اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل
اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل

بھارت کے اس تکثیری سماج کو کبھی دنیا کے لیئے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا یہاں کی جمہوریت قانون اور دستور کی دنیا مثالیں پیش کرتی تھی لیکن اب وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں نظر نہیں آرہی ہے اگر کسی کو نظر آبھی رہی ہے تو صرف اوراق کے دامن پر جو قوانین جو باتیں پڑھنے لکھنے تک اچھی لگتی ہیں اتنی ہی خوب صورت عملی میدان میں بھی نظر آنی چاہیئے ورنہ خواب تو سجانے سے دور ہوجائیں گے بلکہ جو پایا وہ بھی کھوتے رہیں گے اس وطن عزیز کو ہمارے آبا و اجداد نے جس خون جگر سے سینچا ہے وہ کوئی معمولی قربانیاں نہیں تھی لیکن آج کے اس نئے بھارت میں ان قربانیوں کا صلہ ظلم، عدم رواداری،مذہبی تفریق کی شکل میں ملک کے گوشے گوشے میں دستیاب ہے

شکر گزاری کا فلسفہ
شکر گزاری کا فلسفہ

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ معمولی پریشانیوں یا مسائل پر فوراً ناشکری کرنے لگتے ہیں اور اللہ کی عطا کردہ بڑی نعمتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مثلاً کسی کو ذرا سا مالی نقصان ہو جائے تو وہ اللہ کے رزق کو بھول کر شکایت کرنے لگتا ہے، حالانکہ اس کے پاس صحت، گھر اور خاندان جیسی بےشمار نعمتیں موجود ہیں۔ اسی طرح، اگر موسم کسی کے حق میں نہ ہو، جیسے گرمی یا سردی کی شدت، تو لوگ فوراً شکایت کرنے لگتے ہیں، یہ بھول کر کہ اللہ نے ہمیں لباس، رہائش، اور زندگی کی دیگر سہولتوں سے نوازا ہے۔

تنہا سفر کی ممانعت
تنہا سفر کی ممانعت

حالات بدل چکے ہیں، نقل و حمل کے ذرائع ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ہو چکے ہیں، انسان کئی کئی دنوں کا سفر اب گھنٹوں میں کر لیتا ہے اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں کر رہا ہے ، سہولتوں کی فراوانی چاروں طرف نظر اتی ہے لیکن اس کے باوجود قول نبی برحق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بجا ہے اپ کی دوراندیشانہ گفتگو اور اپ کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے الفاظ و کلمات خدائے رحمان و رحیم کی منشا و مراد کے مطابق ہوتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

تازہ ترین پوسٹ

تعارف و تبصرہ

"خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر” :تعارف و تأثر

زیر نظر کتاب " خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر" مولانا مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی استاد جامعہ اسلامیہ شانتا...
Read More
شخصیات

جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی بنیاد میں اعلی حضرت اشرفی میاں کا حصہ

یہ ادارہ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے مشہور ضلع اعظم گڑھ کے اندر قصبہ مبارک پور میں واقع ہے۔...
Read More
تاریخ و سیر

شاہی جامع مسجد سنبھل: ایک تاریخی جائزہ

تاریخ ماضی کے واقعات کا آئینہ ہوتی ہے ، ہندوستان میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے مابین باہمی رواداری اور...
Read More
تجزیہ و تنقید

گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل

جامع مسجد سنبھل تنازع گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل ✍ سید سرفراز احمد ________________ اصل...
Read More
تجزیہ و تنقید

احسان فراموشی نہ کریں: بیرسٹر اسد الدین اویسی کی خدمات کا اعتراف ضروری ہے

حال ہی میں بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کی مالیگاؤں میں کی گئی تقریر کے بعد کچھ حلقوں میں ایک...
Read More

علم وفن کے نیر تاباں مولانا ہارون الرشید: ایک مطالعہ

✍️انوار الحسن وسطوی

______________

زیر تذکرہ کتاب جواں سال عالم دین، ادیب اور صحافی ڈاکٹر مولانا نور السلام ندوی کی تالیف ہے، موصوف کی یہ کتاب سرزمین بہار کے عظیم صاحب علم و نظر اور بزرگ شخصیت شیخ الحدیث حضرت مولانا ہارون الرشید علیہ رحمہ کے احوال و آثار، افکار و نظریات، اوصاف و حسنات اور خدمات و کمالات پر مشتمل ہے، حضرت مولانا رحمة اللہ علیہ کا تعلق ضلع دربھنگہ کے جمال پور سے تھا اور وہ مولانا نور السلام ندوی کے رشتے میں چچا ہوتے تھے، مولانا ندوی نے حضرت مولانا کی شخصیت پر مضامین کا ایک بیش قیمت مجموعہ ترتیب دے کر قابل تحسین کام کیا ہے، جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
256 صفحات پر مشتمل یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے، کتاب کا آغاز ”مقدمہ” سے ہوا ہے، جسے مولف کتاب مولانا نورالسلام ندوی نے خود تحریر فرمایا ہے۔ یہ ”مقدمہ“ اتنا مبسوط اوروقیع ہے کہ اگر حضرت مولانا ہارون الرشید پر یہ کتاب ترتیب نہ بھی دی جاتی تو یہ ”مقدمہ“ مولانا کے تعارف، ان کی خدمات، ان کے کمالات اور ان کے مقام و مرتبہ کا اندازہ لگانے کے لیے کافی تھا، اس تحریر کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اس کے مطالعے سے عزیز گرامی مولانا ڈاکٹر نور السلام ندوی کی خوبی تحریر، اظہار خیال پر قدرت اور ان کے انداز بیان کی ندرت کے ساتھ ان کی انشا پردازی کے جوہر بھی کھل کر سامنے آئے ہیں، جو ان کے روشن مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مولانا ندوی نے اپنے ”مقدمہ“ میں حضرت مولانا ہارون الرشید کے تعلق سے اظہار خیال سے قبل متھلا نچل کی مختصر تاریخ و تہذیب اور دربھنگہ کے خطہ جمال پور کے محل وقوع اور وہاں کے سماجی و سیاسی حالات پر روشنی ڈالی ہے، جمال پور کی وجہ تسمیہ، وہاں کی آبادی، تعلیمی صورتحال، سیاسی ماحول اور ممتاز ملی و سماجی شخصیات کا تعارف بھرپور طور پر پیش کیا ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
سطور بالا میں یہ ذکر آچکا ہے کہ کتاب پانچ ابواب پر منقسم ہے، پہلا باب ”نقوش حیات“ کے عنوان سے ہے اس باب میں حضرت مولانا کی زندگی کے ابتدائی احوال، خاندانی پس منظر اور تعلیمی اداروں سے ان کی وابستگی پر روشنی ڈالی گئی ہے، اس باب میں مولانا امیر معاویہ قاسمی، مولانا مفتی ثناءالہدی قاسمی، مولانا رضوان احمد ندوی، ڈاکٹر مولانا نور السلام ندوی، مفتی جمال الدین،مولانا نسیم احمد رحمانی ندوی، مولانا مفتی اسعد پالن پوری فلاحی، مفتی اشتیاق احمد قاسمی اور مولانا ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی کے مضامین شامل ہیں، دوسرا باب ”مشاہدات و تاثرات“ کے عنوان سے ہے، اس باب میں جن مضمون نگاروں نے اپنے مشاہدات و تاثرات سپرد قلم کیے ہیں ان کے اسمائے گرامی ہیں، مولانا بدرالحسن قاسمی، مولانا عبدالرب قاسمی ،مولانا طارق شفیق ندوی، مولانا مفتی خالد نیموی قاسمی، ڈاکٹر مولانا محمد عالم قاسمی، مولانا احتشام الحق قاسمی رامپوری، مولانا مفتی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا سعد اللہ قاسمی، تیسرا باب ”تدریس و خطابت“ پر مشتمل ہے، اس باب میں مولانا مفتی ظفر عالم ندوی، مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی، مولانا مفتی مجاہد الاسلام قاسمی،مولانا اسعد ندوی، مولانا محمد علی اور مولانا امیر معاویہ قاسمی کے مضامین شامل ہیں، اس باب کے قلم کاروں نے حضرت مولانا کی تدریسی صلاحیت و تجربات اور خطابت کے انداز و اسلوب پر خامہ فر سائی کی ہے، چوتھا باب ”تعلیمی و تنظیمی خدمات “پر مشتمل ہے، اس باب میں مولانا کی علمی مشغولیت، تعلیمی کارنامے اور ان کی تنظیمی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے، اس باب کے مضمون نگاروں میں مولانا خالد سیف اللہ ندوی، مولانا مفتی نافع عارفی، مولانا مفتی عین الحق امینی، حافظ مولانا نعمت اللہ قاسمی، ڈاکٹر مولانا نور السلام ندوی، مولانا ابو عبادہ اور مفتی رضوان عالم قاسمی کے مضامین شامل ہیں۔ پانچواں باب حضرت مولانا کی تحریروں کے نمونے اور اخبارات کے تراشوں پر مشتمل ہے۔
مذکورہ ابواب سے قبل مختلف عناوین سے چند نامور اہل علم و قلم کی تحریریں شامل کتاب کی گئی ہیں، مثلاً پیش لفظ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، دعائیہ کلمات حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی، تقریظ حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی، تبریک حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی، حرف ذریں حضرت مولانا سید شاہ مشہود احمد قادری ندوی اور حرف چند حافظ مولانا سفیان احمد،کتاب کے پس ورق پر پروفیسر مولانا سرور عالم ندوی صدر شعبہ عربی، پٹنہ یونیورسٹی،کی مختصر، جامع اور پر مغز تحریر ہے۔ حضرت مولانا ہارون الرشید علیہ رحمہ کی خصوصیات اور انفرادیت کے تعلق سے چند اقتباسات مذکورہ تحریروں سے ملاحظہ ہوں:
بہار کی جن شخصیتوں نے تدریس کے ذریعے اپنا فیض دور دور تک پہنچایا ہے اور ان کے تلامذہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ان میں ایک اہم شخصیت حضرت مولانا ہارون الرشید قاسمی کی تھی، اس حقیر کو ان سے ملاقات کی سعادت حاصل رہی ہے، وہ سلف صالحین کی سادگی اور درویش مزاجی کا نمونہ تھے، سادہ قسم کا سفید کرتا، شلوار، سفید ٹوپی اور اس پر قدیم انداز کا ایک معمولی سا رومال، اگر عام آدمی دیکھتا تو سمجھتا کہ کھیتی باڑی کرنے والے کاشتکار ہیں۔ نہ خد و حشم، نہ کوئی کروفر، نہ گفتگو میں لفاضی، خلیق، ملنسار، متواضع اور منکسرالمزاج، لیکن اللہ تعالی نے ان کو علم و عمل کا جامع اور میدان تدریس کا شہسوار بنایا تھا۔“(حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، ص 35)

زیر تبصرہ کتاب کا سر ورق

مولانا مرحوم بڑے سادہ لوح، سادہ مزاج، ملنسار شخصیت کے مالک تھے، یہ حضرت مولانا کی ذرہ نوازی تھی کہ ہم جیسے چھوٹوں سے بھی عزت و احترام سے پیش آیا کرتے تھے، وہ فطری سادگی کے پیکر تھے، عام سا کرتا، پاجامہ اور کاندھے پر سفید رومال، یہی ان کی شناخت تھی، نہ جاننے والا اگر کوئی دیکھ لے تو اول مرحلے میں یہی سمجھتا کہ کوئی معمولی آدمی ہیں، ان کے رہن سہن اور رکھ رکھاؤ سے یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ یہ شخص بلا کا ذہین اور ثاقب فکر و نظر کا مالک ہے۔“(حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی، صفحہ نمبر 40)
مولانا ایک بلند پایہ عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب مدرس و معلم اور ایک بے مثال خطیب و مقرراور صاحب طرز ادیب بھی تھے، اردو عربی اورفارسی کے اشعار ان کے نوک زبان پر ہمیشہ جاری رہتے تھے، جب کبھی کسی نے چھیڑ دیا تو اشعار کی جھڑیاں لگا دیتے، اس لحاظ سے ان کی ذات ایک ادبی ادارہ کی حیثیت رکھتی تھی، ان کے علمی فیض سے کئی اداروں اور تنظیموں نے استفادہ کیا۔ (حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی، صفحہ نمبر 42)
مولانا سلف صالحین کے نمونہ تھے، عاجزی اور سادگی ان کا طرہ امتیاز تھا، زبان و بیان پر اچھی قدرت تھی، گفتگو ناپ تول کر کرتے، میٹھی بولی بولتے، ان کی شائستگی ان کی باتوں سے جھلکتی تھی، تقریر بری موثر اور عالمانہ کرتے، لکھنے کا بھی اعلی ذوق تھا، کسی زمانے میں نقیب کے لیے مستقل کالم لکھا کرتے تھے۔“(حضرت مولانا مشہود احمد قادری ندوی ،ص 45)
”مولانا تقریر کے میدان کے بھی آدمی تھے، لیکن ان کی تقریر ہمیشہ پیشہ ورانہ گھن گرج اور کرسی توڑنے کے فن سے نا آشنا ہوا کرتی تھی، تقریر میں اتار چڑھاؤ کے بجائے سبک روی تھی، جو دلوں پر دستک دیتی تھی،مولانا بہترین مدرس تھے، ان کے شاگرد بتاتے ہیں کہ وہ درسگاہ میں نہ تو غیر ضروری بات کرتے تھے اور نہ ہی عبارت اور مسئلہ سے متعلق ساری باتیں طلبہ تک منتقل کرتے تھے، وہ اتنا ہی بتاتے تھے جتنا طلبہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔“ ( مفتی محمد ثناءالہدی قاسمی، ص 59)
مولانا مشہور عالم دین، نکتہ رس محدث و فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحب طرز ادیب و انشاءپرداز اور بے مثال خطیب و مقرر بھی تھے، میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ہر کوئی ان کی تقریر سننے کے بعد عمل کی جذبے سے اٹھتا تھا، وہ جب بولتے تو ایسا لگتا تھا کہ گویا منہ سے پھولوں کی بارش ہو رہی ہے اور یہی انداز ان کے پڑھانے کا بھی تھا۔“
(حضرت مولانا رضوان احمد ندوی، صفحہ نمبر 62)

یہ بھی پڑھیں:

گرچہ مولانا کی شہرت عربی ادب اور حدیث و تفسیر کے کامیاب استاد کی حیثیت سے تھی، لیکن سچی بات یہ ہے کہ اردو زبان و ادب کے معاملے میں مولانا کم نہ تھے، زبان و بیان پر گرفت بڑی مضبوط تھی، یہی وجہ ہے کہ مولانا کی تقریر ہو یا تحریر سننے یا پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا کہ بات دلوں میں اترتی چلی جا رہی ہے، مولانا نے بڑے بڑے ادیبوں کو پڑھا تھا، مرزا غالب اور علامہ اقبال کے اشعار نو ک زبان تھے۔“ (ڈاکٹر مولانا نور السلام ندوی ،صفحہ نمبر 73)
کتاب کا آخری باب مولانا ہارون الرشید کے تحریری نمونے پر مشتمل ہے، وہ بھی ایک خاصے کی چیز ہے، یہ تحریر مولانا موصوف کی تصنیف آدابِ زندگی سے ماخوذ ہے، جن کے عنوانات ہیں، صبر، ماہ صیام، روزہ، حج، اخلاق حسنہ، رشوت، سلام ان عنوانات پر مولانا نے نہایت مختصر جملوں میں اپنی بات کہی ہے، لیکن کہنے کا انداز اتنا انوکھا اورنرالا ہے کہ ایک تقریر پر بھاری ہے، مولانا کی ان تحریروں کے بعد ان کی ایک آخری تقریر کو شامل کتاب کیا گیا ہے، جسے انہوں نے رمضان المبارک 1442 ہجری مطابق 2021 کو ختم تراویح کے موقع سے کی تھی، قرآن پاک کے تعلق سے مولانا کے چند قیمتی جملے ملاحظہ فرمائیے!
یہ کتاب ایسی ہے کہ اس کو پڑھو تو ثواب، سنو تو ثواب، قرآن پاک دیکھنے کا بھی ثواب ہے، جیسے بیت اللہ شریف کے دیکھنے کا ثواب ہے، قرآن پاک کے ختم پر جو دعا کی جاتی ہے اللہ تعالی اس دعا کو قبول کرتے ہیں، آج آپ کے یہاں قرآن ختم ہوا ہے، ہم سب مل کر اللہ کی بارگاہ میں دعا کریں، اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اپنے لیے، اپنے سے آگے جانے والوں کے لیے اور سب کے لیے مغفرت کی دعا کریں، اللہ تعالی ہم سب کے گناہوں کو معاف فرما دے اور اللہ تعالی ہمارے پڑھنے پڑھانے کو اور سننے سنانے کو قبول فرمائے، آمین!“ (صفحہ نمبر 251)
قابل مبارک باد ہیں مولانا ڈاکٹر نور السلام ندوی جنہوں نے حضرت مولانا ہارون الرشید جیسی گرانقدر شخصیت کی حیات و خدمات اور کارناموں پر مشاہیر علماءکرام کے مضامین کو ترتیب دے کر کتابی شکل دی، مولانا رحمة اللہ علیہ کی شخصیت واقعی اس قدر قابل ذکر اور قابل تقلید ہے کہ ان کی شخصیت کا مطالعہ از بس ضروری ہے، بالخصوص ان لوگوں کے لیے جو مولانا کے میدان کے شہسوار ہیں، یہ کتاب ان لوگوں کے لیے بھی مشعل راہ ہے جن سے مولانا کی دید و شنید رہی اور ان افراد کے لیے بھی جنہوں نے کبھی مولانا کا نام ہی سنا ہے، زیرتذکرہ کتاب کے تعلق سے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی کی یہ رائے بالکل درست ہے کہ اگر کوئی آئندہ مولانا کی شخصیت پر قلم اٹھانا چاہے تو اس کتاب سے وہ بھرپور استفادہ کر سکتا ہے۔کتاب ظاہری و معنوی دونوں لحاظ سے خوبےوں کی حامل ہے۔ نہاےت سلےقے اور مہارت کے ساتھ مرتب کی گئی ہے، جومولف کے عمدہ ذوق اور اعلیٰ فکروفن کی غمازی کرتے ہےں۔یہ قیمتی کتاب بک امپوریم، سبزی باغ، پٹنہ،پرویز بک ڈپو، سبزی باغ پٹنہ،مدرسہ رحمانیہ نسواں،جمال پور، دربھنگہ، ناولٹی بک ہاؤس، اردو بازار، دربھنگہ سے حاصل کی جا سکتی ہے، مولف کتاب ڈاکٹر مولا نا نور السلام ندوی کے موبائل نمبر 9504275151، اور ای میل نمبر nsnadvi@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: