Slide
Slide
Slide

مسلمان اپنے روز مرہ کے معاملات میں سن ہجری کے استعمال کو رواج دیں: مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی

نئے اسلامی سال کی آمد پر جمعیۃ بلڈنگ میں جلسہ استقبال اسلامی سال نو کا انعقاد، سن ہجری کے فروغ کیلئے بیداری مہم چلانے کا اعلان

کانپور۔ سیل رواں

اسلامی کیلنڈر کے نئے سال 1446ہجری کا آغاز ہو رہا ہے، اپنی زندگیوں میں معاملات کو طے کروقت سن ہجری کے استعمال کو رواج دیں، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کے بارے میں واقف کرائیں۔ مذکورہ خیالات کا اظہار جمعیۃ بلڈنگ رجبی روڈ میں منعقدہ جلسہ استقبال اسلامی سال نو 1446ھ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے جمعیۃ کے ریاستی نائب صدر مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے کیا۔
مولانا نے کہا کہ سیدنا حضرت عمر بن خطابؓ کی خلافت کا 10سالہ دور میں وہ تمام امور جو شرعی نظام کا حصہ تھے اور جو نظام آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور اپنے سامنے ان پر عمل در آمد کرانا چاہتے تھے ان تمام کاموں پر صحیح اور زمینی سطح پر جو کام ہوا ہے وہ سیدناحضرت عمر بن خطاب ؓ کے دور میں ہوا ہے۔ اسی وجہ سے شرعی نظام کے بہت سارے معاملات وہ ہیں جن کی ابتداء حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہوئی۔ انہیں میں ایک چیز ہے مسلمانوں کا اپنا ”سن“ یعنی کیلنڈر۔ حضرت عمرؓ کے سامنے مختلف مشورے آئے کہ حضورؓ کی ولادت، وفات، فتح مکہ یا ہجرت کے واقعہ سے اس کیلنڈر کی ابتداء کی جائے۔ اتفاق رائے سے طے ہوا کہ ہجرت کے واقعہ سے اس کی ابتداء کی جائے۔ یہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے زمانے سے چلا آ رہا ہے اور حضرت عمرؓ اور ان تمام صحابہ کرامؓ کی یادگار ہے جنہوں نے خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ کے سامنے اتفاق رائے سے یہ فیصلہ لیا تھا اور سن ہجری کی شروعات کی تھی،اسلامی تاریخ کا آغاز حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے مدینہ ہجرت سے ہوتا ہے، اور اسی ہجرت کی یاد میں اسلامی تقویم یا کیلنڈر، جسے سن ہجری کہا جاتا ہے، شروع ہوتا ہے۔ یہ تقویم اسلامی معاشرت، عبادات اور تاریخ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سن ہجری کا تحفظ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، کیونکہ یہ ہمارے دین کی بنیادی شناخت اور تاریخی ورثے کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔

پروگرام میں جمعیۃ علماء شہر کانپور کی جانب سے مسلمانان ہند خصوصا مسلمانان کانپور کے نام اپیل جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ اسلامی عبادات اور رسومات جیسے رمضان، عید الفطر، عید الاضحی، اور حج کی تاریخیں سن ہجری کے مطابق متعین ہوتی ہیں۔ مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دینی فرائض کو صحیح وقت پر انجام دیں، اور اس کے لیے سن ہجری کی تقویم کا علم ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اسلامی تاریخ کے اہم واقعات جیسے جنگ بدر، جنگ احد، فتح مکہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی تاریخیں سن ہجری کے مطابق یاد کی جاتی ہیں۔ یہ واقعات ہمارے ایمان کی تقویت کا باعث بنتے ہیں اور ہمیں اپنے اسلاف کی قربانیوں کی یاد دلاتے ہیں۔سن ہجری مسلمانوں کی ثقافتی اور دینی شناخت کا حصہ ہے۔ یہ تقویم ہمیں ہماری تاریخی جڑوں سے جوڑتی ہے اور ہماری دینی روایات کو زندہ رکھتی ہے۔چنانچہ جمعیۃ علماء شہر کانپور کی جانب سے تمام مسلمانوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی دینی تعلیم میں سن ہجری کی اہمیت کو شامل کرنا چاہیے۔ مدارس، مساجد اور دینی اداروں میں اسلامی تقویم کی تعلیم دی جائے تاکہ نئی نسل کو اس کی اہمیت کا علم ہو۔مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے روزمرہ کے معاملات میں اسلامی اسلامی تاریخ کے اہم مواقع جیسے محرم، ربیع الاول، رمضان، اور ذو الحجہ کی یاد دہانی کی جائے۔ ان مواقع پر خصوصی تقریبات، دروس اور محافل کا انعقاد کیا جائے تاکہ مسلمانوں کو ان کی اہمیت کا علم ہو۔علماء اور دینی رہنما سن ہجری کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ خطبات جمعہ، دروس اور دینی محافل میں اسلامی تقویم کی فضیلت اور اس کے تحفظ کی ذمہ داری پر زور دیا جائے۔اسلامی تقویم کے تحفظ میں میڈیا کا کردار بھی اہم ہے۔ یوٹیوب چینلز، اخبارات، اور ویب سائٹس پر اسلامی تاریخوں کی تشہیر کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے واقف ہوں۔خاندان میں والدین بچوں کو سن ہجری کی اہمیت سے روشناس کرائیں۔ گھروں میں اسلامی تقویم کا استعمال کیا جائے اور بچوں کو اس کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں۔اسلامی تقویم کی طباعت کی جائے اور اسے مساجد، مدارس، اور دینی مراکز میں تقسیم کیا جائے۔ اس کے علاوہ، آن لائن تقویم کی سہولت بھی فراہم کی جائے تاکہ لوگ بآسانی اسلامی تاریخوں کو جان سکیں۔تعلیمی نصاب میں سن ہجری کی تعلیم کو شامل کیا جائے۔ اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں اسلامی تاریخ اور تقویم کے بارے میں مواد پڑھایا جائے۔ینی اجتماعات میں اسلامی تقویم کی اہمیت پر روشنی ڈالی جائے۔ ان مواقع پر اسلامی تاریخوں کا ذکر کیا جائے اور ان کی فضیلت بیان کی جائے۔ اسلامی تاریخ اور تقویم پر تحقیقی مقالے اور کتب تحریر کی جائیں۔ ان میں اسلامی تقویم کی اہمیت، تاریخ اور اس کے فوائد پر روشنی ڈالی جائے۔ موبائل ایپلی کیشنز، ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے اسلامی تقویم کی معلومات فراہم کی جائیں۔ یہ جدید ذرائع لوگوں تک اسلامی تاریخوں کی معلومات پہنچانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
پروگرام میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سن ہجری کا تحفظ مسلمانوں کی دینی، تاریخی اور ثقافتی ذمہ داری ہے۔ یہ ہماری دینی شناخت اور ورثے کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی میں اسلامی تقویم کا استعمال کریں، اس کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنی آنے والی نسلوں تک اس کی وراثت منتقل کریں۔ اس طرح ہم نہ صرف اپنے دینی ورثے کو محفوظ رکھ سکتے ہیں بلکہ اپنی زندگیوں میں برکت اور رحمت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
شہری جمعیۃ علماء کے صدر ڈاکٹر حلیم اللہ خاں قاسمی، نائب صدور مولانا نورالدین احمد قاسمی، مولانا محمد اکرم جامعی، سکریٹری زبیر احمد فاروقی،مفتی عبدالرشید قاسمی، مولانا انصار احمد جامعی، مولانا محمد فریدالدین قاسمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ سن ہجری کے استعمال کو، اس کو رواج دیں، اپنی روز مرہ کی عملی زندگی میں اس کو معمول کا حصہ بنائیں۔ خاص طور پر مدارس، مساجد سے تعلق رکھنے والے طبقہ کی ذمہ داری ہے کہ خود بھی اس کو ترجیح کے ساتھ زیادہ رواج دیں اور جہاں تک ان کی رسائی ہے عوام الناس کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھانے کی کوشش کریں کہ وہ سن ہجری کو اپنے روزمرہ کے معمولات، شادی بیاہ اور دیگر کاموں میں سن ہجری کے مطابق اپنے معاملات طے کریں۔
مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے اس موقع پر اعلان کیا شہری جمعیۃ علماء کی جانب سے پورے شہر میں اس تعلق سے بیداری پیدا کرنے کیلئے تحریک چلانے کا فیصلہ لیا گیا ہے جس کے لئے جلد کوئی لائحہ عمل سامنے لایا جائے گا۔
پروگرام کا آغاز حق ایجوکیشن کے طالب علم مولاناعبدالرحیم قاسمی کی تلاوت سے ہوا، مولانا رحمت اللہ قاسمی نے نعت پاک نذرانہ پیش کیا، نظامت کے فرائض مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے انجام دئیے۔ اس موقع پر نائب صدر مولانا محمد انیس خاں قاسمی، مولانا انعام اللہ قاسمی، قاری عبدالمعید چودھری، حافظ رضوان مکی، مولانا محمد کلیم جامعی، مولانا محمد ذاکر قاسمی، مولانا محمد عامر قاسمی، مولانا آفتاب عالم قاسمی، مولانا محمد کوثر جامعی، مولانا محمد سہیل خاں قاسمی، مولانا محمد حذیفہ قاسمی، شارق نواب، محمد عقیل، مولانا مسعود جامعی، مولانا شفیق قاسمی،مولانا مفتاح حسین قاسمی، مولانا محمد جاوید قاسمی، مولانا ابواسامہ قاسمی، مولانا محمد انس قاسمی، اعجاز حسن، مولانا شان محمد جامعی، مولانا محمد سعود جامعی سمیت کثیر تعداد میں شہری جمعیۃ کے اراکین موجود تھے

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: