Slide
Slide
Slide

دین اور مسلمان (قسط ۶)

دین اور مسلمان (قسط ۶)

محمد عمر فراہی

جس طرح دنیا سے نیک اور صالح لوگوں کے گزر جانے سے دلی تکلیف ہوتی ہے اسی طرح دنیا سے کوئی بدمعاش اور شیطان گزر جاۓ تو اہل ایمان کا خوش ہونا فطری بات ہے لیکن ان کی رہنمائی کرنے والا اصل شیطان تو بہر حال ابھی بھی زندہ ہے ۔وہ اپنے مکر سے کہاں باز آنے والا اور جس نے حضرت موسی کی قوم کو گمراہ کرنے کیلئے سامری کا جال بچھایااس کا آخری حربہ دجال ابھی بھی اپنی قید سے رہائی کیلئے بے چین ہے ۔طارق فتح ہوں یا سلمان رشدی یا وسیم رضوی ،ارشاد مانجھی یا اسری نعمانی یا تسلیمہ نسرین یہ سب شیطان کے قبیلے کے لوگ ہیں ۔بلکہ یوں کہا جاۓ کہ اس وقت دجالی میڈیا جو کچھ خبریں ،تجزیے اور اصلاح معاشرے کے عنوان سے پیش کر رہا ہے یہ سب تلبیس حق و باطل کا ایسا ملغوبہ ہے جو دھیرے دھیرے لوگوں کو آمادہ ہی اس بات پر کر رہا ہے کہ لوگ جھوٹ کو سچ سمجھنا شروع کر دیں اور ایک دن جب یہ دجل دجال کی شکل میں ظاہر ہو تو لوگوں کیلئے اس پر ایمان لانا بہت مشکل نہ ہو ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان چینلوں سے کچھ سچ اور حق بھی پیش کیا جاتا ہے تاکہ اہل حق کا وہ آزاد خیال طبقہ جو نیو ورلڈ آرڈر کے لباس میں مغربی ترقی سے مرعوب ہے وہ اسے آزادی کی نیلم پری ہی سمجھتا رہے ۔ جیسا کہ پچھلی کچھ دہائیوں سے کچھ اسلامی اسکالروں نے اسلام اور دعوت دین کا لبادہ اوڑھ کر بہت ہی مہذب انداز میں ان لوگوں کو بھی متاثر کیا جو کبھی حکومت الہیہ کے داعی تھے ۔طارق فتح اور سلمان رشدی تو خیر کھل کر اپنی اسلام اور مسلمان دشمنی کا مظاہرہ کرتے تھے اور کرتے ہیں لیکن ان سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کو ان سے نقصان پہنچ رہا ہے جنھیں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اس لئے اپنا مسیحا اور مہدی تصور کرتا ہے کہ یہ نہ ہوتے تو مسلمانوں کو جدید ترقی کا مفہوم کون بتاتا۔

سلمان رشدی

تسلیمہ نسرین و طارق فتح

مسلمانوں کو ان کی اصل بنیاد سے بے بنیاد کرنے میں دانستہ یا نادانستہ طور پر بیسویں صدی کے ان آزاد خیال مفکرین اور قائدین نے پہلے تو modernisation کے نام پر ترقی کا خواب دکھایا پھر احادیث کے ذخیرے پر حملہ اور ہوۓ۔بعد میں ایک طبقے نے کھلم کھلا حدیث کا انکار کرنا شروع کر دیا ۔برصغیر میں یہ طبقہ خود کو سر سید علیہ رحمہ کا جانشین قرار دیتا ہے اور سرسید اس کے واقعی ذمہ دار ہیں یا نہیں لیکن اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمانوں کے اندر سے ترقی پسند مصنفین اور دہریوں کا ایک بڑا طبقہ جو مغرب کی ترقی سے مرعوب تھا اسے علی گڑھ تحریک نے ہی ایندھن فراہم کیا ۔حالانکہ کچھ نے آخری وقت میں توبہ بھی کر لیا اور کچھ نے خاموشی سے اپنی تحریک جاری رکھی اور کچھ طارق فتح اور سلمان رشدی کی بے باکی کے تھوڑا سا خلاف بھی رہے لیکن یہ سب کہیں نہ کہیں مولوی طبقے کے خلاف بہت ہی متشدد اور آپس میں نرم گوشہ رکھنے والے لوگ ہیں ۔ابھی حال ہی میں فیس بک پر ایک ساتھی نے فتنوں کے دور کے بارے میں ایک حدیث پوسٹ کی کہ

حضرت ابوذر غفاری ر ع نے فرمایا میں رسول اللہ ص کے ساتھ جارہا تھا کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
’’میں اپنی امت کے اوپر دجال کے علاوہ ایک اور چیز سے ڈرتا ہوں ۔آپ نے یہ بات تین دفعہ دہرائی میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ! دجال کے علاوہ وہ کون سی چیز ہے جس کے تعلق سے اپنی امت کے بارے میں آپ ڈرتے ہیں ۔؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’آئمة المضلّین‘‘ گمراہ کرنے والے قائدین۔‘‘   رواہ ابو ذر غفاری ؓ،مسند احمد جلد:۵،صفحہ ۱۴۴

اس پوسٹ کے خلاف علی گڑھ کے ایک پروفیسر نے تبصرہ کیا کہ قرآن میں دجال کا تذکرہ نہیں ہے اس لئے یہ حدیث جھوٹی ہے ۔

ویسے جو لوگ حدیث کے ہی منکر ہیں وہ تو خیر اللہ کے رسول کے قول فتہ دجال اور گمراہ کرنے والے قائدین پر کیسے یقین کریں گے لیکن بہت سے مغرب نواز جدت پسند اسلامی اسکالر جو خود کو منکر حدیث تو نہیں کہتے وہ بھی فتنہ دجال کے تعلق سے شک و شبہات میں مبتلا رہے ہیں ۔خیر ہمارا موضوع فتنہ دجال تو نہیں ہے لیکن اس حدیث میں جو گمراہ کرنے والے قائدین کا ذکر ہے وہ بات تو پچھلے سو سالوں سے صحیح ثابت ہو رہی ہے کہ کیسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے غلبے کے بعد کچھ عبقری شخصیات یا مسلمانوں کے جدید قائدین نے مسلمانوں کے زوال کی وجہ ان کی تعلیمی پسماندگی بتایا اور پھر مسلمانوں کی بھیڑ کو کمال چالاکی سے لارڈ میکالے کے دین کی طرف موڑ دیا گیا۔اس طرح ان مفکرین نے حدیث اور تاریخ کو بھی اس طرح توڑ مروڑ کر پیش کرنا شروع کیا کہ ایک بہت بڑا تعلیم یافتہ طبقہ مذہب سے ہی بزار ہونا شروع ہو گیا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اچانک آنے والے اس جدید انقلاب کو مولوی طبقہ بھی سمجھ نہیں سکا اور جس طرح مسلم سلطنتوں کا شیرازہ بھی بکھرنا شروع ہوا یا نام نہاد مسلم ریاستوں پر کمال اتاترک اور جمال ناصر جیسے حکمران غالب آۓ وہ بھی آزاد خیال ہی تھے انہوں نے بھی اپنی اپنی ریاستوں میں سیکولر آئین کے تحت فحاشی کو عام کرکے قوم کو مزید اخلاقی زوال کی طرف ڈھکیلنا شروع کر دیا ۔مولوی کو کسی حد تک مسجدوں و مدارس میں وعظ و نصیحت کی آزادی تو رہی لیکن اس نے اقبال کے اس قول کو کہ

رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم

عصا نہ ہو تو کلیمیؑ ہے کار بے بنیاد

مصطفی کمال اتاترک

جمال عبدالناصر

سنجیدگی سے نہیں لیا-کیوں کہ اقبال نے سید کی طرح اپنی داڑھی کے قد کو نہیں بڑھایا ۔

ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ تعلیم یا modernisation کسی بھی قوم کے زوال کا سبب ہوتا تو نہ صرف یونان و مصر اور روما کی تہذیب کو کبھی زوال نہ آتا اور مسلمانوں کےخلیفہ حضرت عمر جن کے وقت تک مدینے کے اندر ٹھیک سے کوئی باقاعدہ مسجد اور مکتب بھی تعمیر نہیں ہوا وہ کیسے روم اور فارس کی تعلیم یافتہ قوم پر فاتح ہوۓ ؟ کتنی عجیب بات ہے نا کہ جس قوم نے اپنی کتاب بھی بدل دی تھی اور جس کے پاس اس کے نبی کا مستند قول بھی محفوظ نہیں تھاوہ سکندر کو فاتح عالم ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی اور جس کے پاس تاریخ اور حدیث کے ذخیرے کے ساتھ قرآن بھی محفوظ ہے وہ فاتح عالم حضرت عمر کو وہ مقام نہیں دے سکے تو اس لئے کہ اس نے اقتدار سے بے دخل ہوتے ہی Frustration یعنی مایوسی کا شکا ہو کر اپنی تاریخ اور حدیث کے انکار کی مہم چھیڑے دی ۔دوسرے لفظوں میں کہا جاۓ تو یہ غلط نہ ہو گا کہ دجالی طاقتوں نے جو پہلے ہی سے تاک میں تھیں انہوں نے ہمارے ان قائدین کے اختلاف کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ مسلم خاندانوں میں پیدا ہونے والی دین بیزار نسل طاق فتح ،سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے مصنفین کو خوب استعمال کیا ورنہ یہ کذاب اس وقت کیوں نہیں پیدا ہوۓ جب مسلمان اقتدا میں تھا ۔مسلمانوں میں Frustration یا مایوسی اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد پیدا ہوئی اور اقتدار سے وہ کیوں بے دخل ہوا اس کی وجہ تعلیمی پسماندگی نہیں دنیا اور زندگی سے عشق ہو جانا تھا اور آج ہماری نسلیں جو تعلیم حاصل کر رہی ہیں کوئی بتا سکتا ہے کہ اس کا نصب العین واقعی دین ہے یا دنیا !!

اور اگر اس کے اس رخ کو نہیں موڑا گیا تو طارق فتح جیسے لوگوں کی موت پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ ہم خود اپنی نسلوں میں ایسوں کی پرورش کر رہے ہیں ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: