سال نوکی آمد -مرحبا

✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

___________________

1445ھ گذرگیا اور ہم 1446ھ میں داخل ہوگیے، یعنی نئے سال کا سورج ہماری زندگی کے مہ وسال سے ایک سال اور کم کرنے والا ہے، ہم موت سے اور قریب ہو گیے، انسان بھی کتنا نادان ہے وہ بڑھتی عمر کا جشن مناتا ہے، مبارک باد پیش کرتا ہے، قبول کرتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ ہماری عمر جس قدر بڑھتی ہے، موت اور قبر کی منزل قریب ہوتی رہتی ہے اور بالآخر وقت موعود آجاتا ہے اور آدمی قبر کی آغوش میں جا سوتا ہے۔ جو لوگ صاحب نظر ہیں اور جن کے ذہن میں فکر آخرت رچی بسی ہوئی ہے، وہ گذرے ہوئے سال سے سبق لیتے ہیں، اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں، نئے سال کا استقبال تجدید عہد سے کرتے ہیں کہ آئندہ ہماری زندگی رب مانی گذرے گی، من مانی ہم نہیں کریں گے، اس عہد پر قائم رہ کر جو زندگی وہ گذارتے ہیں وہ رب کی خوش نودی کا سبب بنتا ہے اور اس کے نتیجے میں بندہ جنت کا مستحق ہوتا ہے۔
نئے سال کی آمد پر ہم لوگ نہ محاسبہ کرتے ہیں اور نہ ہی تجدید عہد، بلکہ ہم میں سے بیش تر کو تو یاد بھی نہیں رہتاکہ کب ہم نئے سال میں داخل ہو گیے، عیسوی کلینڈر سب کو یادہے، بچے بچے کی زبان پر ہے، انگریزی مہینے فرفر یاد ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے سے جب چاہیے سن لیجئے؛ لیکن اسلامی ہجری سال، جو اسلام کی شوکت کا مظہر ہے، اس کا نہ سال ہمیں یاد رہتا ہے اور نہ مہینے، عورتوں نے اپنی ضرورتوں کے لئے کچھ یاد رکھا ہے، لیکن اصلی نام انہیں بھی یاد نہیں بھلا،بڑے پیراور ترتیزی، شب برأت، خالی، عید، بقرعید کے ناموں سے محرم صفر، ربیع الاول، ربیع الآخر، جمادی الاولیٰ، جمادی الآخر، رجب، شعبان، رمضان، شوال ذیقعدہ اور ذی الحجہ جو اسلامی مہینوں کے اصلی نام ہیں، ان کو کیا نسبت ہو سکتی ہے، ہماری نئی نسل اور بڑے بوڑھے کو عام طور پر یا تو یہ نام یاد نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو ترتیب سے نہیں، اس لیے ہمیں اسلامی مہینوں کے نام ترتیب سے خود بھی یاد رکھنا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی یاد کرانا چاہیے، یاد رکھنے کی سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ اپنے خطوط اور دوسری تحریروں میں اسلامی کلینڈر کا استعمال کیا جائے۔پروگرام اور تقریبات کی تاریخوں میں بھی اس کا استعمال کیا جائے، کیونکہ بعض اکابر اسے شعار اسلام قرار دیتے ہیں اور شعار کے تحفظ کے لیے اقدام دوسری عبادتوں کی طرح ایک عبادت ہے ۔

ہجری سال کی تعیین سے پہلے، سال کی پہچان کسی بڑے واقعے سے کی جاتی تھی۔ جیسے قبل مسیح،عام الفیل، عام ولادت نبوی وغیرہ، یہ سلسلہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے وقت تک جاری تھا، حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد خلافت میں مجلس شوریٰ میں یہ معاملہ رکھا کہ مسلمانوں کے پاس اپنا ایک کلینڈر ہونا چاہیے۔ چنانچہ مشورہ سے یہ بات طے پائی کہ اسلامی کلینڈر کا آغاز ہجرت کے واقعہ سے ہو، چنانچہ سال کا شمار اسی سال سے کیاجانے لگا، البتہ ہجرت کا واقعہ ربیع الاول میں پیش آیا تھا،لیکن سال کا آغاز محرم الحرام سے کیا گیا، کیونکہ یہ سال کا پہلا مہینہ زمانہ جاہلیت میں بھی تھا۔اس طرح اسلامی ہجری سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

محرم الحرام ان چا ر مہینوں میں سے ایک ہے، جس کا زمانہ جاہلیت میں بھی احترام کیا جاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا کہ مہینوں کا شمار اللہ کے نزدیک بارہ ہیں اور یہ اسی دن سے ہیں، جس دن اللہ رب ا لعزت نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا، ان میں چار مہینے خاص ادب کے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چار مہینوں کی تفصیل رجب، ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم بیان کی ہے، پھر حضرت ابو ذر غفاری ؓکی ایک روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ تمام مہینوں میں افضل ترین اللہ کا وہ مہینہ ہے جس کو تم محرم کہتے ہو، یہ روایت سنن کبریٰ کی ہے، مسلم شریف میں ایک حدیث مذکور ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے ہیں، اس ماہ کی اللہ کی جانب نسبت اور اسے اشہر حرم میں شامل کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس مہینے کی فضیلت شہادت حسین کی وجہ سے نہیں، بلکہ بہت پہلے سے ہے۔
اسی مہینے کی دس تاریخ کو یوم عاشوراء کہا جاتا ہے، رمضان المبارک کے روزے کی فرضیت کے قبل اس دن کا روزہ فرض تھا، بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق قریش بھی زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس روزہ کا اہتمام فرماتے تھے، یہودیوں کے یہاں اس دن کی خاص اہمیت ہے، کیوں کہ اسی دن بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ ہجرت کرکے تشریف لے گیے تو یہودیوں کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا، معلوم ہوا کہ یہودی فرعون سے نجات کی خوشی میں یہ روزہ رکھتے ہیں، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہم یہودیوں سے زیادہ اس کے حقدار ہیں کہ روزہ رکھیں، لیکن اس میں یہودیوں کی مشابہت ہے، اس لیے فرمایا کہ تم عاشورا کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو، اس طرح کہ عاشوراء سے پہلے یا بعد ایک روزہ اور رکھو۔ علامہ عینی کے مطابق اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی،حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے اور حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے باہر آئے، حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی اسی دن واپس ہوئی، حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے، حضرت ایوب علیہ السلام کو مہلک بیماری سے نجات ہوئی، حضرت سلیمان علیہ السلام کو خصوصی حکومت ملی، اور ہمارے آقا مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی دن ”غفر لہ ما تقدم من ذنبہ“کے ذریعہ مغفرت کا پروانہ عطا کیا گیا۔ اس طرح دیکھیں تو یہ سارے واقعات مسرت وخوشی کے ہیں اور اس دن کی عظمت وجلالت کو واضح کرتے ہیں،اس لیے اس مہینے کو منحوس سمجھنا، اوراس ماہ میں شادی بیاہ سے گریز کرنا نا واقفیت کی دلیل ہے اور حدیث میں ہے کہ بد شگونی کوئی چیز نہیں ہے ۔

یقیناً اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی اہل خاندان کے ساتھ شہادت تاریخ کا بڑاا لم ناک، کرب ناک اور افسوس ناک واقعہ ہے، جس نے اسلامی تاریخ پر بڑے اثرات ڈالے ہیں، اس کے باوجود ہم اس دن کو بْرا بھلا نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی ماتم کر سکتے ہیں، اس لیے کہ ہمارا عقیدہ ہے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے خانوادے اللہ کی راہ میں شہید ہوئے، حق کی سر بلندی کے لیے شہید ہوئے اور قرآن کریم میں ان حضرات کے بارے میں ارشاد ہے کہ جو اللہ کے راستے میں قتل کردیے گئے انہیں مردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، البتہ تم ان کی زندگی کو سمجھ نہیں سکتے، قرآن انہیں زندہ قرار دیتا ہے، اور ظاہر ہے ہمیں تومْردوں پر بھی ماتم کرنے، گریباں چاک کرنے، سینہ پیٹنے اور زور زور سے آواز لگا کر رونے سے منع کیا گیاہے، پھر جو زندہ ہیں، ان کے ماتم کی اجازت کس طور دی جا سکتی ہے۔ ایک شاعر نے کہا ہے
روئیں وہ، جو قائل ہیں ممات شہداء کے
ہم زندہ ٔجاوید کا ماتم نہیں کرتے
اس دن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد میں تعزیے نکالے جاتے ہیں، تعزیہ نکالنے کی اجازت تو شیعوں کو چھوڑ کر کسی کے یہاں نہیں ہے، پھر جس طرح تعزیہ کے ساتھ نعرے لگائے جاتے ہی یاعلی، یا حسین یہ تو ان حضرات کے نام کی توہین لگتی ہے، حضرت علی، کے نام کے ساتھ کرم اللہ وجہہ اور حضرت حسین کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگانا عظمت صحابہ کا تقاضہ اور داماد رسول اور نواسہ رسول کے احترام کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن جلوس میں اس کی پرواہ کس کو ہوتی ہے، اس طرح ان حضرات کا نام ٹیڑھا میڑھا کرکے لیتے ہیں کہ ہمارے باپ کا نا م اس طرح بگاڑ کرکوئی لے تو جھگڑا رکھا ہوا ہے، بے غیرتی اور بے حمیتی کی انتہا یہ ہے کہ اسے کار ثواب سمجھا جا رہا ہے، دیکھا یہ گیا ہے کہ اس موقع سے جلوس کے ساتھ بعض جگہوں پر رقاصائیں رقص کرتی ہوئی چلتی ہیں، عیش ونشاط اور بزم طرب ومسرت کے سارے سامان کے ساتھ حضرت حسین کی شہادت کا غم منایا جاتا ہے، اس موقع سے شریعت کے اصول واحکام کی جتنی دھجیاں اڑائی جا سکتی ہیں، سب کی موجودگی غیروں کے مذاق اڑانے کا سبب بنتی ہے، اور ہمیں اس کا ذرا بھی احساس وادراک نہیں ہوتا۔
جلوس کے معاملہ میں ہمیں ایک دوسرے طریقہ سے بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، تاریخ کے دریچوں سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت حسین رضی اللہ علیہ کی شہادت کے بعد اس خانوادہ میں بیمار حضرت زین العابدین اور خواتین کے علاوہ کوئی نہیں بچا تھا،یہ ایک لٹا ہوا قافلہ تھا، جس پریزیدی افواج نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تھے، ان کے پاس جلوس نکالنے کے لیے کچھ بھی نہیں بچا تھا، تیر،بھالے، نیزے اورعَلم تو یزیدی افواج کے پاس تھے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر نیزے پر تھا اوریزیدی بزعم خود اپنی فتح وکامرانی کاجلوس لیکر یزیدکے دربار کی طرف روانہ ہوئے تھے، ہمارے یہاں جلوس میں جو کروفراور شان وشوکت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، یہ کس کی نقل کی جا رہی ہے؟ ذرا سوچئے کھلے ذہن سے سوچیے تو معلوم ہوگا کہ ہم کسی اور کی نقل کر رہے ہیں، حسینی قافلہ کی تو اس دن یہ شان تھی ہی نہیں، اس لیے مسلمانوں کو ایسی کسی بھی حرکت سے پر ہیز کرنا چاہیے، ایسے جلوس میں نہ خود شامل ہوں اور نہ اپنے بچوں کو اس میں جانے کی اجازت دیں۔

Exit mobile version