حضرت جمال الحق مصطفی بندگی: حیات و خدمات
✍️ محمد شہروز رشیدی مصباحی پورنوی
____________________
خالق کاٸنات نے فخر بنی آدم ، خلاصہ کاٸنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کو مبعوث فرماکر اپنی حقیقت ومعرفت کے عرفان وادراک کا ایک مستحکم ذریعہ اور عظیم وسیلہ عطافرمادیاہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے خلقِ خدا کو توحیدِ حقیقی کی دعوت دی اور اسلامی تعلیمات سے مزین کرکے حق تعالیٰ کی معرفت سے آگاہ فرمایا پھر آپ کے طریقہ پر چل کر خلفاٸے راشدین ، صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین ، صوفیہ وصالحین اور علماٸے ربانیین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دنیا کے مختلف خطوں میں اسلامی ہدایات کو عام کیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی الوہیت و ربوبیت کو انسان کے قلوب واذہان میں جاں گزیں کر کے جادہ حق پر گامزن فرمایا۔
ہندوستان ، جنت نشان میں دینی وعلمی فضا ، پاکیزہ تہذیب وثقافت ، امن و سلامتی ، اخوت ومحبت ، باہمی رواداری ، اخلاقی پاسداری اور مروت و انسانیت کی غمخواری صوفیہ وصالحین ہی کی مخلصانہ کاوشوں ، بے لوث خدمات اور عظیم قربانیوں کی مرہونِ منت ہیں ۔ ان نفوس قدسیہ نے ہر دور میں اپنی تمام تر توجہات اشاعتِ اسلام ، خدمتِ خلق اور فروغ تصوف پر مرکوز فرماٸی اور اپنی علمی وفکری تواناٸیوں کو صرف فرماکر تاریخی کارنامے انجام دیٸے ۔
ہندوستان میں گیارھویں صدی ہجری کا دور جہاں دینی بدعات اور مذھبی خرافات کے لحاظ سے انتہاٸی افسوس ناک اور روح فرسا تھا وہیں ان بدعات وخرافات کادیب قلع قمع کرنے والے عظیم المرتبت شخصیات اور تاریخ ساز افراد کے لحاظ سے یہ دور نہایت منور و تاباں رہا ہے ۔ ایک طرف صوفیہ نے اپنی حکیمانہ دعوت وتبلیغ ، بافیض مجالس ومحافل ، مٶثر ارشادات وفرمودات اور شانِ ولایت وبزرگی سے خانقاہوں میں بیٹھ کر تاریک دلوں کو اپنے علمی انوار اور روحانی فیضان سے منور کیا اور گم گشتگانِ راہ کو جادہ حق پر گامزن فرمایا اور وقت کے عظیم داعی ومبلغ اور واعظ ومصلح پیدا کیے اور دوسری طرف علما نے اپنی علمی جلالت، فنی جولانیت ، فکری وسعت اور قلمی صلاحیت کو بروٸے کار لا کر علما وفضلا کا ایک انقلاب آفریں قافلہ تیار کیا ۔ اس طرح علما وصوفیہ نے ملک کے مختلف گوشوں اور مقاموں میں اپنی علمی ودینی ، تبلیغی ودعوتی سرگرمیوں سے اپنے اپنے حلقہ ہاٸے اثر میں ہمت و جرأت کے ساتھ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا عظیم فریضہ انجام دیا ۔ بہرحال خطہ سیمانچل کے پورنیہ جیسے زر خیز سرزمین ہمیشہ سے علما وفضلا اور صوفیہ و صلحا کا ایک عظیم مرکز رہی ہے۔
اس تمہید کے بعد یہ واضح کردینا مناسب سمجھتاہوں کہ آج میں ایک ایسے ولی کامل کا تذکرہ کرنے کی سعادت حاصل کرنے جارہاہوں جو اپنے مختلف صفات ، کمالات ، امتیازات اور خصوصیات کی وجہ سے فرد سے جماعت ، اکائی سے قوم اور شخصیت سے کردار بن گیا ، وہ دنیا میں اپنے علم و عمل اور کردار کے ذریعہ ایسا نقشِ جاوداں چھوڑگیے ہیں جس کے متعلق دنیا والے قدردانی کا احساس کرتے ہوئے اسے ہمیشہ اپنے دل و دماغ میں زندہ رکھے ہوٸے ہیں اور اس کی یاد مناکر اپنی بیداری کا ثبوت دیتے ہیں ۔
قدوة العارفین، شیخ الاسلام والمسلمین، قطب الاولیا، جمال الحق، بندگی، حضرت الشاہ شیخ محمد مصطفیٰ عثمانی جونپوری ثم پورنوی علیہ الرحمة والرضوان کی ذات ستودہ صفات بھی ان برگزیدہ ہستیوں میں سے ایک تھی جو ایک قوم اور ملت کی حیثیت رکھتے تھے ،جنہوں نے فرد ہو کر جماعت کا کام انجام دیااور اکائی ہوکر اپنے کو ایک ملت ثابت کیا ۔ان کے علم و کردار کی خوشبو آج بھی اس عنوان سے محسوس کی جاسکتی ہے کہ صوفیائے بہار خصوصاً ہمارے پورنیہ(قدیم) (بشمول اتردیناجپور)میں آپ ہی وہ صوفی ہیں جن کے قدموں کی برکت سے بہار میں خاص طور سے خطہ سیمانچل میں علم دین کی روشنی پھیلی اور لوگوں میں پابندیٔ شریعت کا ذوق پیدا ہوا ۔آپ علم و فضل کے اعلی ترین مراتب پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ زہد و تقوی اور معرفتِ الہی کے عظیم مراتب کے بھی حامل تھے ، ان گوناگوں خصوصیات و کمالات کو پیش نظر رکھ کر بجا طور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ :
خورشید و فلک چکر کھاتے ہیں بہم برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتاہے
سوانحی خاکہ
نام و لقب، تخلص:
اسم گرامی: آپ کا اسم گرامی محمد مصطفی ہے۔
القابات: آپ قطب الاولیا، جمال الحق اور بندگی جیسے القابات سے یاد کیے جاتےہیں اور شاعری میں آپ مہوشی تخلص فرمایا کرتے تھے آپ نسباً عثمانی، (خلیفہ سوم، داماد سرور کاٸنات ﷺ،حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد سے ہیں ) مسلکاً حنفی ، مشرباً چشتی ہیں ۔
ولادت ، جاٸے ولادت اور خاندانی پس منظر :
آپ کی ولادت کا سن تلاش بسیار کے بعد بھی متعین نہ ہوسکا البتہ قراٸن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت مبارکہ دسویں صدی ہجری کے ساتویں یا آٹھویں دہاٸی میں بمقام سکلاٸی پرگنہ امیٹھی ضلع بارہ بنکی میں شیخ عبد الحمید کے گھر ہوٸی۔ حضرت شیخ عبد الحمید اپنے وقت کے ایک برگزیدہ ولی کامل اور باتصرف بزرگ گزرے ہیں اور صاحب سمات الاخیار معنون بہ تذکرہ مشاٸخ رشیدیہ (عبد المجید کاتب رشیدی کی تحریر) کے مطابق آپ حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے مرید وخلیفہ تھے لیکن تتبع و تلاشِ بسیار اور بہت تحقیق وتنقیح کے بعد بھی آپ کے حضرت مخدوم کے مرید وخلیفہ ہونے کاذکر کسی تذکرہ کی کتاب میں نظر سے نہیں گزرا بہرکیف! اس سے اتنا اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ آپ حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی ثم کچھوچھوی قدس سرہ العزیز کے دورِ ولایت کے بزرگ ہیں ۔ آپ کی والدہ مشفقہ رابعہ عصر تھیں ، ان کی اکثر دعاٸیں مستجاب ہوتی تھیں ۔ حضرت شیخ عبد الحمید کے دو صاحبزادے تھے: ”مصطفی(حضور ممدوح گرامی رحمہ اللہ تعالی) اور عثمان “ ۔
والدہ مشفقہ کی دعاٸے سحرگاہی:
ایک روز بیٹوں کے حق میں ماں نے دعا کی کہ مصطفی کے گھرانے میں علم وفقر اور عثمان کے گھرانے میں تلوار جاری رہے ۔ چنانچہ مجیب الدعوات نے قبول فرما لی اور یہی ظہور میں آیا۔ شیخ عثمان اور ان کی اولاد نے برابر نوکریاں کیں اور تلوار سے کام لیا ، آپ کی نام لیوا نسل قصبہ امیٹھی ضلع بارہ بنکی اتر پردیش میں بسی ہے اور شیخ عثمان رحمہ اللہ تعالی کا مزار چمنی بازاری شریف پورنیہ میں اپنے بڑے بھاٸی شیخ محمد مصطفی جمال الحق بندگی رحمہ اللہ تعالی کے مزار مبارک کے پہلو میں(متصل) جانبِ غرب میں واقع ہے ۔ حضرت شیخ محمد مصطفی جمال الحق عثمانی جون پوری ثم پورنوی نے حضرت قطب الاقطاب شیخ محمد رشید مصطفی عثمانی معروب بہ دیوان جی قدس سرہ جیسا فرزندیم پایا جس نےمثلِ آفتابِ تاباں اپنی ولایت وقطبیت اور قبولیت کے انوار سے سارے خاندان کو چمکادیا ، جن کے نام سے خاندانِ رشیدی اور سلسلہ رشیدیہ منسوب ہے ۔
صاحب ”گنج ارشدی“ نے بحوالہ مکتوب حضرت جمال الحق (بندگی شیخ محمد مصطفی عثمانی) لکھا ہے کہ حضرت قطب الاقطاب (شیخ محمد رشید مصطفی عثمانی جون پوری بانی سلسلہ رشیدیہ جون پور شریف) کے اجداد میں سے بارھویں پشت ( اور جمال الحق مصطفی بندگی کے اجداد میں سے گیارھویں پشت) میں حضرت مخدوم شیخ یخشیٰ رومی ایک صاحب فضل وکمال بزرگ گزرے ہیں ، جنہون نے اس خاندان میں ولایت کا پرچم نصب فرمایا ، جن کے بعد کے بزرگوار نسلاً بعد نسلٍ برابر صاحب ولایت ہوتے اٸےاور آبائی واجداد کا نام رشن کرتے آٸےہیں ۔
حضرت مخدوم یخشی رومی:
حضرت مخدوم رومی کے اجداد نے عربستان سے آکر موضع کِلد میں سکونت اختیار کی اور تین پشتوں تک وہیں رہے ۔ (کلد ۔ ملک روم میں ایک مقام ہے اسی وجہ سے حضرت مخدوم یخشی ” رومی “ کہے جاتے ہیں ) چوتھی پشت مین حضرت مخدوم روم سے دلی آٸے اور حضرت سلطان المشاٸخ محبوبِ الہی ، شیخ نظام الدین اولیا چشتی قدس سرہ العزیز کے مرید ہوٸے اور پھر وہاں سے فارغ ہوکر سکلاٸی پرگنہ امیٹھی ضلع بارہ بنکی اترپردیش میں آکے قیام پذیرہوٸے ۔ سلطان المشاٸخ کے بعد بقیہ نعمتیں حضرت شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلی سے پاٸیں ۔
حضرت چراغ دہلی نے وصال کے وقت فرمایا تھا : ” جنازہ من تابرادرم شیخ یخشی رومی بر ندارد از زمیں بر نخیزد“ ۔ [یعنی جب تک میرے بھاٸی شیخ یخشی رومی میرے جنازہ کو نہیں اٹھاٸیں گے میرا جنازہ نہیں اٹھے گا۔ت]
چنانچہ وصال کے بعد نہلانے کفنانے سے فارغ ہوکر جب لوگوں نے جنازہ اٹھانے کا قصد کیا ، نہ اٹھ سکا۔ سب نےمل کر تین مرتبہ اٹھانے کی کوشش کی مگر نہ اٹھنا تھا ،نہ اٹھا۔ اسی تگ ودو میں سہ پہر گزر گٸے ۔حضرت مخدوم رومی کی عام حالت یہ تھی کہ وہ چھ مہینے جذب کی حالت میں رہتے اور چھ مہینے خلقِ خدا کی ہدایت ورہنماٸی فرماتے ۔حضرت مخدوم رومی اس وقت سکلاٸی میں جذب کی حالت میں تھے اور چوتھے پہر میں ، پا بہ زنجیر دہلی تشریف لاٸ اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کے جنازے کو ہاتھ لگایا اور اسے اٹھا لیا ۔
حضرت مخدوم یخشیٰ رومی قدس سرہ کی اولاد کے حق میں دعاکرنا:
آپ نے اپنی اولاد کے حق میں دعا دی تھی کہ سب کے سب کامل ہوں گے چنانچہ ویسا ہی ہوا ۔
حضرت شیخ جمال الحق بندگی کی جون پور تشریف آوری اور عقد نکاح :
آپ رحمة اللہ علیہ سکلاٸی سے برونہ،جون پور تشریف لاٸے اور تحصیل علوم وفنون سے فراغت کے بعد شیخ محمد نور صدیقی برونوی کی صاحبزادی سے کتخدا ہوٸے(شیخ محمد نور برونوی کی دختر نیک اختر سے آپ کا نکاح ہوا) ۔ برونہ ضلع جون پور میں کچھ دنوں تک اقامت بااستقامت رہے پھر آپ نے سب کو برونہ میں چھوڑ کر پنڈوہ ضلع مالدہ مغربی بنگال کی راہ لی اور حضرت مخدوم نورقطب عالم پنڈوی رحمة اللہ علیہ کے روحانی اشارہ اور حکم کے مطابق پورنیہ تشریف لاٸے اور پورنیہ میں چمنی بازاری شریف کی غیر آباد سرزمین کو اپنے قدوم میمنت سے شرف سکون بخشا اور یہاں ایسی دھونی رماٸی کہ پھر جیتے جی جگہ سے نہ اٹھے ۔
اولاد امجاد:
آپ سے تین نرینہ اولاد پیدا ہوٸیں ، شیخ محمد سعید ، شیخ محمد رشید اور شیخ محمد ولید ۔
شیخ محمد سعید:
آپ جمال الحق شیخ محمد مصطفیٰ عثمانی کے بڑے صاحبزادہ تھے جو بہت متقی اور پرہیزگار تھے ، شجاعت ودلیر اس قدر تھے کہ اس کا کوٸی جواب نہ تھا۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ آپ پر استنجا کرنے کی حالت میں ایک شیر نے حملہ کیا، آپ کے ہاتھ میں لوٹا تھا اور آپ نے دو وار میں اس شیر کا کام تمام کردیا۔ والد بزرگوار حضرت جمال الحق نے حسب الحکم حضرت مخدوم یخشی رومی ، آپ کو اپنا پیرہن مبارک یا دستار شریف مرحمت فرمایا تھا۔ آپ کا مزار مقدس بھی پورنیہ چمنی بازاری بڑی درگاہ میں، والدو بزرگوار کے مزارمبارک کے پہلو میں ہے ۔
شیخ محمد رشید مصطفی، بانی سلسلہ رشیدیہ:
آپ حضرت جمال الحق مصطفی بندگی کے منجھلےصاحب زادہ تھے ، آپ ایک متبحر عالم ، عامل بالسنہ ، درویش کامل اورصاحب تصرف وکرامت بزرگ تھے، آپ پر کشف کا غلبہ ایسا تھا کہ آپ کی مجلس میں مدعاٸے قلبی ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی ادھر دل میں خطرہ گزرا ادھر ظاہر ہوگیا اور خطرے کو دوران فرمادیا آپ ہی خاندانِ مصطفیٰ کاایسا آفتاب تاباں تھے جن سے روحانی سلسلہ کا باب درخشاں آج تک سلسلہ رشیدیہ کے نام سے روشن ومنور ہے ۔ آپ کے فضاٸل وکمالات کے بیان کے لیے ایک دفتر درکار ہے جو یہاں ممکن نہیں ہے مزید معلومات کے لیے خانقاہ رشیدیہ کے سجادگان کےتذکرے کا انساٸیکلو پیڈیا ”سمات الاخیار“ کا مطالعہ کریں۔
شیخ محمد ولید:
آپ حضرت جمال الحق مصطفی عثمانی کے چھوٹے صاحبزادہ تھے اور عالم دین تھے درسی تمام کتابیں اپنی منجھلے بھاٸی حضرت شیخ محمد رشید مصطفی سے ختم کی تھیں ۔ تقوی وزہد میں بے مثلا تھے۔ نوافل اور اشغال میں اوقات صرف کیا کرتے تھے اور اپنے منجھلے بھاٸی ہی سے مرید ہوکر اجازت وخلافت سے مشرف ہوٸے تھے ۔ کچھ دنوں تک والد بزرگوار حضرت جمال الحق کی خانقاہ مصطفاٸی چمنی بازاری پورنیہ میں مقیم رہے اور اس اقامت گزینی کے اثنا میں بہت سے لوگ آپ سے مرید ہوٸے اور بڑی درگاہ چمنی بازارکا چبوترہ آپ نے ہی بلند کروایا تھا ۔ ١٩/ ذی الحجہ ١٠٩١ ھجری کو جون پور میں وصال حق سے شادکام ہوٸے اور آپ کا مزار مقدس رشیدآباد جونپور شریف میں مرجع خلاٸق ہے۔
قطعہ تاریخ وفات
رہبر دیں شیخ محمد ولید
رفت بفردوس ازیں شش جہات
گشت دو تاریخ بیک مصرعہ
موجبِ غم موت جلالی صفات
اب یہاں سے آپ کی زندگی و بندگی کے کچھ آفاقی اور مثالی نقوش پیش کئے جارہے ہیں۔
آپ ایک ولی کامل اور عارفِ بے نظیر تھے، آپ کے اندر زہد وتقوی اور احتیاط بیحد تھا، آپ نے اپنے وقت کے بہت سے جلیل القدر بزرگوں سے اکتساب فیض فرمایاتھا ، آپ کو حضرت سرور کاٸنات علیہ الصلوات کی روح اقدس سے بہت فیض پہنچا ہے ۔ آپ نے بچپن میں حضرت بندگی شیخ محمد ولد حضرت بندگی شیخ نظام الدین امیٹھوی قدس سرہ سے بیعت کی تھی اور وقتاً فوقتاً پیر کی خدمت میں رہ کر کمالات حاصل کیے علاوہ بریں خلافت واجازت سلسلہ چشتیہ و قادریہ و مداریہ و سہروردیہ حضرت قیام الدین چشتی جون پوری بن قطب الدین قدس سرہ سے پاٸی تھی جو حضرت مخدوم شیخ من اللہ عرف اڈھن چشتی جون پوری کے پوتے تھے۔
حضرت شیخ نعمت اللہ جلال قدس سرہ سے بھی آپ کو خلافت چشتیہ پہنچی ہے ۔ شیخ فتح اللہ راج گیری سے بھی آپ کو نعمت ملی تھی ۔ اس کی تفصیل آپ نے اپنے مکتوب میں لکھی ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بیعت وارادت کے بعد آپ نے ایک شب حضرت خواجہ عالم ﷺ کو خواب میں دیکھا پھر اس کے بعد چوں کہ آپ تحصیل علوم پر مامور تھے کچھ دنوں اس میں مشغول رہے پھر پیر کی خدمت میں پہنچے اور کچھ دنوں وہاں رہ کر پڑھنے میں مصروف ہوٸے ۔ اس اثنا میں آپ ایک رات کوحضرت فرید الدین عطار کا” اشترنامہ“ (سر نامہ) دیکھ رہے تھے ، جب اس مقام پر پہنچے : ”رأیت رسول اللہ ﷺ وأمر بکذا و کذا “ ۔ آپ پر ایک رقت طاری ہوٸی اور اسی حالت میں آپ سوگٸے ، طالع بیدار نے دوسری بار زیارت نبوی ﷺ کراٸی ۔ دیکھا کہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ شیخ فرید الدین عطار بھی ہیں ۔ آپ (حضرت بندگی جمال الحق) نے پاٸے مبارک کو بوسہ دیا ، آں حضرتﷺ نے نماز تہجدپڑھنے کا ارشاد فرمایا۔ آپ کو حدیث میں بعض بعض مقامات مین اشکال واقع ہواتھا ، چاہا کہ حضورﷺ سے حل کریں ۔ شیخ عطار کی طرف اشارہ فرمایا ، شیخ عطار نے معانی بیان کیے اور آں حضرت ﷺ خاموش سنا کیے ۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اگر بزرگوں سے کوٸی حدیث مروی ہو تو سند کے لحاظ سے وہ حدیث صحت کے اعلی درجہ پر ہوتی ہے۔ یہ خواب دیکھ ہی رہے تھے کہ کسی نے تہجد پڑھنے کے لیے جگادیا ، آپ نے اٹھ کر وضو کیا اور نماز ادا کی اور آں حضرت ﷺ جلوہ فرماتھے، پھر پیر کے حکم کے مطابق آپ تحصیل علوم کے لیے جون پور تشریف لاٸے اور شمس الحق شیخ قیام الدین جون پوری کی ملاقاتل سے مشرف ہوٸے ۔ حضرت شیخ نے پیروں کی جو امانتیں تھیں ان سب سے آپ کو سرفراز کرکے خرقہ خلافت و مقراض عطا کیا۔
اس کے بعد آپ کچھ دنوں ایک دوسرے شہر میں مقیم رہے ، وہاں ایک کامل بزرگ سید احمد نامی واردات ہوٸے ، آپ نے ان سے بھی مل کر طالب ہوٸے ۔ سید صاحب نے فرمایا کہ آج رات استخارہ کرو اور کل آٶ آپ نے رات کو استخارہ کیا ۔ تیسری بار عالم رٶیا میں دیکھا کہ خواجہ عالم ﷺ پا پیادہ ہیں اور لوگ آپ کے اردگرد اکٹھا ہیں ، آپ نے اسی بھیڑ میں پہنچ کر قدم لیے ۔ آں حضرت ﷺ نے آپ کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر سراٹھایا اور ہاتھ پکڑے ہوٸے جانب قبلہ تشریف لے گیے لوگ کھڑے دیکھ رہے تھے ، ایک مغرب رویہ مکان پر پہنچ کر ٹھہر گیے اور فرمایا: ”ھٰذا بیت فتح اللہ فادخل فیھا“ آپ نے عرض کیا : ” یہ گھر مقفل ہے اور میرے پاس اس کی کنجی نہیں “۔ آں حضرت ﷺ نے کلمہ شہادت کی انگلی سے اشارہ کرکے فرمایا: ” افتح بالشھادة“ ۔ آپ نے انگشت شہادت اندر ڈال کر قفل (تالا) ۔ ارشاد ہوا : ” أ جَلستَ“؟ عرض کیا: ” ہاں میں بیٹھ گیا “ اس کے بعد آں حضرت ﷺ تشریف فرماہوٸے۔
دوسرے دن آپ نے سید صاحب سے اس معاملہ کو بیان کیا تو سید صاحب نے پوچھا کہ شیخ فتح اللہ کون ہیں ، تم جانتے ہو؟ آپ نے کہا : ہاں ، فرمایا کہ ان سے تمہیں حصہ ملنے والا ہے ۔ اس کے ایک سال کے بعد جب شاہزادہ دانیال الٰہ آباد میں آٸے تو شیخ فتحوالوں اللہ راج گیری بھی ایک سید کی غرض لے کر وہاں تشریف لاٸے صاحب تذکرہ حضرت جمال الحق بندگی مصطفی عثمانی نمازمغرب کے وقت ملاقات سے مشرف ہوٸے ، شیخ نے فرمایا کے میرے سر میں درد ہے ، ذرا قریب آکے دم تو کردو ، آپ نے تعمیل ارشاد کی اور خواب کا سارا قصہ بیان کیا ۔
آپ کچھ دنوں تک شیخ کی خدمت میں رہے اور روز افزوں التفات اور بے نعمتوں سے سرفراز ہوتے گیے پھر جب شیخ نے کوچ کا قصد کیا تو اس سے ایک روز پیشتر فرمایا کہ آج جو کچھ دیکھنا، عرض کرنا۔ آپ صبح کو روانگی کے وقت حاضر ہوٸے اور جو کچھ رات کا معاملہ تھا، ظاہر کیا ، شیخ نے کھچڑی کے چند لقمے آپ کے منھ میں ڈالا اور رخصت کیا۔
*بزرگوں کی بارگاہ میں نیک نیتی کے ساتھ حاضری دینا چاہیے:*
آپ کے ایک دوسرے مکتوب سے ظاہر ہواکہ ایک روز شیخ نظام الدین نورنولی کی خدمت میں ایک دنی غرض لےکر حاضر ہوٸے اور اپ کے ساتھ والوں نے امتحاناً کچھ اور دل میں سوچ رکھا تھا ، شیخ متوجہ ہوٸے ، جس کی جو غرض تھی اس کے متعلق فرمایا، مگر چونکہ حضرت جمال الحق ایک خالص نیت سے گیے تھے، اسی وجہ سے آپ کی طرف شیخ کی توجہ زیادہ ہوٸی اور حجرے کے اندر تشریف لے گیے اور فرمایا: ” اگر فقرا کے پاس جاٶ تو یہ امتحان اور اعتراض مد نظر نہ رکھو اور ان سے ایسی چیز مانگو جو کسی بادشاہ کے دربار سے ملنا ممکن نہ ہو ، فقیروں سے اشرفی اور روپے نہین مانگنا چاہیے کیوں کہ وہ یہ سب نہیں رکھتے اور یہ ہر جگہ میسر ہے “ ۔ قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ساتھیوں نے کچھ ایسی ہی چیزیں چاہی تھیں ۔ شیخ نے آپ سے فرمایا: ”تم طالب تو تھے مگر قاصر۔ ایسی چیز کیون نہ مانگی جس سے سب کچھ ملے، ادیب پر آپ کی نیت بدلی اور شیخ نے تلقین فرماٸی اور آٹھویں روز رخصت کیا“
کمالِ احتیاط:
آپ کے احتیاط کا عالم یہ تھا کہ زمینداروں کے گھر کا کھانا نہیں کھاتے تھے حتی کہ اپنے حقیقی خسپورہ مولانا شمس ابن نور کے یہاں کی کوٸی چیز نہیں کھاتے تھے کیوں کہ وہ ملکیت رکھتے تھے ۔
منقول ہے کہ آپ کے سامنے کھانا آیا اور اس میں کیڑا نکلا ، آپ نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا معلوم ہواکہ وہ کھانا مشکوک تھا کیوں کہ اللہ تعالی اپنی مہربانی سے مشکوک کھانے کو بری شکل میں ظاہر فرمادیتا ہے ۔
وصال و دیدارِ جمالِ یار:
آپ نے بیسویں ذی الحجہ کے فجر کی نمازکے بعد وصال فرمایا اور محلہ مصطفی باغ چمنی بازار پورنیہ میں مدفون ہوٸے ۔ آپ کا سالِ وصال باوجود تفحص و تلاش کے معلوم نہ ہوسکا ۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے منجھلے بیٹے حضرت شیخ محمد رشید مصطفی عثمانی بانی سلسلہ رشیدیہ و صاحب مناظرہ رشیدیہ جب اپنے والد بزرگوار کی زیارت کی غرض سے پورنیہ تشریف لاٸے تو چاہا کہ نعش مبارک کو جون پور لے جاٸیں مگر الٰہ یار خاں کے لڑکوں نے عرض کی کہ ہم لوگوں کی ہستی اسی ذات پاک کی بدولت ہے ۔ لہذا ان لوگوں کی التماس قبول کی اوران عقیدت کیشوں کی خواہش اور عقیدت کا احترام کرتے ہوٸےاپنے ارادہ کو ملتوی فردیا اور واپس تشریف لے گیے، مندرجہ ذیل مقطع میں اسی کی طرف اشارہ ہے:
چوں یار بہ بنگالہ کند مسکن وماوی
شمسی بہ بدخشاں نرود، لعل بہ بنگ است