Site icon

دادا مرشد احمد تحصیل دار: گنجریا کے ایک عظیم زمین دار

✍️ محمد شہباز عالم مصباحی

عائشہ منزل، سرکار پٹی، گنجریا، اسلام پور۔ ضلع اتر دیناج پور، مغربی بنگال

___________________

میرے جد امجد مرشد احمد مرحوم ضلع اتر دیناج پور، مغربی بنگال میں واقع تاریخی بستی گنجریا کے ایک مہذب، شریف اور زمین دار محلہ "سرکار پٹی” کے باشندے تھے جس کا تاریخی پس منظر ماسٹر محمد اسلم، ساکن سرکار پٹی، گنجریا و سینئر استاذ جامعہ اہل سنت جوہر العلوم گنجریا کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ 38-1537ء میں مغلیہ عہد میں نیپال کے راستے سے بعض حملہ آور داخل ہو کر ہندوستان کے چند علاقوں پر قابض ہو گئے تھے۔ دہلی کے مغل بادشاہ محمد ہمایوں کو جب اس کی خبر لگی تو بڑے پریشان ہوئے اور چار جنرلوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ ان بیرونی حملہ آوروں کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا۔ ان چاروں جنرلوں نے فوجیوں کی ایک ایک ٹکڑی لے کر ان حملہ آوروں سے ان ان علاقوں میں جا کر جہاں ان سبھوں نے پڑاؤ کیا تھا، جم کر جنگ کی اور انہیں نیپال ہی کے راستے ہندوستان سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ دہلی کے مغل بادشاہ تک جب یہ خبر پہنچی تو بہت خوش ہوئے اور جن علاقوں کو ان جنرلوں نے واگذار کیا تھا وہ علاقے انعامیہ بطور جاگیر ان کے حوالے کر دیے۔ چنانچہ "گنجریا” کا علاقہ ایک میجر جنرل گل محمد کے حوالے کیا، "سرائے کوری ــــ (مہین گاؤں)” کا علاقہ ایک کے حوالے، "گوا گاؤں” کا علاقہ ایک کو دیا تو "بوگرا” کا علاقہ (جو ابھی بنگلہ دیش میں واقع ہے ) ایک جنرل کو بطور جاگیر سونپا۔ بعد میں ان چاروں جنرلوں نے ان علاقوں کو خوب آباد کیا اور ہر جگہ نہایت ہی منظم آبادی بسائی اور عظیم رقبے پر مشتمل وسیع زمین داری قائم کی ۔

مرشد احمد کے جد اعلی گل محمد:

گل محمد دہلی کے اطراف میں دکھن پچھم سمت کسی علاقے کے رہنے والے تھے، نسلی طور پر شیخ صدیقی تھے اور ہمایوں کے دربار سے ایک فوجی کے طور پر وابستہ تھے۔ گل محمد کو انعام کے طور پر جو گنجریا کا علاقہ دیا گیا تھا اس میں سات موضع جات: گنجر یا، موہنیا، ڈھیکی پارہ، مہیس مارا، رتن پور، مریا اور بلدی ہاٹا آتے تھے ۔ ان سات موضع کے زمین دار گل محمد تھے جس کا کھیوٹ نمبر : 07 ہے۔ گل محمد کے والد کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا۔ ماں بیوہ ہو چکی تھیں جنہیں بعد میں گل محمد اپنے علاقے سے گنجریا لے کر آگئے تھے۔ گنجریا میں یہ اول اول وہاں بسے تھے جہاں ابھی گنجریا ریلوے اسٹیشن واقع ہے اور اپنے ہاتھیوں اور گھوڑوں کو پانی پلانے کے لئے جھل جھلی میں ایک بڑا سا تالاب کھدوایا تھا جو اب بھی باقی ہے۔ گل محمد کی شادی طو فان علی زمین دار کی اکلوتی صاحبزادی سے ہوئی تھی جن کا گھر گنجریا کے جناب احمد (بلاک ممبر ) کے گھر کے پیچھے تھا جہاں ابھی ایک اسکول قائم ہے۔ گل محمد کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں ۔ بڑے بیٹے لعل محمد (بڑے سرکار ) اور چھوٹے بیٹے کالو محمد ( چھوٹے سرکار ) تھے، پھر لعل محمد کے دو بیٹے تھے اور کالو محمد کے پانچ بیٹے جن میں سے ایک کا نام دادن علی تھا۔ بڑے لڑکے (بڑے سرکار ) کی اولاد سے جو خاندان آباد ہوا اس کا نام "بڑا سر کار پٹی” رکھا گیا اور چھوٹے لڑکے (چھوٹے سرکار) کی اولاد کے خاندان کا نام” سرکار پٹی” پڑا۔ بڑا سرکار پٹی اور سرکار پٹی کی حالیہ نئی نسل گل محمد کی نویں پشت سے تعلق رکھتی ہے۔

گنجریا شمالی بنگال میں ایک واحد بستی ہے جہاں چودہ ذات کے ہندو بستے ہیں۔ ان سب کو مختلف کاموں کے لئے گل محمد ہی نے بسایا تھا۔ ان کے علاوہ مختلف پیشوں سے وابستہ مسلم برادری کے افراد کو بھی مختلف گاؤں سے لاکر گنجریا میں بسایا گیا تھا۔

میجر جنرل گل محمد ہی کے چھوٹے صاحب زادے کالو محمد عرف چھوٹے سرکار کی نسل سے میرے دادا مرشد احمد تحصیل دار تھے جو بہت نامور اور با رعب شخصیت کے حامل تھے۔

ولادت:

تلاش بسیار کے باوجود مرشد احمد تحصیل دار مرحوم کی تاریخ پیدائش نہیں معلوم ہو سکی۔ والد تراب علی زمین دار مرحوم تھے جن کا گھر اولا حاجی ماسٹر عبد الحسین اور محمد حسین صاحبان ہی کی فیملی میں تھا اور پھر وہاں سے نکل کر مہاراجہ ڈیگھی (مہاراجہ تالاب) کے پاس رہائش اختیار کی تھی۔ تراب علی کی دو بیویاں تھیں۔ ایک زوجہ سے مرشد احمد اور کفیل الدین تھے اور ایک زوجہ سے فریض الدین جن کی شادی چنامنا میں ہوئی تھی اور انتقال بتاریخ 3 ربیع الاول 1395ھ بمطابق 16 مارچ 1975ء بروز اتوار ہوا تھا۔

ازدواجی زندگی اور اولاد:

مرشد احمد تحصیل دار کی تین شادیاں ہوئی تھیں. پہلی شادی منجوک میں سخاوت حسین تحصیل دار کے گھرانے میں ہوئی تھی، لیکن اس زوجہ سے کوئی اولاد نہیں تھی اور قبل از وقت فوت بھی ہوگئی تھیں. دوسری شادی دادا نے آمباڑی میں کی تھی. آم باڑی، داملباڑی ہاٹ (ضلع کشن گنج، بہار) سے جانب جنوب ایک گاؤں ہے جس میں مہذب لوگ بستے ہیں اور اس وقت وہ لوگ ہاتھیوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے تھے. اس دادی کا نام حفیظہ خاتون تھا. اس زوجہ کے بطن سے تین اولاد ہوئیں. ایک لڑکا اور دو لڑکیاں. لڑکے کا نام حکیم الدین تھا. بڑے صاحبزادے حکیم الدین کی تعلیم و تربیت پر دادا نے خوب توجہ دی. حکیم الدین نے اُس دور میں مدراس میں جا کر گریجویشن کیا تھا اور تعلیم سے فراغت کے بعد اسلام پور کوآپریٹو بینک کے منیجنگ عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ تاحیات وہ منیجر رہے اور ریٹائرمنٹ کے چند سال بعد اس جہان فانی سے کوچ کر گئے. دونوں لڑکیوں میں سے ایک کی شادی سہاگی (چھترگاچھ، کشن گنج) کے عبد الغفور صاحب سے ہوئی اور ایک کی منجوک کے الیاس صاحب سے. دادا کی یہ زوجہ بھی دادا کی حیات ہی میں وفات پا گئیں. اس کے بعد دادا نے تیسری شادی آمباڑی ہی میں حفیظہ خاتون مرحومہ کی چچا زاد بہن عائشہ خاتون سے کی جو میری حقیقی دادی ہیں. مزے کی بات یہ ہے کہ دادی عائشہ اور دادا کی جوڑی ایسی ہی تھی جیسے کہ سیاہ بادل کی اوٹ میں چاند. دادی سیاہ رنگ کی تھیں اور دادا بنگالی وضع کے نہایت خوبرو سفید رنگ کے آدمی. لیکن اُس دور میں چونکہ جمالِ صورت کے بجائے جمالِ سیرت کو ترجیح دی جاتی تھی. اس لیے یہ کوئی بات نہ تھی. دادی سیاہ رنگ کی ضرور تھیں، لیکن عادات و اطوار کی ملکۂ حسن تھیں. اس زوجہ سے دادا کے یہاں چھ لڑکوں اور دو لڑکیوں نے جنم لیا. پہلے لڑکے کا نام عظیم الدین جو گنجریا پرائمری اسکول کے ٹیچر ہوئے اور بعد میں اسکول کے ہیڈ بن کر ریٹائرڈ ہوئے اور 2021 میں وفات پا گئے. دوسرے لڑکے کا نام نظیم الدین (مرحوم) عرف مستان صاحب تھا. یہ دادا کی لاکھ کوشش کے باوجود تعلیم سے محروم رہے اور ناخواندہ تھے. لیکن شاید کچھ ابجد خوانی کی تھی. ناخواندگی کی وجہ سے دادا کی حیات ہی میں کھیتی باڑی میں منہمک ہوگئے تھے اور دادا کی سینکڑوں ایکڑوں پر پھیلی زمینوں کی دیکھ بھال کی تھی. نہایت طاقت ور تھے، لیکن ایک مزمن مرض کی وجہ سے بعد میں کمزور ہوگئے تھے اور اسی وجہ سے شاید ان بھائیوں میں سب سے پہلے اس دنیا سے چل بسے. لا ولد ہونے کی وجہ سے مجھ سے بے انتہا محبت کرتے تھے، بلکہ اپنے حقیقی بیٹے کے مانند مانتے تھے. بچپن میں میں اپنے انہی بڑے ابا کے ساتھ رہتا تھا، بلکہ مجھے یاد ہے کہ کبھی کبھی میں ان کے گلے کو پکڑ کر انہی کے پاس سو جاتا تھا. جب تک مجھے نیند نہیں آتی تھی وہ اپنے ہاتھوں سے پنکھا جھیلتے رہتے تھے. مجھے عالم دین کے روپ میں دیکھنے کی ان کی بڑی خواہش تھی، لیکن میری فراغت سے پہلے ہی وہ موت کی آغوش میں چلے گئے. اللہ انہیں غریق مغفرت و رحمت کرے. تیسرے لڑکے کا نام شفیق عالم عرف جنگ بہادر ہے . ان کو شروع سے پڑھائی سے دلچسپی نہ تھی اور نہ ان پر کوشش کی گئی. ان کی دو شادیاں ہیں. پہلی بیوی وفات پا گئی ہیں اور دوسری شریکِ حیات ہیں. چوتھے ہمارے والد موسوم بہ محمد اقبال نوری ہیں. ان کی تعلیم میٹرک تک تھی اور دو پارٹ ٹائم سرکاری ملازمت سے وابستـہ تھے. ایک ملازمت محکمہ ڈاک میں تھی بطور اسسٹنٹ برانچ پوسٹ ماسٹر اور دوسری گنجریا گرام پنچایت میں بطور ٹیکس کلکٹر (یعنی قدیم تحصیل دار)، لیکن پنچایت والی اس ملازمت سے انہوں نے اپنے تیسرے بیٹے کے حق میں استعفی دے کر انہیں ملازمت دے دی تھی اور یہ نوکری اس تیسرے صاحب کو پنچایت والوں کے اتفاق رائے سے مل بھی گئی ہے. یہ تو یوں میٹرک ہولڈر تھے، لیکن دماغی توانائی میں کسی ایم اے ہولڈر سے کم نہیں تھے. صرف آٹھ سال کی عمر ہی سے انہوں نے گھر کی گارجنی سنبھالی تھی، کیوں کہ ان کی چھ یا سات سال کی عمر ہی میں دادا کافی کمزور ہوگئے تھے اور افراتفری کی وجہ سے گھر کی مالی حالت بھی خراب ہوگئی تھی. پانچویں نمبر پر جناب گل محمد آتے ہیں. انہیں حساب کتاب اور تھوڑی بہت بنگلہ زبان آتی ہے. یعنی معمولی ابتدائی تعلیم سے بہرہ ور ہیں. سب سے چھوٹے لڑکے کا نام صغیر الدین ہے. ان کو سب بھائیوں نے مل کر پڑھایا اور عالم دین بنایا. یہ جامعہ اشرفیہ، مبارک پور سے فارغ مصباحی ہیں اور پڑتاپ پور، گوپال گنج، بہار کے ایک سرکاری ادارہ دارالعلوم قادریہ میں صدر المدرسين ہیں.
دادا کی اِس زوجہ کی دو لڑکیوں میں سے ایک کی شادی کوئی ماری کے شمس الدین صاحب سے اور دوسری کی شادی ہلدا گاؤں کے مجیب الرحمن صاحب سے ہوئی تھی. یہ دونوں اور پہلی زوجہ سے دونوں بیٹیاں بھی اس دار فانی سے عالمِ بقا کے سفر پر روانہ ہوچکی ہیں. اللہ کریم ان سبھوں کی مغفرت فرمائے۔

یہ بھی پڑھیں:

تعلیم:

ان کی اعلی تعلیم کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا، البتہ وہ ایک عظیم فارسی داں تھے۔ گنجریا کے مؤقر عالم دین مولانا عبد الباقي نوری مصباحی دام ظلہ اس حوالے سے اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ بچپنے میں ابتدائی تعلیم کے لئے مدرسہ جوہر العلوم گنجریا جاتے تو کبھی کبھی تحصیل دار صاحب جو کھلیان میں باہر مسند نشین ہوتے نظر پڑتے ہی انہیں اپنے پاس بلاتے اور گلستان، بوستاں، کریما، یوسف و زلیخا سے بعض اشعار پوچھ کر ان کا ترجمہ کرنے کہتے اور پھر اپنا ترجمہ سناتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ انہیں فارسی زبان و شاعری سے شغف تھا اور اس کی اچھی نالج تھی۔

تحصیل داری اور زمین داری:

مرشد احمد مرحوم کی تحصیل داری میں موضع گنجریا، موضع موہنیا، موضع ڈھیکی پارہ، موضع مہیس مارا، موضع رتن پور، موضع مریا، موضع بلدی ہاٹا، موضع سیتا جھاڑی اور موضع دامل باڑی وغیرہ کے تمام گاؤں آتے تھے. اتنی بڑی تحصیل داری زیرِ ذمہ ہونے کی وجہ سے ان کے پاس دو عالیشان سواری گاڑیاں تھیں جن کے لیے دو جوڑے خوب صورت مسٹنڈے بیل تھے. ان سواری گاڑیوں میں متبادل طور پر ان کے گاڑی بان ان کو بٹھا کر گاہے بہ گاہے ان گاؤں کا دورہ کراتے تھے. ان گاؤں سے جو محصول وصول ہوتا تھا وہ نوابِ کھگڑا کو بھیج دیا جاتا تھا.
تحصیل داری کے ساتھ اپنی ذاتی زمین داری ہونے کی وجہ سے ان کے پاس نوکر چاکر کی ایک ٹیم تھی جو ان کی کھیتی باڑی کا پورا کام اپنی نگہداشت میں کرتی اور ساتھ ہی جوتنے کے بیلوں کو چراتی بھی تھی. گنجریا میں زمین داری کا یہ وہ زمانہ تھا جبکہ مظفر پور، دربھنگہ اور چھپرہ وغیرہ سے لوگ آکر یہاں مزدوری کرتے تھے. آج بھی ان میں بعض کی اولادیں یہیں آباد ہیں. اگرچہ پیشہ اب بدل چکا ہے.
مرشد احمد کے پاس ان کی تحصیل داری کو سنبھالنے کے لئے ایک خاص منشی بھی تھے جو تحصیل داری کے ساتھ ساتھ دادا کی زمین جائیداد کا بھی حساب کتاب رکھتے تھے.
تحصیل داری کی وجہ سے لوگ کثرت سے ان سے ملنے آتے تھے جس کے لیے انہوں نے ایک بڑا شاندار باہری گھر بنایا تھا اور وہ ہمیشہ اسی میں باہر ہی رہتے تھے. صرف کھانا کھانے کے لیے اندر (زنان خانے میں) جاتے تھے. جب تک وہ باحیات رہے مستورات میں سے کسی کو بھی باہر آنے کی ہمت نہ ہوتی تھی.

مرشد احمد تحصیل دار کے ضلع دار، کرانی اور کار پرداز:

مرشد احمد کے ضلع دار، ظہیرو چچا تھے جو نوری ٹولہ (گنجریا) کے مالا چچا کے بھائی تھے اور کرانی یا منیجر آمباڑی (گوال پوکھر) کے ایک صاحب تھے، جبکہ ان کے کار پرداز اور منشی کریم الدین عرف بسواس جی مرحوم تھے، جو زمینداری کے انتظامات میں ان کے دست راست تھے۔

نوابِ کھگڑا (کشن گنج) سے تعلقات:

مرشد احمد چونکہ نوابِ کھگڑا ہی کے تحصیل دار تھے تو ان کے اور آخری نواب کے مابین بڑے گہرے تعلقات تھے اور نواب صاحب بذات خود ایک بار تحصیل دار صاحب سے ملنے ان کے گھر بھی آئے تھے جو کہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی بات ہے اور ان دونوں کے مابین گہرے تعلقات پر دلیل ہے، کیوں کہ اس عہد کے نواب کا اپنا کر و فر ہوتا تھا اور وہ کسی کے یہاں بہت کم ہی جاتا تھا۔

خوش خصالی اور رعب و دبدبہ:

وہ اپنی حیات میں جہاں خوش خصال تھے وہیں بہت با رعب تھے. کسی کو ہمت نہیں تھی کہ اس بوڑھے شریف شخص کو آنکھ دکھا سکے یا ان کے سامنے کوئی خلافِ وقار بات کر سکے.

مرشد احمد کے نامور فرزند محمد اقبال نوری:

دادا مرشد احمد تحصیل دار مرحوم نے صرف آٹھ سال کی عمر میں اپنے پانچویں بیٹے جناب محمد اقبال نوری (سابق اسسٹنٹ برانچ پوسٹ ماسٹر محکمۂ ڈاک گنجریا بازار و ٹیکس کلکٹر گنجریا گرام پنچایت) کے ناتواں کندھوں پر اپنے پورے گھر کی ذمہ داری ڈال دی تھی۔ دادا کے انتقال کے بعد ان کی اولاد میں سے چھ افراد غیر شادی شدہ تھے۔ محمد اقبال نوری مرحوم نے سب سے پہلے اپنی گارجن شپ میں اپنی بڑی بہن اقبال النساء مرحومہ کی شادی کوئی ماری کے جناب شمس الہدی مرحوم سے کرائی اور اس کے بعد پھر یکے بعد دیگرے بشمول خود پانچ بھائیوں کی شادی دلائی۔ ایک بھانجی عقیلہ خاتون کی شادی بھی ڈانگی بستی میں اپنے گھر سے دلائی تھی بلکہ اس کی پوری کفالت کی تھی۔

محمد اقبال نوری مرحوم خانقاہ عالیہ سمرقندیہ دربھنگہ سے ارادت مندانہ متعلق تھے اور خانقاہ عالیہ شہبازیہ، بھاگل پور اور دیگر خانقاہوں سے عقیدت مندانہ۔ خانقاہ عالیہ شہبازیہ، بھاگل پور سے تعلق کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ میری پیدائش سے کچھ دن پہلے وہ یہاں خطیب اعظم حضرت مولانا سید شاہ محمد اشتیاق شہبازی علیہ الرحمۃ سابق سجادہ نشین خانقاہ عالیہ شہبازیہ بھاگل پور کو گنجریا کی تاریخی سہ روزہ کانفرنس "مختار دو عالم کانفرنس” میں خطاب کے لئے دعوت دینے آئے تھے اور بانیِ خانقاہ حضرت قطب الاقطاب مخدوم مولانا شہباز محمد بھاگل پوری علیہ الرحمۃ کی بارگاہ میں حاضری دے کر یہ منت کی تھی کہ اگر لڑکا پیدا ہوا تو آپ ہی کے نام پر نام رکھوں گا اور پھر میں ناخلف پیدا ہوا اور ایک بابرکت نام پایا۔

بتاریخ 4 ربیع النور، بروز پیر، 1443ھ مطابق 11 اکتوبر، بروز پیر، 2021ء، بوقت: 01:35 دن بنگلور شہر میں علاج کے دوران محمد اقبال نوری کا انتقال پر ملال ہوگیا تھا اور جسد خاکی کو بذریعۂ ہوائی جہاز سائی بابا ہاسپٹل وائٹ فیلڈ، بنگلور سے آبائی وطن گنجریا لایا گیا تھا۔ بتاریخ 12 اکتوبر، 2021ء، بروز منگل، بعد نماز ظہر مرحوم کے سب سے چھوٹے بھائی حضرت مولانا صغیر الدین مصباحی صدر المدرسين دار العلوم قادریہ، پرتاپ پور، گوپال گنج، بہار نے نماز جنازہ پڑھائی تھی اور تدفین گنجریا کے آبائی قبرستان میں عمل میں آئی تھی۔ رب کریم ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت کرے۔

وفات حسرت آیات:

بتاریخ 14 محرم الحرام 1394ھ بمطابق 8 فروری 1974 بروز ہفتہ ایک لمبی علالت کے بعد مرشد احمد مرحوم انتقال کر گئے تھے۔ جاں کنی کے وقت سورۂ یسن و کلمہ خوانی کے لئے تقوی شعار صوفی بزرگ حضرت حافظ راشد علیہ الرحمۃ کو بلایا گیا تھا جن سے ان کے بڑے اچھے اور مخلصانہ مراسم تھے اور پھر انہی کے سامنے انہوں نے اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کی تھی۔ ہر سال 13 محرم الحرام کی شب میں سالانہ فاتحہ ہوتا ہے۔

ان کے ہونے سے بخت ہوتے ہیں
باپ گھر کے درخت ہوتے ہیں

Exit mobile version