ہزار روپے اور کچھ راشن بھیجواۓ ۔بانگی چونکہ مسجد میں پرانا تھا اور ٹرسٹی نے مسجد کے چندے وغیرہ کا لین دین بھی اسی کے ذمے سونپا ہوا تھا اس نے چپکے سے راشن اور لفافہ اپنے کمرے میں رکھ لیا ۔بعد میں لفافے کو چالاکی سے کھول کر پانچ سو رقم چھوڑ کر راشن کے ساتھ امام کو دے دیا ۔اتفاق سے ٹرسٹی کے پاس ایم ایل اے کے آدمی کا فون آیا کہ آپ کی مسجد کے امام کیلئے پانچ ہزار روپیہ اور کچھ راشن گیا ہے ملا کیا ۔ٹرسٹی نے امام سے پوچھا تو انہوں نے کہا پانچ ہزار نہیں پانچ سو ملا ہے ۔اس دھوکہ بازی کے بعد جب بانگی کے چوری کا راز کھلا تو یہ بھی پتہ چلا کہ وہ چندے وصولتے وقت رسید میں بھی ہیرا پھیری کرتا رہا ہے ۔یہ بات مجھے کسی نے بتایا تو مجھے یقین کرنے میں دقت نہیں ہوئی کیوں کہ ایک دن مسجد کے یہی بانگی میرے پاس آۓ اور کہا بھائی آپ سے کچھ بات کرنی ہے ۔میں نے کہا بتاؤ ۔انہوں نے کہا تین ہزار روپیہ ادھار چاہئے ۔میں نے کہا کل آجائیے ۔دل میں طئے کر لیا تھا ان کی تنخواہ ہی کتنی ہوتی ہے انہیں ادھار دے کر پیسے واپس نہیں لوں گا لیکن انہیں پرکھنے کیلئے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ وہ اس رقم کو واپس کب کریں گے ۔میں نے دوسرے دن پیسہ دیتے وقت وہی سوال کر دیا ۔بانگی صاحب نے کہا پھر آپ رکھ لیں مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ان کا مطلب تھا کہ میں ادھار دے دیتا مگر واپس کرنے کے بارے میں سوال نہ کرتا ۔
بعد میں معلوم ہوا کہ بانگی صاحب لوگوں سے پیسے لے کر ایسا ہی کرتے ہیں کیوں کہ اکثر لوگ واپس مانگتے نہیں اور ان کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوتی ۔
میں اپنے سابقہ مضامین دین اور مسلمان میں نماز زکواۃ اور روزے کے تعلق سے آنے والے بگاڑ کے حوالے سے لکھ چکا ہوں کہ اس وقت بھارت میں ہم بحیثیت مسلمان اپنی ریاست کے مالک تو رہے نہیں جس کی وجہ سے دین اور امارت کا تو تصور ہی نہیں کیا جاسکتا مگر اللہ سے توبہ اور نجات کیلئے ہمارے پاس جو آخری سرمایہ بچ رہ گیا ہے وہ ہے ہمارا کردار، عقیدہ ،اخلاق اور ایمان ۔اب اگر وہ بھی ہم گنوا دیں تو ہمیں اپنے رب سے یہ شکوہ کرنے کا بھی حق نہیں کہ اللہ تو ہمارے اوپر ظالم لوگوں کو مسلط کر کے ہمیں ذلیل اور رسوا کیوں کر رہا ہے !