✍️ وزیر احمد مصباحی
2+ ہائی اسکول، کیری شریف بانکا
_________________
طبیب احسن تابش سے شناسائی کا رشتہ بحال ہوئے آج کئی برس بیت گیے ہیں۔ اچھی طرح یاد ہے کہ دسمبر کی کسی ٹھٹرن بھری شام میں پہلی مرتبہ ان سے شرف گفتگو حاصل ہوا تھا اور میں نے "حضرت! السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ” جیسے جملہ میں واضح طور پہ شفقت، احترام اور خرد نوازی کی جھلک محسوس کی تھی۔ آہستہ آہستہ جب یہ سلسلۂ گفتگو بحال ہوا تو یہ راز منکشف ہوا کہ تابش صاحب تحریر و قلم سے خاصا شغف رکھتے ہیں اور ہماری شناسائی کا اصل مدار بھی یہی ہے۔ بارہا ایسا بھی ہوا کہ انھوں نے میرے مضامین کا اخباری تراشیدہ ارسال فرما کر مسرت و شادمانی کا اظہار فرمایا اور یہ خواہش ظاہر کی کہ حضرت! میں بھی آپ کی طرح مضمون لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ روزنامہ الحیات، رانچی میں جب بھی مضمون شائع ہوتا ہے وہ ایک تصویر ضرور ارسال فرماتے ہیں۔
قارئین! میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کی حوصلہ افزائی کا وہ منفرد انداز ہے جو سرد حوصلوں کو مہمیز کرنے کا کام کرتا ہے۔ بھلا بتائیں کہ سن ١٩٨٤ء/ یعنی ناچیز کی پیدائش کے دس/ پندرہ برس قبل سے ہی جنھوں نے خامہ فرسائی کی ابتدا کر دی ہو انھیں مجھ جیسا بے مایہ کیا ہی فائدہ پہنچا سکتا ہے؟ یقینا تابش صاحب کا یہ اندازِ پذیرائی شاعر مشرق کی زبان میں ہر لمحہ یہی پیغام دیتا ہے کہ
جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
اس وقت تابش صاحب کے طنز و مزاح کا اولین مجموعہ "تو تو میں میں” زیر نظر ہے۔ اس میں شامل اشاعت مضامین اخبارات ورسائل میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔ حوادث زمانہ نے صاحب کتاب کو جن کیفیات سے دوچار کیا ہے انھوں نے انہی تجربات، مشاہدات اور احساسات کو حسن الفاظ کا جامہ پہنا کر قارئین کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
"مجھے مضامین کا گلدستہ پیش کرتے ہوئے مسرت و شادمانی کا احساس ہو رہا ہے۔ مگر مجھے کوئی دعویٰ نہیں، ناقدین و قارئین کی عدالت میں پیش کر دیا ہوں۔
فنکار اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں لکھتا۔ سماج سے جو کچھ ملتا ہے اسی کو خوبصورت سے خوبصورت اسلوب میں ڈھال کر قارئین کے حوالے کر دیتا ہے۔ ساحر لدھیانوی کے اس شعر کے ساتھ
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے اسے لوٹا رہا ہوں میں
یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی محرر/ مصنف سماج و معاشرے سے آنکھیں نہیں چرا سکتا، وہ زمانے کے ہر رنگ و قالب سے متاثر ہوتے ہیں۔ صبح کی سفیدی، شام کی سرخی اور شب دیجور کی سیاہی سے تخیلاتی کائنات کو آباد کرنے والے حساس افراد یقیناً اپنی تحریروں میں دھنک کے سارے رنگ سمیٹ لینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ درد، خوشی، راحت، فراغت، مصروفیت اور غربت وغیرہ جن کیفیات سے بھی ایک قلم کار دو چار ہوتا ہے اس کی جھلک ان کی تحریروں میں موجود ہوتی ہے۔
تابش صاحب نے چونکہ درد و غم اور غربت و مفلسی کا انتہائی قریب سے مشاہدہ کیا ہے اس لیے ان کی تحریروں میں جا بجا درد و الم کی تصویریں ابھرتی نظر آتی ہیں۔ زمینی سطح سے جڑے رہنے میں ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ محرر پوشیدہ حقائق سے نقاب کشائی کا جوکھم بھرا کام انتہائی آسانی سے انجام دے لے جاتا ہے، اور تابش صاحب نے یہ ذمہ داری خوب سلیقے سے نبھائی ہے۔ جس نہج پہ انھوں نے طنز کے تیر برسائے ہیں اس میں غیر اختیاری طور پہ مزاح کے عناصر بھی شامل ہو گیے ہیں۔
فن طنز و مزاح یقینا انتہائی مشکل فن ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کے ساتھ انصاف کا پیمانہ وہی شخص قائم کر سکتا ہے جس کی طبیعت طنز و مزاح سے میل کھاتی ہو اور آنکھ و دماغ سے ہر دیکھی و سوچی ہوئی بات میں بے اختیار طنز و مزاح کے نادر گوشے تلاش کر لیتے ہوں۔ بطور مثال یہ اقتباس دیکھیں کہ انھوں نے قارئین کی زیر لب مسکراہٹ کے لیے کیسا عمدہ سامان مہیا کر دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
"جب میں بس کے قریب گیا تو دیکھا اس پر لکھا ہوا تھا "ٹاٹا”۔ میں نے کہا ہم لوگوں کو جمشید پور جانا ہے۔ یہ گاڑی تو ٹاٹا جائے گی۔ ایجنٹ نے کہا جمشیدپور کو ٹاٹا بھی کہتے ہیں۔ میں نے اس کی بات مان لی، میں نے اس کے ہاتھ پر دو سو روپے کا نوٹ تھمایا اور گاڑی کی طرف چلنے لگا، ایجنٹ نے زور سے آواز لگائی سنیے بھائی صاحب! یہ تو دو سو روپے ہیں۔ میں نے کہا اس کو پانچ سو روپے مان لو! اس میں کیا دقت ہے؟ میں نے کیسے آپ کی بات مان لی کہ جمشید پور کو "ٹاٹا” بھی کہتے ہیں”۔ (ص:٨٤، ایک سفر رانچی سے شہر آہن تک)
کہتے ہیں کہ ایک مضمون نگار کا نصف مضمون اسی وقت مکمل ہو جاتا ہے جب وہ مناسب عنوان/ سرخی کے انتخاب میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ زیر نظر کتاب کی فہرست سے آنکھیں ملانے کے بعد یہ احساس یقین کی حد تک گہرا ہو جاتا ہے کہ صاحب کتاب نے بڑی انہماک سے خاکوں میں رنگ بھرنے کا کام کیا ہے اور کل ٤١/ مضامین کے توسط سے اصلاح معاشرہ کا ایک بڑا فریضہ انجام دیا ہے۔ جگہ جگہ محاوروں اور روز مروں کے استعمال نے بھی قرأت کی چاشنی میں اضافہ کرنے کا کام کیا ہے۔ عام طور سے گھریلو زندگی میں مستعمل چھوٹی موٹی اشیا سے بھی انھوں نے دور رس نتائج اخذ کرنے کا کام کیا ہے۔ جن چیزوں سے ہمارا روز کا سامنا ہوتا ہے اور فکری سطح پہ ہم کسی بھی نقطہ نگاہ کی تلاش میں ناکام ہوتے ہیں، ان کے ذریعے ایک سلجھا ہوا قلم کار بآسانی بڑی دور کی کوڑیاں نکال لاتے ہیں اور یہی ان کی خوبی بھی شمار ہوتی ہے۔ یہ اقتباس دیکھیں کہ صاحب کتاب نے کس طرح حقیقت کا اظہار دو ٹوک انداز میں کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
"ہم آپ اگر اپنے غریب خانہ پر صحت کے اصولوں پر چلتے ہوئے زندگی گزاریں تو مجھے امید ہے دوا خانہ جانے کی نوبت نہ آئے گی۔ اگر کھانا ان لیمیٹیڈ ہوگا تو ظاہر سی بات ہے دوا بھی ان لیمیٹیڈ ہی کھانی پڑے گی۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ اپنی صحت سے زیادہ اوروں کی صحت کا خیال کر لیتے تھے۔ جب ہر شخص کے اندر یہ جذبہ ہوگا تو پورا معاشرہ صحت مند ہوگا۔ دور دور تک کوئی بیماری کا نام و نشاں نہیں ملے گا۔ آج ہم طرح طرح کی بیماری میں مبتلا اس لیے ہیں کہ نہ خود بیماریوں سے بچنے کا کوئی لائحہ عمل تیار کرتے ہیں نہ دوسرے کی تیار کردہ راہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کرانہ دکان سے زیادہ دوا دکان پر بھیڑ نظر آتی ہے۔ انسان کی زندگی میں اب تو یہ معمول بن گیا کہ کھانا آدمی دو وقت کھاتا ہے مگر دوا تین وقت کھانا پڑ رہا ہے”۔ ( ص:١٣١، کھانا سے دوا خانہ تک)
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
"پہلے حکیموں کا کہنا تھا کہ نہار منہ چنا گڑ کھانے سے ہاضمہ ٹھیک رہتا ہے۔ اب ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ نہار منہ گیس کی دوا کھائیں۔ طرز زندگی الٹ گیا ہے”۔ (ص:١٣٢، ایضا)
مذکورہ اقتباس کی روشنی میں یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ تابش صاحب کو بڑی سے بڑی بات بھی سلیس و سادہ اسلوب میں پیش کرنے کا ہنر خوب آتا ہے۔ وہ فن طنز و مزاح کے رموز اور اس کی متقاضی زبان و بیان سے بھی آشنا ہیں۔ بعض مقامات پہ انھوں نے علاقائی زبان کا بھی استعمال کیا ہے اور اس طرح وہ قارئین کی دلچسپی کے لیے عمدہ سامان مہیا کر گیے ہیں۔ کبھی مضمون کی سرخی ہی اس طرح قائم کرتے ہیں کہ قاری لوٹ پوٹ ہو جائے۔ یہ چند سرخیاں ملاحظہ فرمائیں:
- (١) دیدار خرافات
- (٢) دامادوں کی کانفرنس
- (٣) لیٹر سے لو لیٹر تک
- (٤) اچھے میاں کا بکرا
- (٥) آئیے! پھینکنا سیکھیں
- (٦) کھٹیا
- (٧) فقیروں کی کانفرنس
- (٨) آئیے! قابل بنتے ہیں۔ وغیرہ
کتاب میں موجود انتساب راقم الحروف کو بے انتہا پسند آیا۔ لکھتے ہیں: ” ان لبوں کے نام جو ایک تبسم کو ترستے ہیں”۔ یہ وہ خوبصورت لائن ہے جو بلاشبہ حق ہے۔ آج کی مشینی و مادی دور میں جب کہ آدمی ایک گلریز تبسم کے لیے ترس جا رہا ہے، ایسے ماحول میں اگر کسی کی تحریر مسکراہٹ کی وجہ بن جائے تو پھر اس سے بڑھ کر اس کے لیے کامیابی کی کلید کیا ہوگی۔
کتاب میں اصل مضمون کی ابتدا سے قبل ڈاکٹر اختر آزاد، ڈاکٹر وکیل احمد رضوی، شبیر حسن شبیر، ڈاکٹر محمد حذیفہ اور عزیز احمد حمزہ پوری نے کتاب و صاحب کتاب کے حوالے سے بالترتیب اپنی باتیں رکھی ہیں۔ ڈاکٹر محمد حذیفہ نے صاحب کتاب سے متعلق جن حقائق کا اظہار کیا ہے وہ بالکل حق ہیں۔ لکھتے ہیں:
"طبیب صاحب کی تحریروں میں اصلاحی جذبہ کی کارفرمائی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ان کے مضامین صرف ہنسنے ہنسانے تک محدود نہیں بلکہ دعوت فکر بھی دیتے ہیں اور اپنی درستگی اور بہتری کی ترغیب بھی۔ انھیں زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔ وہ بات سے بات پیدا کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ لفظوں کے انتخاب، شگفتہ خیالی اور اسلوب کی دلکشی سے تحریر میں جان ڈال دیتے ہیں جس سے ایک قسم کی حلاوت پیدا ہو جاتی ہے۔” (ص: ٣١،٣٠)
تابش صاحب نے اپنے مضامین میں جن خیالات کا بھی اظہار کیا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ صفحۂ قرطاس پہ نمودار ہونے سے قبل تجرباتی کسوٹی پہ خوب پرکھے جا چکے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ معاشرے کی دکھتی رگوں پہ ہاتھ رکھ کر طنز و مزاح کے سانچے میں مرہم رکھنے والوں میں طبیب احسن تابش کا نام عزت و احترام سے لیا جائے گا۔ تابش صاحب نے جو کچھ بھی تحریر کیا ہے دلائل کی روشنی میں لکھا ہے اور اس طرح مختصر جملوں میں جراحی کر گیے ہیں کہ قارئین کبیدہ خاطر ہوئے بغیر دل جمعی کے ساتھ مطالعہ کر سکتے ہیں۔ مجموعہ میں سب سے پہلا مضمون ” کاش! چھپ جاتی میری بھی تصویر” کے عنوان سے شامل ہے۔ اس میں بغیر کسی تگ و دو کے دلی خواہش کی تکمیل پر انسانی مسرت و شادمانی کو جس طرح پراسرار طریقے سے بیان کیا گیا ہے وہ ابتدا تا انتہا قارئین کی دلچسپی کے لیے ٹھہراؤ کا کام کرتی ہیں۔ درمیان مضمون بڑی جامع بات کہی ہے کہ:
"اگر آپ قد میں چھوٹے بھی ہیں اور عہدہ میں بڑے ہیں تو آپ کا قد جم غفیر میں بھی اونچا رہے گا”۔ (ص: ٣٦)
تابش صاحب نے زندگی کے نشیب و فراز کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے، زمانے کے سرد و گرم کا خوب اندازہ ہے، عام فہم لہجے میں انھیں اپنی بات رکھنے کا ہنر اچھی طرح آتا ہے۔ ہاں! یہ ان کی خوبی یا خامی کہیے کہ شامل اشاعت تمام مضامیں بیگم کے تذکرہ سے خالی نہیں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ تحریر و محرر کے بین بیگم نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ فن طنز و مزاح کی تاریخ صاحب کتاب کے نزدیک تذکرۂ بیگم کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ہو۔
قارئین! ان دنوں کانفرنسوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے، رسم اجرا کا چلن خوب زوروں پہ ہے۔ آج کل لوگ جتنی محنت کتاب تصنیف کرنے میں نہیں کرتے اس سے کہیں زیادہ وقت اور محنت کتاب کی رسم اجرا میں لگا رہے ہیں اور یہ وہ حقیقت ہے جسے کسی بھی صورت جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صاحب کتاب نے لکھا ہے کہ:
"مجھے یاد ہے کہ بچپن میں دو کتابیں بڑی محنت لگن کے ساتھ اساتذہ پڑھاتے تھے اور طلبا پڑھتے تھے۔ ایک کتاب تھی "اردو کا قاعدہ” دوسری کتاب ہندی کی "منوہر پوتھی” ان ہی دو کتابوں سے تعلیم کی ابتدا ہوتی تھی۔ پھر دھیرے دھیرے دوسری کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔ ان ہی بنیادی کتابوں کے ذریعے بڑے بڑے دانشور پیدا ہوئے۔ وہ بھی لالٹین اور چراغ کی روشنی میں، اس وقت برقی آلات اتنا عام نہ ہوئے تھے۔ کتابیں پڑھنے والے زیادہ تھے، لکھنے والے کم۔ اس لیے کتابوں کی رسم اجرا اس وقت کم ہوتی تھی۔ رسمیں تو بہت تھیں مگر رسم اجرا نہیں کے برابر۔ اب دوسری رسمیں دھیرے دھیرے ختم ہو رہی ہیں مگر رسم اجرا بہت تیزی سے کامیابی کی طرف گامزن ہے”۔ (ص: ٥٨)
ص:١١٨، پہ مضمون”دادا کا چشمہ” شامل ہے۔ کہانی کے تانے بانے جس طرح بنے گیے ہیں وہ انتہائی حیرت انگیز ہیں۔ کہانی کے اختتام پر ہی یہ راز عیاں ہوتا ہے کہ چیزین اگرچہ چھوٹی ہی کیوں نہ ہوں، کبھی کبھار وہ اس طرح بڑے سے بڑا کام کر جاتی ہیں کہ ہماری سوچ و فکر کی طنابیں بھی وہاں تک رسائی حاصل نہیں کر پاتیں۔
مضمون "پاکٹ سے پاکٹ ماری تک” بہت دلچسپ ہے۔ آج معاشرے میں یہ برائی بہت عام ہو چکی ہے، بس پڑاؤ اور ریلوے اسٹیشن وغیرہ پہ دن دھاڑے پاکٹ مار دوسروں کی خوشیاں تاراج کرتا رہتا ہے۔ صاحب مضمون نے مزاح کے دوش پہ خوب طنز کسنے کا کام کیا ہے اور ساتھ ہی پاکٹ کی اہمیت سے بھی پردہ اٹھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ لکھتے ہیں:
"انسان کا مزاج جس طرح گرم اور کبھی ٹھنڈا ہوتا ہے اسی طرح پاکٹ بھی کبھی گرم اور کبھی ٹھنڈا ہوتی ہے۔ اگر آپ کی پاکٹ گرم ہے تو آپ کی بیگم کا مزاج ٹھنڈا رہے گا۔ اگر آپ کی پاکٹ جہاں ٹھنڈی ہوئی آپ کا اور بیگم دونوں کا مزاج گرم ہونا عین فطری عمل ہے۔ آج دنیا میں بے چینی کی وجہ صرف پاکٹ کا ٹھنڈا ہو جانا ہے۔ پاکٹ گرم رہتی ہے تو زندگی کا سارا نظام خوبصورت انداز میں چلتا رہتا ہے۔ پاکٹ کے ہی نشیب و فراز سے آج انسان کی عزت و وقار بلند ہوتا ہے۔ پاکٹ کی گرمی ہی آپ کو انفرادی شان عطا کرتی ہے۔ اگر یہ ٹھنڈی ہو گئی تو کسی مقام پر آپ نظر نہیں آئیں گے۔ پاکٹ ٹھنڈی ہونا باعث تذلیل بھی ہے”۔ (ص: ٩٠)
بلا شبہہ سیاق و سباق کی مناسبت سے تحریر و تقریر میں اشعار کا استعمال نہلے پہ دہلا کا کام کرتا ہے۔ متکلم کی باتیں باوزن اور مخاطب/ سامعین لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ زیر تبصرہ کتاب مطالعہ کرتے وقت یہ معلوم ہوا کہ صاحب کتاب کو اشعار بہت زیادہ ازبر ہیں، تمام مضامیں ہی مختلف اشعار سے مزین ہیں اور اس طرح پوری کتاب میں ٩٥/٩٤ ایسے اشعار استعمال کیے گیے ہیں جن میں اکثریت مرزا غالب اور میر تقی میر کی ہیں۔ پیچیدہ و گنج لک عبارتوں سے گریز کیا گیا ہے۔ ہاں! اکثر جگہوں پہ املا کی غلطیاں در آئی ہیں، رموز اوقاف کا بھی غیر ضروری استعمال کر لیا گیا ہے اور اس کی وجہ سے عبارت کا حسن کافی حد تک متأثر ہوتا نظر آتا ہے۔ غالب گمان ہے کہ نظر ثانی میں سستی و کاہلی نے راہ پا لیا ہو۔
اب چلتے چلتے بطور خلاصہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زیر نظر گلدستہ طنز و مزاح کے باب میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔ امید قوی ہے کہ ایسے دور میں جب کہ اس فن کی جانب بہت کم توجہ دی جا رہی ہے، اہل ادب اسے سراہنا دیں گے اور تابش صاحب نے اصناف سخن میں جس صنف کا انتخاب کیا ہے وہ اس کے تقاضوں کو پورا کریں گے اور مستقبل میں بھی ہمیں اسی طرح طنز و مزاح کی دیگر جدید کاوشوں سے سرفراز فرماتے رہیں گے۔ اہل ذوق قارئین ٣٠٠/ روپے کی ادائیگی کے ساتھ آزاد کتاب گھر، جمشید پور اور کرن بک ڈپو، رانچی وغیرہ سے حاصل کر سکتے ہیں۔