Hijrat Ka paigham

محرم الحرام کا پیغام اور ہمارا طرزِ عمل

🖊ظفر امام

،دارالعلوم بہادرگنج، کشن گنج، بہار

  محرم الحرام کا سورج ایک بار پھر اپنی روپہلی کرنوں کے ساتھ کائناتِ ارضی پر طلوع ہوچکا ہے،زمانہ اتنا تیزگام ہوچکا ہے کہ بدلتے روز و شب کی آہٹ کے ساتھ ہی سال پورا ہوجاتا ہے،سال یوں گزر جاتا ہے جیسے چٹکی بجائی اور سال تمام،اِن گزرتے ماہ و سال میں اگر کچھ بدلاؤ نہیں ہوتا تو ہماری زندگی میں نہیں ہوتا،پچھلے سال ہم جس حالتِ انحطاط میں تھے اُس میں سرِ مو بھی کمی نہیں آتی،ہاں اس میں بیشی ضرور ہو جاتی ہے۔

     یوں تو خدائے بزرگ و برتر نے ماہِ محرم الحرام کو بےشمار فضیلتوں اور خصوصیتوں سے نوازا ہے،اگر یوں کہا جائے کہ جتنی خصوصیات اور امتیازات اس ماہِ محرم کو حاصل ہیں اتنے امتیازات دوسرے کسی اور مہینے کو حاصل نہیں تو شاید یہ بےجا نہ ہوگا،قرآنِ مقدس نے جن چار مہینوں کے سر پر ”حرمت“ کا سہرا سجایا ہے اُن میں سے ایک محرم کا مہینہ بھی ہے،ارشادِ خداوندی ہے:إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتَابِ اللہِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰواتِ وَ الْأَرْضَ،مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ“{پ ١۰ _ سورۂ توبہ}(بے شک اللہ تعالیٰ  کے نزدیک مہینوں کا شمار بارہ ہے،اور یہ شمار اُسی دن سے ہے جس دن سے اللہ تعالی نے آسمان و زمین کو وجود بخشا تھا،اُن میں سے چار محترم و معظم ہیں،یعنی اُن میں قتل و قتال اور جنگ و جدل ممنوع ہے)

      قرآنِ کریم کی آیت کے اِس ٹکڑے سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک چار مہینے امتیازی طور پر قابلِ احترام اور اور واجبِ تکریم ہیں، اب وہ چار مہینے ہیں کون سے؟ اُن کی تعیین سے گو قرآنِ مقدس ساکت ہے مگر احادیثِ رسول نے ان کی تعیین کردی ہے،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جنابِ نبئ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ” أَلسَّنَةُ إِثْناَ عَشَرَ شَهْرًا ، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثٌ ‌‌‌مُتَوَالِیَاتٌ،ذُوْالْقَعْدَةِ وَ ذُوْالحِجَّةِ وَ الْمُحَرَّمُ،وَ رَجَبُ مُضَرَ الَّذِیْ بَيْنَ جَمّادِي وَ شَعْبَانَ“{ بخاری _ کتاب التفسیر ، مسلم _ کتاب القسامۃ }(سال بارہ مہینے کے ہوتے ہیں،ان میں سے چار محترم و معظم ہیں،تین تو لگاتار ہیں،یعنی ذی قعدہ،ذی الحجہ،محرم اور مضر قبیلہ کا وہ رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے بیچ میں ہے)

     یہی نہیں بلکہ آمدِ اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت میں بھی اِس مہینے کو حرمت و عظمت اور تعظیم و تقدس کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا،وہ کفار جو ہمہ وقت مرنے مارنے پر تُلے رہتے تھے،خون کی ندیوں پر اُن کی حکمرانی ہوا کرتی تھی،اپنے خانوادے کے قاتل کو سکنڈ کے لئے بھی مہلت دینا گوارہ نہیں کرتے تھے،ہر آن اُن کی تلواریں قاتل کے خون کے لئے تشنہ رہتی تھیں،مگر محرم کے آتے ہی اُن کی تلواریں نیام پوش ہوجاتی تھیں،وہ اس مہینے کی عظمت کے سامنے سرنگوں ہوجاتے تھے حتی کہ اپنے گھرانے کے قاتلین سے بھی اس مہینے میں کوئی تعرض نہیں کرتے تھے۔

    اس آیتِ کریمہ،حدیثِ رسول اور دستورِ اہلِ عرب کی روشنی میں یہ بات آفتابِ منور اور ماہِ تاباں کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ محرم کے مہینے کی حرمت و تقدس اُسی دن سے ہے جس دن سے اللہ تعالی نے آسمان و زمین کی تخلیق فرمائی ہے،اِس لئے وہ لوگ غلط فہمی کے شکار ہیں جو نری جہالت اورعصبیت کی بنا پر اس کی حرمت کی کڑیوں کو ”سانحۂ شہادتِ حسینؓ“ کے ساتھ جوڑنے کی سعئ مذموم کرتے ہیں، کہ محرم کے مہینے کی حرمت اِس لئے ہے کہ اس میں نواسۂ رسولﷺ کی شہادت کا دلدوز و جگر سوز واقعہ پیش آیا تھا۔(ہاں یہ اور بات ہے کہ شہادتِ حسینؓ کا اپنا ایک مقام ہے،شہادتِ حسین تاریخِ اسلام کی پیشانی پر ایک ایسا روشن عنوان ہے جس کی شعاعوں کے سامنے سورج اور چاند کی روشنی کی کچھ وقعت نہیں)

      ماہِ محرم الحرام کی فضیلت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اسے باری تعالی نے حرمت و تقدس کا تاج عطا کیا ہے،علاوہ ازیں اس کی فضیلت میں نبئ رحمتﷺ نے متعدد احادیث بھی ارشاد فرمائی ہیں، جس سے اس کی فضیلت میں مزید تاکید اور تقویت پیدا ہوجاتی ہے۔

        چنانچہ ایک حدیث میں اللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا جس کے راوی سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں:أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللّٰهِ الْمُحَرَّمُ“{ مسلم شریف ، کتاب الصیام } ( رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ کے مہینہ”محرم“ کا ہے ) 

     یہ تو ماہِ محرم کے عمومی دنوں میں روزہ رکھنے کی فضیلت کا ذکر ہے،ساتھ ہی اللہ کے نبیﷺ نے اِس مہینے کے ایک خاص دن ( یومِ عاشوراء ) میں روزہ رکھنے کا بطورِ خاص حکم فرمایا ہے اور اِس کی بہت بڑی فضیلت ارشاد فرمائی ہے،اس کی فضیلت کے پیشِ نظر آپ خود بھی زندگی کی آخری رمق تک یوم عاشورہ کے اِس عملِ صوم پر کار بند رہے،چنانچہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے جس کو محدثِ کبیر امام مسلم علیہ الرحمہ نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف مسلم شریف میں نقل فرمائی ہے: عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ أَنَّه قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ ” صِيَامُ عَاشُوْرَاءَ إِنِّيْ أَحْتَسِبُ عَلَي اللّٰهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ اللَّتِيْ قَبْلَه " ( عاشوراء کے روزے سے متعلق میرا گمان اللہ تعالی کے بارے میں یہ ہیکہ وہ اُن کے بدلے میں پچھلے ایک سال کے گناہ معاف فرمادیں گے)-        اِن کے علاوہ اور بھی متعدد روایات ہیں جو ماہِ محرم اور یومِ عاشورہ کے روزے کی فضیلتوں اور برکتوں کو اجاگر کرتی ہیں،اُن تمام روایات کا احاطہ اِس مختصر سے مضمون میں ناقابلِ امکان ہے،اور نہ ہی ہمارا مقصد اُن تمام روایتوں کو ذکر کرنا ہے،ہمارا مقصد تو صرف محرم الحرام کے اُس پیغام کو عام کرنا ہے جسے سیدالکونین،تاجدارِ دوعالم اور رحمة للعالمین ﷺ نے بیان کیا ہے اور جسے آج امتِ مسلمہ طاقِ نسیان کے حوالے کر بیٹھی ہے۔

    قرآن و احادیث کے اِن فرمودات سے ماہِ محرم کا مُنعَم علیہ ہونا ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے اِس مہینے کے اوپر انعامات کی کیسی بارشیں کر رکھی ہیں،قرآن و احادیث کے یہ ارشادات امتِ مسلمہ کو اِنعامات کی اس بارش میں نہانے کے لئے آوازیں لگا رہے ہیں،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امتِ مسلمہ انعامات کی اس بارش میں نہانے کے لئے تسابق و تبادر کا مظاہرہ کرتی،اس کی بےپایاں فضیلتوں اور بے کراں رحمتوں سے اپنے دامنِ مراد کو لبریز کرتی مگر صد افسوس کہ امتِ مسلمہ کے افراد کو جس دن کے متعلق یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ”اُس ایک دن کا روزہ پچھلے سال کے سارے گناہوں کو محو کردیتا ہے“اُسی دن بجائے اِس کے کہ وہ اللہ کے لئے روزہ رکھ کر اُس کا تقرب حاصل کرتے اور اُس سے اپنا لو استوار کرتے سرپھٹولیاں اور یا علی یا حسین کے نعرے لگاکر گناہوں کے مزید بوجھ اپنے سر چڑھا لیتے ہیں۔

     جیسے ہی محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتا ہے،ویسے ہی امتِ مسلمہ کے دل و دماغ کی سوئی ہوئی واہیات انگڑائیاں لینی شروع کردیتی ہیں، اور پھر ان تمام فضیلتوں اور رحمتوں کو یکسر پس پشت ڈال کر صرف اور صرف حضرت حسینؓ کی خونچکاں شہادت کی یاد کو تازہ کیا جانے لگتا ہے،جیسے محرم الحرام کے اس مہینے میں سوائے حضرت حسینؓ کی شہادت کے اور کچھ رکھا ہی نہیں ہے،ان دس دنوں میں عجیب و غریب خرافات ایجاد ہوجاتی ہیں،حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر تعزیہ سازی کا کام تیز گام ہوجاتا ہے،ساز و طبل کی آوازیں آنی شروع ہوجاتی ہیں،در و بام پر چراغاں کیا جانے لگتا ہے،حضرت حسینؓ کے نام پر سبیلیں لگائی جاتی ہیں،(اور پھر تصور یہ قائم کیا جاتا ہے کہ اس سے حضرت حسینؓ کی پیاسی روح کو سیرابی ملےگی،العیاذ باللہ)آپؓ کے نام پر دیگیں چڑھائی جاتی ہیں،نوع بہ نوع پکوان اور مالیدے تیار کئے جاتے ہیں،نذر و نیاز کی بیہودہ رسمیں منائی جاتی ہیں،ان ساری چیزوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں،اسلام ان چیزوں سے بہت پہلے اپنی براءت کا اعلان کرچکا ہے،اسلام نام ہے قرآن و احادیث اور آثارِ صحابہ کے مجموعے کا،نہ کہ اُن میں اپنی من گھڑت باتوں اور سنے سنائے افسانوں کے ذریعہ رنگ آمیزی کا،محرم سے متعلق اوپر ذکرکردہ قرآن و احادیث کے علاوہ جتنی ساری خرافات ہیں اُن کا قرآن و احادیث اور آثارِ صحابہ سے کوئی تعلق نہیں۔ 

    جو لوگ گمان کرتے ہیں کہ یہ حسینی رنگ ہے تو اُن کا یہ گمان محض گمان ہی ہے،حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں،ہر گز یہ حسینی رنگ نہیں ہے اور نہ یہ ہوسکتا ہے،حسینی رنگ تو یہ ہے کہ اسلام اور دین کی خاطر اگر اپنا سر تن سے جدا کرنے کی نوبت آئے،اپنے اہلِ خانہ حتی کہ معصوم بچوں کے خون سے شجرِ اسلام کی سوکھتی ڈالیوں کو سیراب کرنے کی ضرورت آن پڑے اور شریعت کی سربلندی کی خاطر اپنا گھر بار لٹانا پڑے تو چیں بہ جبیں ہوئے بغیر انسان خود کو اس عمل کے لئے خوشی بہ  خوشی پیش کردے۔

     آخر یہ کیسا حسینی رنگ ہے کہ ساز و طبل کی آوازیں،ڈھول تاشے کے خمار اور لٹھ بازیوں کے مظاہرے ہمیں ایسا دین بیزار بنا دیتے ہیں کہ ہم اُس حالت میں اپنے خدا اور اپنے دین کو بھلا بیٹھتے ہیں،نہ اذان کا دلکش ترنم ہماری مردہ روح کو جھنجھوڑ پاتا ہے اور نہ ہی اقامت کی دِل بہار لوریاں ہمارے جسم پر لرزی طاری کرپاتی ہیں، ہم خدا کے نام سے اتنے بدکے ہوئے ہوتے ہیں کہ اُس کی نافرمانی  کی ہر حد سے تجاوز کر بیٹھتے ہیں،پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ یہ حسینی رنگ ہے،حضرت حسینؓ نے تو میدانِ کربلا میں بھی جبکہ آپ کا جسمِ اطہر تیر بہ ہدف بن چکا تھا،آپ کا سرِ مبارک تلواروں کے سائے میں آگیا تھا،غرض یہ کہ آپ کا پورا وجود دشمنوں کے حملوں کی زَد میں تھا،یہاں تک کہ آپ کا پورا جسم لہولہان ہوگیا،پیشانی سے خون کے فوارے پھوٹ پڑے اور آپ کے وجود نے سینکڑوں زخم اپنے اندر سمو لئے تو اُس عالم میں بھی آپ نے اپنی نمازِ عشق نہ چھوڑی اور اپنے شیوۂ وفائے دین کو گلے لگا کر جامِ شہادت نوش کرلیا۔

     آج ہمارا عمل نہ حسینؓ کے عمل سے میل کھاتا ہے اور نہ ہی حسین کے نانا کے دین سے،پھر بھی ہم اپنے کئے پر خوش ہیں،پھول کر غبارے بنے پھرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ حسینی رنگ ہے اور یہی رنگ ہمیں کل میدانِ قیامت میں سب سے ممتاز کردےگا،یقینا ممتاز کردےگا مگر اصحاب الیمین کے طور پر نہیں بلکہ اصحاب الشمال کے طور پر، اللہ ہم سب کی ایسی واہیات سے حفاظت فرمائے۔

     ہاں یہ بات قابل ِتسلیم ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے محرم کی رسومات میں نسبتا کچھ کمی واقع ہوئی ہے،سر پھٹولیاں اور سینہ کوبیاں کم دیکھنے کو ملتی ہیں،علماءِ کرام کی انتھک کوششوں سے معاشرے سے محرم کی دین مخالف برائیاں رفتہ رفتہ اپنا دامن سمیٹنے لگی ہیں،بہت کم لوگ اب محرم مناتے اور اُس کی من گھڑت باتوں پر عمل کرتے ہیں،ڈھول تاشے کی آوازیں بھی کم سنائی دیتی ہیں،تاہم لوگوں نے اس کا دوسرا متبادل طریقہ نکال لیا ہے،اب اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

      آج کل پیسوں کا دور ہے،پیسوں کی ریل پیل نے لوگوں کو عیاشی پلندہ بنا دیا ہے،محرم تو لوگ کم کھیلتے ہیں مگر کربلا کے نام پر منعقد بازار میں خوب زور و شور کے ساتھ شرکت ہیں،بوڑھے بچے، جوان اور نوجوان،عورت،مرد اور لڑکے لڑکیوں کا ٹھٹھ مارتا سمندر تاحد نگاہ پھیلا ہوا ہوتا ہے،جدھر دیکھئے لڑکیوں کی بھیڑ،جس جانب نگاہ اٹھائیے لڑکوں کی ٹولی،اِدھر دیکھئے تو عشق دہائیاں دیتا نظر آئے،اُدھر نگاہ اٹھائیے تو حُسن اپنی نخرے بازی کے ساتھ دکھائی دے،پھر کچھ دیر بعد حُسن خرامِ ناز کے ساتھ آگے کو چل دے اور عشق اس کے پیچھے کاسۂ حسن اٹھائے چلتا پھرے، آخر کار حُسن کی شکست اور عشق کی فتح کا منظر دیکھنے کو ملے،الغرض اسے بازارِ کربلا کے بجائے اگر بازارِ حُسن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا،کیونکہ اس بازار میں حُسن نیلام ہوتا ہے،جہاں عشق چند معمولی کوڑیوں کے عوض اس کا خریدار بنتا ہے، بناتِ حوا کی ردائے عفت سرِبازار تار تار ہوتی ہے،یہ بازار نہیں حسن و عشق کا سنگم ہوتا ہے، جہاں عشق اپنی دولتیں لٹاتا اور حسن اُن کو اپنے دامنِ فریب میں سمیٹتا ہے،کئی کئی جوڑوں کے اسی بازارِ حسن  سے فرار کے قصے بھی وجود پذیر ہوتے ہیں،الغرض یہ بازار برائیوں کی آماجگاہ ہوتا ہے۔

     اس لئے ہر والدین کو چاہیے کہ محرم کے اس پاک دن میں اپنے گھروں میں عبادت و ریاضت کا ماحول پیدا کریں،اپنے بال بچوں سمیت یوم عاشورہ کو روزہ رکھنے کا اہتمام کریں،اُس دن اپنے گھر والوں پر اور دنوں کی بہ نسبت دسترخوان کو وسیع کریں کہ یہ برکت کا سبب ہے،ساتھ اُس دن اپنے بچوں بالخصوص اپنی بچیوں  پر کڑی نگاہ رکھیں،اخلاق شکن موبائل سے اُن کو کوسوں دور رکھیں اور کسی بھی حالت میں اُن کو بازار جانے کی اجازت نہ دیں،مبادا کوئی ایسا حادثہ پیش آجائے جس سے آپ سدا کے لئے معاشرہ اور سماج میں رسوا اور بدنام ہوجائیں۔

     اللہ پاک پوری امتِ مسلمہ کو سیدھی راہ پر گامزن کرے اور محرم کے اس پاک و صاف موقع کو گدلا کرنے سے ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔