حضرت حسین رضی اللہ عنہ
محمد فہیم الدین بجنوری
________________
حضرت حسین رضی اللہ عنہ اولوالعزم اور جہانگیر طبیعت کے مالک تھے، شاہین صفت انسان کو فروتنی کے درس سے متاثر کرنا ممکن نہیں ہوتا، خود دار، ذی وقار، باوزن، حوصلہ مند، بلند ہمت اور روشن ضمیر شخص کو مداہنت یا عاجزانہ مصالحت کے گرداب میں محصور نہیں کیا جا سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ اکابرِ امت کی نصیحتیں بارآور نہیں ہوئیں، وہ سید تھے اور سیادت کا سرِ رشتہ بھی تھے، جہاں بانی اور امت کی پیشوائی کے لیے ان کی جبینِ پاک کے نقوش ناقابلِ تسخیر تھے، انھوں نے حسنی مصالحت کو بھی دل سے قبول نہیں کیا تھا، برادرِ بزرگ کے احترام میں خاموش ہو گئے تھے، یزید تک نوبت آگئی تو سکوت کے جملہ معانی ختم ہو گئے اور ان کو میدان میں آنا پڑا۔
حضرت حسین، مردِ شجاع، مردِ مؤمن اور اسلام کے شیر تھے، شیروں کو روباہی نہیں آتی، دشمنوں نے ان کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھایا، فتنوں کی نبض شناسی، سازشوں کی قیافہ دانی اور خفیہ کاروائیوں کی آہٹیں سن لینا؛ یہ چیزیں شجاعت کے حسینی ورژن میں نہیں پائی جاتیں۔
سچی بات یہ ہے کہ حسینی اقدام بدر ہی کا تسلسل ہے، آتشِ نمرود میں بے خطر کودنا ہماری اجتماعی شناخت ہے، تاریخ اٹھا کر دیکھ لو، برابر کے دشمن سے ہم کبھی نہیں بھڑے، تین سو تیرہ بہ مقابلہ ایک ہزار کے تناسب سے کبھی تنزل اختیار نہیں کیا۔
نائن الیون کے بعد ایک حسینی وارث نے کہا تھا کہ اگر یہود کا ہاتھ ثابت ہوگیا تو غم سے مر جاؤں گا، یہ کارنامہ تو "اس ا م ہ” ہی کی شانِ ایمان کو زیب دیتا ہے، اگر کربلا نہ ہو تا تو ہم ماتم زدہ ہوتے، حضرت حسین کے کرب وبلا نے امت کی دستارِ فخر اور مایۂ عز وشرف کو سرخ روئی عطاء کی۔