ہجرت کا پیام انقلاب
✍ ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
محرم الحرام کی آمد ہے، نئے اسلامی سال کا آغاز ہے، جس کو ہجری سال بھی کہا جاتا ہے، نئے ہجری سال کے آغاز پر اگر ایک مسلمان کا ذہن تاریخ کے دریچوں سے ماضی میں جھانکنے لگے تو تعجب کیسا؟ ہجرت اسلامی تاریخ کا نقطۂ انقلاب ہے، ہجرت سے دعوت اسلامی کی تحریک کے تناور درخت میں تبدیل ہونے کا آغاز ہوتا ہے، ہجرت کے سبب ’’مکہ کے کمزور مسلمانوں‘‘ کو مدینہ منورہ کی شکل میں دارالاسلام کی وسیع و پر بہار فضا میسر آئی، ہجرت فتح مکہ سے قبل ایمان کی شرط تھی، ہجرت کے اسی پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن مجید نے کہا ہے، إن الذین توفھم الملئکۃ ظالمی أنفسھم قالوا فیم کنتم قالوا کنا مستضعفین فی الأرض قالوا الم تکن ارض اللہ واسعۃ فتھاجروا فیھا فاولئک ماواھم جہنم وساء ت مصیرا (نساء ۹۷) (ترجمہ: جن لوگوں کی جان فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں، کہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں (اپنے دین وایمان کو گزند پہونچاتے ہیں) فرشتے ان سے کہتے ہیں: تم کس حال میں پڑے تھے، وہ کہتے ہیں کہ ملک میں (یا علاقہ) میں دبے کچلے کمزور تھے، تو وہ کہتے ہیں کہ کیا اللہ کی زمین وسیع وعریض نہیں ہے کہ تم یہ علاقہ چھوڑ کر (اپنے دین کے تحفظ کے لئے) کہیں اور بستے، اور ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، اور بہت برا انجام ہوگا۔ )
ہجرت کی جس قدر اہمیت تھی، اسی قدر وہ مشکل تھی، وطن عزیز کو چھوڑنا کوئی کھیل تماشہ نہ تھا، عزیز و اقرباء، بچپن کی یادیں، مانوس گلیاں، جوانی کی دھوپ چھاؤں، ننھیال و ددھیال کی محبتیں، تجارتیں، گھر، زمین وجائیداد سب قربان کر دینا کوئی آسان کام نہ تھا، آج تو لوگ اس کی شدت وہولناکی، وطن سے دوری کے درد، افراد خانہ اوررشتہ داروں کی خون رلانے والی یادیں زیادہ آسانی سے محسوس کر سکتے ہیں، جب وہ سال دو سال کے لیے پردیس کسبِ معاش یعنی محض اپنی ضرورت کی خاطر عازم سفر ہوتے ہیں تو دماغ میں ہلچل ہوتی ہے، دل کی دنیا غیر ہوتی ہے، گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھنا کس قدر دشوار ہوتا ہے، ہجرت کس قدر مشکل تھی ذرا حبیب کبریا حضرت محمد ﷺ کے اس جملہ سے اندازہ کیجئے، جس جملہ سے فطرت انسانی اور قوت ایمانی کے ملے جلے جذبات کی صاف عکاسی ہورہی ہے، آپؐ نے اپنے پیارے وطن مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا، ما اطیبک من بلد وأحبک إلیّ ولولا أن قومی أخرجونی منک ما سکنت غیرک (ترمذی) اے وطن عزیز مکہ تو کتنا اچھا شہر اور مجھے کس قدر عزیز ومحبوب ہے، اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا اور کہیں سکونت نہ اختیار کرتا، غور کیجئے یہ بات آپؐ اس وقت فرما رہے ہیں جبکہ آپؐ کو اذن ہجرت ہوچکا ہے، اور آپؐ نے یہ خواب بھی دیکھا ہے کہ دارلہجرت ایک پُر باغ وبہار مقام ہے (بخاری)، آپ کا خیال تھا کہ وہ یمامہ یا ہجر کا کوئی شہر ہوگا مگر یہ خوش نصیبی تو مدینہ کا مقدر تھی، اسی لیے بعض وہ مقامات بھی دار ہجرت نہ بن سکے جہاں کے لوگوں نے خود ہی آکر پیش کش کی کہ آپ ہمارے یہاں تشریف لائیے، بہرحال اس پورے پسِ منظر کے باوجود خود حضور اور صحابہ کو اس حکم الہی کو بجا لانا پڑا جو انہیں یوں دیا گیا تھا یعبادی الذین آمنوا إن ارضی واسعۃ فایای فاعبدون (عنکبوت۵۶) اور جس سے انحراف کرنے والوں کو ’’ظالمی انفسھم‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ہجرت یقینا بہت مشکل کام تھا، لیکن عقیدے وایمان کی حفاظت اس سے زیادہ ضروری تھی، دنیا کی ہر محبوب چیز کو، محبوب مقام ومکان کو، محبوب ترین اشخاص کو، ماں باپ اولاد سب کو عقیدہ وایمان کی حفاظت کے لیے قربان کرنا پڑے تو کوئی حرج نہیں، رسول خدا اور صحابہ نے یہ کر دکھایا، اس مشکل کو انجام دینے کے لئے انہیں بشارت دی گئی ومن یھاجر فی سبیل اللہ یجد فی الأرض مراغما کثیرا وسعۃ (نسا ۱۰۰) (ترجمہ: اور جو راہ خدا میںہجرت کرتا ہے، اسے روئے زمین پر بہت سی پناہ گاہیں اور کشادہ جگہیں مل جاتی ہیں) اور ہوا بھی ایسا کہ ہجرت کے بعد ابتدائی دور میں تو مسلمان بڑی کسمپرسی کی حالت میں رہے، لیکن پھر اللہ نے بڑی کشائس اور گنجائش پیدا فرمادی، اس کے بعد جو صحابہ کرام کے فقرو فاقہ کے واقعات ملتے ہیں وہ ان کے اختیاری ہیں، ان کی زاہدانہ اور درویشانہ شان کے رموز ہیں، ام المومنین حضرت زینبؓ کی زندگی دیکھیے سرکاری وظیفہ ملتا تو اسے مساکین میں تقسیم فرمادیتی تھیں اسی لیے ان کا لقب ہی ام المساکین پڑ گیا، خود آپؐ کا فقر وزہد اختیاری تھا، آپؐ نے اپنے اختیاری زہد وفقر سے امت کو استغنا کی تعلیم دی، اس پر قرآن بھی شاہد ہے اور حدیث بھی۔
ہجرت واقعی بہت مشکل عمل تھا، لیکن اس کے نتائج بہت دور رس تھے، چنانچہ قریش مکہ نے مہاجرین کی راہ میں بے شمار روڑے اٹکائے، خود حضورؐ کے قتل پر اتفاق کر لیا، لیکن اخلاص وعزم کے آگے پہاڑ بھی نہیں ٹہر پاتے، جب خدا پر بھروسہ کیا گیا اور اس کے حکم کی بجا آوری میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا گیا، بطور اسباب کے رات میں سفر اختیار کیا گیا اور تین دن غار میں پناہ لی گئی تو اس اخلاص وتوکل کے سبب مکڑیوں سے اللہ نے حفاظت کروائی، سراقہ کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے، وہ بیٹھ کر پھر اٹھ نہ سکا، ہجرت یہی تو سکھاتی ہے کہ اخلاص، عزم ، توکل اور اسباب اختیار کرنے کے ساتھ جب خدا کے حکم کو بجا لانے کی ٹھان لی جائے تو پھر اللہ کی طرف سے فتح کے دروازے کھلتے ہیں۔
ہجرت کیا تھی؟ محض ایک شہر سے دوسرے شہرت کی طرف نقل مکانی نہ تھی، بلکہ یہ حالات کی تبدیلی کی تمہید تھی، تحریک دعوت اسلامی اپنے ابتدائی اور تنگ حالی کے دور سے نکل کر مثالی اور خوشحالی کے عہد میں قدم رکھ رہی تھی، ہجرت عظیم انقلاب کا نقطۂ آغاز تھی، ہجرت دعوت اسلامی کے عروج کی علامت بن گئی، ہجرت کے سبب قلت کثرت میں اور ضعف قوت میں تبدیل ہوگیا، مسلمانوں کی بکھری قوت کو شوکت واجتماعیت نصیب ہوئی، اب جو تحریک محدود تھی، اس نے لا محدود دنیا کا سفر شروع کر دیا، ہجرت نے یہ ثابت کر دیا کہ اپنی تمام تر فتنہ سامانیوں کے باوجود باطل کے لئے شکست مقدر ہے اور بہتر انجام کار نیکوکاروں کا حصہ ہے، ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں مثالی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی گئی، جہاں سے عدل پروری، کرم گستری، انسانیت نوازی کی کرنیں سارے عالم پر پڑیں، حریت ومساوات کا درس پوری دنیا کو دیا گیا، غلبۂ دین کا وعدۂ الہی پورا ہوا اور اسلامی نظام وریاست کا ایک مثالی نمونہ پیش کر دیا گیا۔
لغت کے اعتبار سے اگر ہجرت کسی چیز سے بیزار ہوکر اسے چھوڑ دینے کو کہتے ہیں تو یہ معنی بھی اس ہجرت میں موجود ہیں، صحابہ کرام نے اپنی پسند کی کس کس چیز کو خدا کے حکم کی خاطر نہیں چھوڑا، عرف عام میں ہجرت اگر ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کو کہتے ہیں تو اس ہجرت میں بدرجہ اتم یہ معنی بھی پائے جاتے ہیں، اصطلاح شریعت میں ہجرت اگر دارالحرب سے دارالاسلام جانے کو کہتے ہیں تو یہ ہجرت تھی ہی مدینہ کو دارالاسلام بناکر اسلام کی آبیاری کرنے کے لیے، اسی کا نتیجہ تھا کہ قیصر روم کی سلطنت عظمیٰ اسلام کے زیر اثر آئی، کسری فارس کی دہکائی ہوئی آگ ہمیشہ کے لیے بجھ گئی_ یہ الگ بات کہ مجوسی نسل کے لوگ ہر زمانہ میں احیائے مجوسیت کی ادھیڑ بن میں لگے رہے اور خمینی انقلاب کے بعد تو یہ تحریک اس قدر تیز ہوئی کہ پورے عالم اسلام کے لیے دشمنان اسلام کا سب سے بڑا ہتھیار بن گئی_ یہ سب کیوں نہ ہوتا؟ قرآن مجید نے مہاجرین کو بے پناہ بشارتوں سے نوازا ہے کہ کہیں ان کی تعریف میں فرمایا اولئک یرجون رحمۃ اللہ (بقرہ:۲۱۸) (ترجمہ: یہی رحمت خداوندی کے سچے امیدوار ہیں) کہیں ان کے مقام بلند کی بابت فرمایا: ان الذین امنوا وھاجروا وجاھدوا فی سبیل اللہ باموالھم وانفسھم اعظم درجۃ عند اللہ واولئک ھم الفائزون۔ (توبہ:۲۰) (ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اللہ کے راستہ میں اپنی جان ومال سے جہاد کیا اللہ کے نزدیک ان کا درجہ بلند ہے اور وہی حقیقت میں کامیاب لوگ ہیں)۔
ظاہر ہے کہ ہجرت کا وہ مفہوم تو اب باقی نہیں رہا کہ اسلام کے اظہار کے لئے ہجرت شرط ہو، کیوں کہ جناب محمد رسول اللہؐ نے فتح کے بعد واضح الفاظ میں فرمادیا کہ لا ہجرۃ بعد الفتح فتح مکہ کے بعد ہجرت کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے، لیکن یہ بات اس ماحول میں فرمائی جا رہی تھی جس ماحول میں اسلام ایک ریاست بن گیا تھا، پورا جزیرۃ العرب اسلام کی آغوش میں آرہا تھا، غلبہ دین کا وعدہ الہی پورا ہورہا تھا، اس فضا میں اور تاریخ کے اس موڑ پر واقعی ہجرت کے کیا معنی، لیکن قرآن مجید کی آیات جو قیامت تک کے لیے ہیں اور اس حدیث کا پس منظر یہ پیغام دیتا ہے، کہ دارالکفر میں یادارالعہد میں رہتے ہوئے وہ محنت جاری رکھی جائے جو صحابہ کرام کی ہجرت کرنے والی جماعت نے مکہ میں کی تھی، دارالاسلام کے قیام اور غلبۂ دین کی تمنا اور اس کے لیے مطلوب مکی عہد کو سامنے رکھتے ہوئے دعوتی جد وجہد ایمان کا وہ تقاضہ ہے جس سے غفلت قابل مواخذہ ہے، عمل کا مکلف تو بقدر استطاعت بنایا گیا ہے لیکن اس ’’قدر استطاعت‘‘ سے بھی اعراض و غفلت اور اس حد تک کہ دینداروں کے ذہن سے بھی ہجرت وغلبہ دین کا مفہوم غائب ہوجائے، یہ نہ صرف قابل تعجب بلکہ سخت مواخذہ کا موجب ہے، کفر کی بالا دستی میں مطمئن ہوکر بیٹھ جانا اہل ایمان کا شیوہ نہیں، اہل ایمان کا اسوہ یہ ہے کہ بقدر استطاعت عملی تحریک جاری رہے، کفر وشرک سے نفرت قلب میں جاگزیں ہو، حتی کہ یاموت آجائے یا دین غالب ہوجائے اور اگر کسی کو موقع ملے اور حالات سازگار ہوں تو کسی ایسے ملک کی طرف کوچ کر جائے جو دارالاسلام کہلانے کا مستحق ہو۔
مختصر یہ کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت ایمان کی شرط تو نہ رہی مگر یہ حکم بایں طور تا قیامت باقی رہا کہ اگر ایمان و عقیدے کی حفاظت کے لئے کسی کو کسی مقام پر دشواری پیش آئے اور اس کے لیے ایسے مقام پر ہجرت کر جانے کے وسائل موجود ہوں جہاں بآسانی وہ اپنے ایمان وعقیدہ کی حفاظت کر سکے اور شریعت پر عمل پیرا ہو سکے تو ضرور کرنا چاہیے۔
ہجرت کے جس مفہوم کے ہم سب ہمہ وقت مکلف ہیں اور جس کا ہم سب سے مطالبہ ہے وہ اس حدیث سے مستفاد ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا المھاجر من ھجر مانھی اللہ عنہ ورسولہ (بخاری ومسلم) مہاجر وہ ہے جو ان تمام چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے، یعنی ہجرت کے لغوی معنی جو اوپر مذکور ہوئے وہ مراد لیے گئے ہیں، اگر کفر سے بیزاری ، شرک کے مظاہر سے نفرت ، ہندوانہ رسوم ورواج سے اجتناب ، محرمات سے بچنے کے ساتھ اوامر کی پابندی کی طرح ڈالی جائے اور اس طرح ایک صالح اسلامی معاشرہ کی تشکیل کی جائے تو یہ از خود ہجرت کے پیغام پر یک گو نہ عمل ہوگا، عقائد وعبادات، اسلام کے پسندیدہ معاشرہ کی تشکیل، اسلامی معاشرت کا رواج، نکاح وطلاق، تقسیم میراث، آپسی سلوک، نظام تعلیم وتربیت، سچ اور جھوٹ میں تمیز، طیب و خبیث میں تفریق اور ان جیسے اعمال میں اگر اسلام کی اتباع کر لی جائے تو شاید عند اللہ جوابدہی سے کسی حد تک نجات ممکن ہے، یوں تو نجات کا تمام تر مدار محض رب العزت کے فضل و کرم پر ہے، مگر اسی کی تعلیمات میں صراحت ہے کہ نجات کے لیے ایمان و عمل صالح شرط ہے، ہجرت کا یہی پیغام ہے کہ حالات بد سے بد تر ہوں، مسلمان کسی قدر اقلیت میں ہوں، وسائل معدوم ہوں ، ہر طرف سے تلواروں کی جھنکار لرزہ طاری کردے، مگر صاحب ایمان ہے تو تقدیر پر بھروسہ رکھے، ایمان و عقیدے کی حفاظت کرتا رہے، اس کی دعوت میں جی جان سے لگا رہے، احکام خداوندی پر عمل میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے، کفر وحرام کے درمیان رہ کر بھی محرمات ومنہیات سے اپنے آپ کو بچا لائے، یہی کامیابی کی سبیل ہے، یہی دعوت اسلامی کے ارتقائی سفر کا نقطۂ آغاز ہے، یہیں سے صحابہ کرام کا سفر شروع ہوا تھا، سیرت نبوی کے کامل اسوہ اور جامع پیغام کی ترتیب کو سامنے رکھتے ہوئے عمل کی ابتدا کردی جائے تو گویا ہجرت کے پیغام کو سمجھ لیا گیا، ایک ہجری سال کے اختتام اور دوسرے کے آغاز پر ہجرت کی یاد اور اس کا ذکر ہمیں انفرادی اور اجتماعی بہر اعتبار محاسبہ کی دعوت دیتا ہے، ہم نے اپنی نجات کے لئے کیا کیا، ملی فلاح وبہبود اور اسلام کی نصرت و حفاظت کے لیے ہم نے کیا قربانیاں دیں، دعوت دین اور خدمت دین کے عنوان سے ہم نے کتنے تقاضے پورے کیے، شریعت پر کس قدر عمل پیرا ہوئے، شریعت کا کتنا حصہ نافذ العمل ہے، کتنا متروک ہے، کتنے حصہ سے غفلت ہے جس پر عمل کے امکانات ومواقع بھی موجود ہیں، اگر اس یادگار تاریخی موقع پر محاسبہ کرتے ہوئے عملی تحریک چھیڑ دی جائے تو مورخ ضرور لکھے گا کہ فلاں ہجری سال کے آغاز پر ہجرت کے انقلابی پیغام کو سمجھ کر عمل درآمد کی ابتدا ہوئی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کام بہت عظیم ہے، اس لئے قربانی بھی بڑی دینی پڑے گی، کامیابی مگر اسی راہ پرچلنے میں ہے، تکلیف ہوگی تو ہوا کرے، پریشانی آئے گی تو آیا کرے، مصائب سے اہل ایمان گھبرایا نہیں کرتے، مصیبتوں سے تھک ہار کر بیٹھ جانا خدا ورسول کے سچے متبعین کی سنت نہیں، اگر کسی دل میں یہ وسوسہ بھی آئے تو قرآن کے اس خطاب پر نظر ڈالے اور اپنے دل ودماغ کو نئی قوت بخشے، تحریک عمل کو یہ انداز خطاب کمک فراہم کرتا ہے ولا تھنوا فی ابتغاء القوم ان تکونوا تألمون فانھم یألمون کما تألمون وترجون من اللہ مالا یرجون وکان اللہ علیما حکیما (نساء ۱۰۴) (ترجمہ: دشمنوں کے تعاقب میں بزدلی اور کمزوری مت دکھانا، اگر تمہیں تکلیف ہوتی ہے تو دشمنوں کو بھی تمہاری طرح تکلیف ہوتی ہے، لیکن تم اللہ کے جس ثواب کے امیدوار ہو، وہ نہیں ہیں، اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے اور حکمت والا ہے۔ )