✍️ محمد قمر الزماں ندوی
استاد / مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
__________________
اس وقت مسلم پرسنل لا میں مختلف اداروں اور خاص طور پر ملکی عدالتوں کی طرف سے بیجا مداخلت کا سلسلہ جاری ہے، جن میں سے ایک اہم مسئلہ عدت کے بعد مطلقہ کا نفقہ بھی ہے، اس وقت عدالتوں سے مطلقہ کے لیے کفالت کے نام پر نفقہ کا فیصلہ ہو رہا ہے، جو شرعی نقطۂ نظر سے بالکل غلط ہے؛ کیونکہ شریعت کے مطابق رشتۂ زوجیت ختم ہونے کے بعد صرف عدت کا نفقہ ہی سابق شوہر پر واجب ہے، عدالت کا مطلقہ کے لیے بعد از عدت نفقہ کا شوہر پر واجب کرنا مسلم پرسنل لا میں مداخلت ہے اور مطلقہ کے لیے بعد از عدت نفقہ کے لیے عدالت سے رجوع کرنا شرعاً درست نہیں ہے ۔
کسی بھی اجنبی مرد پر کسی عورت کا نفقہ اس وقت واجب ہوتا ہے جبکہ عورت نکاح صحیح کے ذریعہ اس شخص کی زوجیت میں آئی ہو اور اس نے اپنے کو شوہر کے حوالے کردیا ہو، یعنی رخصت ہو کر وہ شوہر کے گھر آگئی ہو، محض نکاح کر لینے سے نفقہ واجب نہیں ہوتا جب تک کہ وہ رخصت ہو کر شوہر کے یہاں چلی نہ آئے اور اپنے کو شوہر کے حوالے نہ کردے، ہاں باہمی رضا مندی سے عورت میکہ میں رہتی ہے اور خرچہ کا مطالبہ کرتی ہے تو یہ بھی درست ہے۔
شادی سے قبل اولاد کا نفقہ اور اس کے اخراجات والدین کے ذمّہ ہوتے ہیں؛ لیکن جب لڑکی کی شادی ہو جائے تو اس کا نفقہ اور ضروریات شوہر کے ذمّہ ہوں گے، شوہر پر اس کی ادائیگی واجب ہے۔ اسکنوھن من حیث سکنتم من وجدکم. (الطلاق : 6)
جہاں تم رہو اپنی بیوی کو بھی رکھو اپنی حیثیت کے مطابق ۔۔
اگر بیوی اہل کتاب میں سے ہے تو اس کا نفقہ بھی مسلمان شوہر پر واجب ہے ۔
حدیث شریف میں ہے ولھن علیکم رزقھن و کسوتھن بالمعروف (مسلم شریف) اور تمہارے اوپر ان کا کھانا اور کپڑا ہے بھلے طریقہ سے ۔
قرآن و سنت کی تفصیلات کے مطابق عورت کا نفقہ شوہر پر واجب ہے ،خواہ بیوی مالدار ہو یا غریب اور اس سے تعلق قائم کیا ہو یا نہیں ، بشرطیکہ وہ جنسی تعلق کو برداشت کرسکتی ہو۔
فقہاء نے نفقہ کے وجوب کے لیے شریعت کی روشنی میں کچھ شرطیں رکھی ہیں ۔
پہلی شرط یہ ہے کہ دونوں کا نکاح صحیح ہوا ہو، کسی وجہ سے نکاح فاسد نہ ہو یعنی نکاح کے لیے جن شرائط کی ضرورت پڑتی ہے وہ شرائط موجود ہوں اور نکاح کو توڑنے والی کوئی چیز نہ ہو؛ اس لیے اگر کسی وجہ سے نکاح فاسد ہوگیا تو پھر اس صورت میں نفقہ شوہر کے ذمّہ نہیں ہوگا ۔
عورت بڑی ہو یعنی مباشرت کے لائق ہو کہ اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا جاسکے؛ لہذا اگر بیوی چھوٹی ہے تو اس کا نفقہ شوہر پر واجب نہیں ہے۔
نفقہ کے وجوب کے لیے یہ شرط بھی ہے کہ عورت اپنی ذات پر شوہر کو قابو دے اور خود کو شوہر کے حوالے کردے ۔ اس سلسلے میں اور بھی تفصیلات ہیں؛ لیکن بوجہ طوالت اس کا ذکر نہ کرکے ہم صرف عدت کے بعد مطلقہ کا نفقہ اس عنوان پر گفتگو کریں گے۔
غرض یہ کہ عورت کا نفقہ اس کے شوہر پر جب واجب ہے، جب عورت شوہر کی زوجیت میں ہو یا عورت طلاق کے بعد عدت گزار رہی ہو۔ عدت گزر جانے کے بعد عورت اس مرد کے لئے بالکل اجنبیہ ہو جاتی ہے، اور سابق شوہر سے اس کا نفقہ ساقط ہو جاتا ہے ،اب اگر عدت گزر جانے کے بعد بھی عورت مرد سے نفقہ لیتی ہے اور اس کے لیے عدالت کا سہارا لیتی ہے تو شرعی نقطئہ نظر سے یہ درست نہیں ہے۔
عدت کے نفقہ کی تفصیل یہ ہے کہ اگر مرد نے عورت کو طلاق دے دی اور عورت حائضہ ہے، یعنی اس کو ماہواری آتی ہے تو عورت تین حیض عدت گزارے گی اور اگر عورت آئسہ ہے یعنی اس کو ماہواری نہیں آتی ہے تو تین ماہ عدت گزارے گی اور اگر عورت حاملہ ہے تو وضع حمل اس کی عدت قرار پائے گی؛ چنانچہ سقوط حمل یا ولادت کے ساتھ ہی عدت پوری ہو جائے گی، (باندی کی عدت کی بعض صورتیں الگ ہیں) عدت تک چونکہ عورت دوسری نکاح نہیں کرسکتی؛ اس لیے طلاق کے بعد عدت تک کا نفقہ اور سکنیٰ شوہر پر ہی واجب ہے اور جب عدت پوری ہو جائے گی تو اب اس مطلقہ عورت کا نفقہ سابق شوہر کے ذمّہ نہیں ہوگا.
اب یہاں سوال یہ ہے کہ اس مطلقہ کا نفقہ کس کے ذمّہ ہوگا ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جس طرح شادی سے پہلے لڑکی کا نفقہ بالترتیب باپ یا بھائی یا بھتیجہ پر ہوتا ہے، اب طلاق کے بعد بھی یہ نفقہ انہیں لوگوں پر بالترتیب لازم آئے گا، یعنی باپ موجود ہے تو باپ پر نفقہ ہوگا اور اگر اس کا انتقال ہوگیا تو بھائی پر نفقہ واجب ہوگا اور اگر بھائی بھی نہیں ہے تو بھتیجہ پر نفقہ واجب ہوگا۔ یہ تفصیلات شریعت میں موجود ہیں اس کے باوجود اگر کوئی عورت عدت کے بعد سابق شوہر سے نفقہ لیتی ہے تو یہ شریعت کے خلاف عمل ہوگا اور طاغوت کی اطاعت ہوگی ۔۔ حکومت اگر جبری دلواتی ہے تو یہ مسلم پرسنل لا میں مداخلت سمجھا جائے گا ۔
اس جبری نفقہ کے واجب کرنے کا نقصان یہ ہوگا کہ شوہر وبیوی میں نباہ کے مشکل ہوجانے، یا شوہر کے ساتھ بیوی کی زندگی اجیرن ہوجانے کے باوجود شوہر طلاق نہیں دے گا اور عورت کو پریشان کرکے اپنی زوجیت ہی میں رکھے گا، اس وجہ سے کہ وہ ڈرے گا کہ طلاق کے بعد بھی اس کو عورت کا نفقہ دینا پڑے گا۔
اخلاقی پہلو سے یہ خرابی لازم آئے گی کہ اگر عدالت طلاق کے بعد بھی سابق شوہر پر نفقہ واجب کرے گا تو مرد یہ چاہے گا کہ ہم کو نفقہ دینا پڑ رہا ہے تو کیوں نہ چھپ چھپا کر اس سے جنسی تعلق بھی قائم کرلیا جائے، جو کہ اب اس کے لیے کسی بھی طرح جائز نہیں ہے؛ بلکہ حرام ہے، ان کے علاوہ اور بھی بہت سی خرابیاں لازم آئیں گی۔
ہمارے فاضل دوست مفتی جمیل اختر جلیلی ندوی حفظہ اللہ نے اس مسئلہ کو بہت ہی وضاحت کے ساتھ سوال و جواب کی شکل میں تحریر کیا ہے، ہم افادۂ عام کے جذبۂ صادق کے ساتھ ان کی تحریر کو بھی شکریہ کے ساتھ اپنی اس تحریر میں شامل کرتے ہیں :
” اس وقت عدالتوں سے مطلقہ کے لئے نفقہ کا فیصلہ ہو رہا ہے، ظاہر ہے کہ شرعی نقطۂ نظر سے صرف عدت ہی کا نفقہ سابق شوہر پر واجب ہوتاہے، توکیا مطلقہ کے لئے بعد از عدت نفقہ کے لئے عدالت سے رجوع کرنا شرعاً درست ہے؟ اور اگر کسی مسلمان عورت کے حق میں عدالت کی طرف سے اس طرح کا فیصلہ ہوجائے توعورت کے لئے سابق شوہر کی طرف سے ہدیہ یا گورنمنٹ کی طرف سے اعانت سمجھ کر عدالت کی مقرر کردہ رقم قبول کرنے کی گنجائش ہوگی؟ اور کیا اس سلسلہ میں بے سہارا مطلقہ اور اس مطلقہ کے حق میں کوئی فرق ہوگا، جس کے نفقہ کا انتظام اس کے خاندان کے لوگ کررہے ہوں؟
مذکورہ سوال میں تین شقیں ہیں:
- ۱-کیا مطلقہ کے لئے بعد ازعدت نفقہ کے لئے عدالت سے رجوع کرنا شرعاً درست ہے؟
- ۲-اگرکسی مسلمان عورت کے حق میں عدالت کی طرف سے اس طرح کا فیصلہ ہوجائے تو عورت کے لئے سابق شوہر کی طرف سے ہدیہ یا گورنمنٹ کی طرف سے اعانت سمجھ کر عدالت کی مقرر کردہ رقم قبول کرنے کی گنجائش ہوگی؟
- ۳-کیا اس سلسلہ میں بے سہارا مطلقہ اوراس مطلقہ کے حق میں کوئی فرق ہوگا، جس کے نفقہ کا انتظام اس کے خاندان کے لوگ کررہے ہوں؟
جہاں تک پہلی شق کے جواب کا تعلق ہے تو فقہائے کرام رحمہم اللہ کے نزدیک نفقۂ مطلقہ کے سلسلہ میں تو اختلاف ہے؛ چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کا مسلک یہ ہے کہ اگر فرقت کا ذمہ دار شوہر ہے تو مطلقہ عورت کے لئے نفقہ اور سکنی ہوگا، خواہ طلاق کوئی سی بھی ہو، ملک العلماء علامہ کاسانیؒ لکھتے ہیں:
أن الفرقة إذا کانت من قبل الزوج بطلاق، فلہا النفقة والسکنی، سواء کانت مطلقة طلاقا رجعیا، أو بائناً، وسواء کانت حاملا، أوحائلا بعد أن کانت مدخولاً بہا عندنا لقیام حق حبس النکاح. (بدائع الصنائع: ۴؍۱۶)
ہمارے نزدیک فرقت اگرطلاق کے ذریعہ سے شوہر کی جانب سے ہو تو حبس نکاح کا حق باقی رہنے کی وجہ سے اس کے لئے نفقہ اور سکنی ہے، خواہ مطلقہ رجعیہ ہو، یا بائنہ اورخواہ حاملہ ہو یا غیرحاملہ، بعد اس کے کہ وہ مدخول بہا ہو۔
باقی ائمہ کے یہاں مطلقہ رجعیہ اور مطلقہ حاملہ کے لئے تو نفقہ وسکنی ہے؛ لیکن غیر حاملہ کے سلسلہ میں اختلاف ہے؛ چنانچہ مالکیہ (حاشیۃ الدسوقی:۲؍۵۱۵) اور شوافع (المہذب: ۲؍۱۶۴) کے نزدیک ایسی عورت کے لئے سکنی تو ہے؛ لیکن نفقہ نہیں، یہی حضرت امام احمدؒ (المغنی: ۹؍۲۸۸) کی بھی ایک روایت ہے، ان کی دوسری روایت یہ ہے کہ ایسی عورت کے لئے نہ نفقہ ہے اور نہ ہی سکنی۔(الإنصاف للمرداوی: ۹؍۳۶۱)۔
لیکن جن کے یہاں نفقہ ہے، ان کے یہاں اس میں اتفاق ہے کہ یہ نفقہ عدت تک ہی ہوگا۔ (الفقہ الإسلامي وأدلتہ: ۷؍۸۶۱)، اور قرآن وحدیث سے اسی بات کاثبوت ہمیں ملتاہے، جب یہ ایک ثابت شدہ مسئلہ ہے تو پھربعد از عدت نفقہ کے لئے عدالت سے رجوع کرنا درست نہیں؛ کیوں کہ قرآن وحدیث اور فقہائے کرام رحمہم اللہ کی تصریحات کو چھوڑ کر عدالت سے رجوع کرنا ” طاغوت ” کی اتباع ہے، جس سے منع کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{ألم تر إلى الذين يزعمون أنهم آمنوا بما أنزل إليك وما أنزل من قبلك يريدون أن يتحاكموا إلى الطاغوت وقد أمروا أن يكفروا به ويريد الشيطان أن يضلهم ضلالا بعيدا} (النساء:60)
کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں اُن سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لیجا کر فیصلہ کرائیں حالانکہ اُن کو حکم دیا گیا تھا کہ اُس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ اُن کو بھگا کر رستے سے دُور ڈال دے ۔
اس آیت کی شرح میں حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
ھذا إنکارمن الله عزوجل علی من یدعی الإیمان بماأنزل علی رسوله وعلی الأنبیاء الأقدمین، وهو مع ذلک یرید التحاکم فی فصل الخصومات إلی غیرکتاب الله وسنة رسوله. (القرآن العظیم: ۲؍ ۳۴۶)
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس شخص پر نکیر ہے، جواللہ کے رسول ﷺاوران سے پہلے کے نبیوں پر نازل شدہ چیزوں پر ایمان رکھتے ہوئے مقدمات کے فیصلہ میں کتاب وسنت کے علاوہ کا قصد کرتا ہے۔
معلوم یہ ہوا کہ بعد از عدت نفقہ کے لئے عدالت سے رجوع کرنا درست نہیں۔
جہاں تک دوسری شق (اگرکسی مسلمان عورت کے حق میں عدالت کی طرف سے اس طرح کا فیصلہ ہوجائے تو عورت کے لئے سابق شوہر کی طرف سے ہدیہ یا گورنمنٹ کی طرف سے اعانت سمجھ کر عدالت کی مقرر کردہ رقم قبول کرنے کی گنجائش ہوگی؟) کا تعلق ہے تواس سلسلہ میں درج ذیل چیزوں کی وضاحت ضروری ہے:
۱-ہدیہ کسے کہتے ہیں؟ اور کیا عدالتی فیصلہ کو ہدیہ سمجھا جاسکتا ہے؟
۲-کیا اسے گونمنٹ کی طرف سے اعانت سمجھا جاسکتا ہے؟
ہدیہ کی تعریف الموسوعة الفقہیة میں اس طرح کی گئی ہے:
ھی المال الذي اُتحف واُھدی لأحد إکراماً له. (الموسوعۃ الفقہیۃ: ۴۲؍۲۵۲)
وہ مال، جو کسی کو اکرام کے طور پر تحفتا دیا جائے۔
علامہ حصکفیؒ لکھتے ہیں:
وھی مایعطی بلاشرط إعانتا۔ (الدرالمختار:۵؍۳۷۲)
(ہدیہ وہ ہے) جو بغیر کسی شرط کے اعانت کے طور پر دیا جائے۔
ان دو نوں تعریفات کوسامنے رکھنے سے واضح طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عدالتی فیصلہ کو ہدیہ نہیں کہا جاسکتا؛ کیوں کہ عدالتی فیصلہ حکم ہے اور حکم نہ تو اعانت ہوتاہے اور نہ ہی اکرام کے لئے ہوتاہے؛ بل کہ یہ ایک لازمی شئی ہوتاہے۔
رہی بات اس کی کہ اسے گورنمنٹ کی طرف سے اعانت سمجھ کرقبول کیا جائے تو اس سلسلہ میں دو شکلیں ہیں:
- ۱-گورنمنٹ یہ رقم بذات خود اداکررہی ہے۔
- ۲-گورنمنٹ مطلقہ کے شوہر سے رقم لے کر ادا کررہی ہے۔
پہلی صورت میں تواس بات کی گنجائش ہے کہ مطلقہ اس رقم کوگورنمنٹ کی طرف سے اعانت سمجھ کرقبول کرلے؛ لیکن دوسری صورت میں درست نہیں؛ کیوں کہ یہ شوہر پر ایسی چیز لازم کرناہے، جو شرعاً اس پر کسی اعتبار سے لازم نہیں ہونی چاہئے اور عورت کا ایسی چیز کا حاصل کرنا ہے، جس کا وہ مستحق نہیں ہے؛ حالاں کہ اس کے لئے درست نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو مستحق سمجھے، علامہ سرخسیؒ لکھتے ہیں:
ولیس لغیرالمستحق أن یسوی نفسه بالمستحق فیما هوالمقصود. (المبسوط، کتاب الشرب:۲۳:۱۷۰)
غیرمستحق کے لئے درست نہیں ہے کہ مقصود میں اپنے آپ کو مستحق کے برابر قراردے۔
جہاں تک تیسری شق (کیااس سلسلہ میں بے سہارا مطلقہ اور اس مطلقہ کے حق میں کوئی فرق ہوگا، جس کے نفقہ کاانتظام اس کے خاندان کے لوگ کررہے ہوں؟) کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں کوئی فرق نہیں ہے، مطلقہ بے سہارا ہو یا سہارا والی ہو، عدت تک کا ہی نفقہ شوہرکے ذمہ ہے، ہاں اگر شوہر بذات خود تبرع کے طورپرکچھ دیناچاہے تواس کی گنجائش ہے؛ لیکن اسے نفقہ نہیں کہاجائے گا، یہ ایک تحفہ ہوگا اوربس، ھذاماعندی، واللہ اعلم بالصواب! "